سوال:
موبائل میں بیلنس ختم ہونے کی صورت میں کمپنی سے لون لیا جاتا ہے، پھر بیلنس ڈلوانے پر کمپنی اضافی چارجز سمیت وہ رقم کاٹ لیتی ہے، تو کیا یہ سود میں شمار ہوگا؟
جواب: موبائل کمپنی اگررقم خدمت(Service ) مہیا کرنے کے عوض وصول کرتی ہے تو جائز ہے، اوراگر قرض دے کر اس کا عوض وصول کرتی ہے تو سود ہے۔
کمپنیوں کی وضاحت اس معاملہ میں مختلف اوقات میں مختلف رہی ہیں، اس وجہ سے اس سے اجتناب کرنا چاہیے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
القرآن الکریم: (البقرة، الایة: 278- 279)
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا اللَّهَ وَذَرُوا مَا بَقِيَ مِنَ الرِّبَا إِنْ كُنْتُمْ مُؤْمِنِينَo فَإِنْ لَمْ تَفْعَلُوا فَأْذَنُوا بِحَرْبٍ مِنَ اللَّهِ وَرَسُولِهِ ۖ وَإِنْ تُبْتُمْ فَلَكُمْ رُءُوسُ أَمْوَالِكُمْ لَا تَظْلِمُونَ وَلَا تُظْلَمُونَo
الاشباہ و النظائر: (226/1، ط: دار الکتب العلمیة)
کل قرض جر نفعا حرام.
الدر المختار: (172/5، ط: دار الفکر)
(وعلته) أي علة تحريم الزيادة (القدر) المعهود بكيل أو وزن (مع الجنس فإن وجدا حرم الفضل) أي الزيادة (والنساء) بالمد التأخير فلم يجز بيع قفيز بر بقفيز منه متساويا وأحدهما نساء (وإن عدما) بكسر الدال من باب علم ابن مالك (حلا) كهروي بمرويين لعدم العلة فبقي على أصل الإباحة (وإن وجد أحدهما) أي القدر وحده أو الجنس (حل الفضل وحرم النساء) ولو مع التساوي
رد المحتار: (64/6، ط: دار الفکر)
وفي الحاوي: سئل محمد بن سلمة عن أجرة السمسار، فقال: أرجو أنه لا بأس به وإن كان في الأصل فاسدا لكثرة التعامل وكثير من هذا غير جائز، فجوزوه لحاجة الناس إليه كدخول الحمام
واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی