سوال:
السلام علیکم، حضرت ! اگر کوئی شخص نکاح کے بعد رخصتی سے پہلے اپنی بیوی کے ساتھ تنہائی میں کچھ وقت گزار دے اور دخول کے علاوہ باقی بوس و کنار کر لے تو کیا یہ انکی شب عروسی اور رخصتی کہلائی گی اور اسکے بعد ولیمہ کا کیا حکم ہوگا۔ اور اسی طرح نکاح کے بعد رخصتی سے پہلے میاں بیوی ساتھ میں رات گزارلے اور دخول بھی کرے تو کیا یہ انکی رخصتی اور شب عروسی کہلائی گی اور اسکے بعد ولیمہ کا کیا حکم ہوگا؟ حضرت اگر ہوسکے تو جواب جلد دیدیں، عین نوازش ہوگی۔ جزاكَ اللّٰه
جواب: ۱۔ ولیمہ کا کھانا اس کھانے کو کہا جاتا ہے، جو میاں بیوی کے اکٹھا ہونے، یعنی شبِ زفاف کے بعد کھلایا جاتا ہے، حدیث شریف میں ہے کہ آپﷺ نے حضرت زینب رضی اللہ تعالیٰ عنھا کے ساتھ شبِ زفاف کے بعد ولیمہ کیا۔
۲۔ واضح رہے کہ اگر نکاح کے بعد میاں بیوی تنہائی میں ایسی جگہ جمع ہوں، جہاں ازدواجی تعلقات قائم کرنے میں کوئی حسی، شرعی یا طبعی مانع نہ ہو، اگرچہ ایسی تنہائی کے باوجود ازدواجی تعلق قائم نہ کیا ہو، تب بھی خلوتِ صحیحہ ہوجاتی ہے اورخلوتِ صحیحہ بہت سے احکامات میں چوں کہ دخول کے قائم مقام ہے، اس لیے اگر شبِ زفاف میں خلوتِ صحیحہ ہوجائے اور دخول نہ ہو، تو بھی اس کے بعد ہونے والے ولیمہ کو ’’ولیمہ مسنونہ‘‘ کہا جاسکتا ہے، البتہ دخول کے بعد ولیمہ کرنا افضل ہے۔
لہذا سوال میں ذکرکردہ صورت میں جب تنہائی میں میاں بیوی کی ملاقات ہوگئی اور بوس وکنار بھی ہوا، تو ان کی شبِ زفاف ہوگئی، اسی طرح اگر رخصتی سے پہلے اگر میاں بیوی ازدواجی تعلقات قائم کرچکے ہیں، تب بھی ان کی شبِ زفاف ہوگئی، اس کے بعد جس قدر جلد ہوسکے، ولیمہ کیا جائے، اتنا ہی سنت کے قریب ہوگا، حدیث شریف میں شبِ زفاف کے تیسرے دن تک ولیمہ کا ثبوت ملتا ہے، اور سب سے بہتر یہ ہے کہ اگر ممکن ہو، تو پہلے دن ولیمہ کا انتظام کیا جائے، اگر پہلے دن ممکن نہ ہو، تو دوسرے دن، ورنہ پھر تیسرے دن انتظام کر لیا جائے، تیسرے دن کے بعد ولیمہ کرنا فقط ضیافت شمار ہوگا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
صحيخ البخاري: (رقم الحديث: 4794، ط: دار طوق النجاۃ)
عن أنس رضي الله عنه، قال: «أولم رسول الله صلى الله عليه وسلم حين بنى بزينب بنت جحش، فأشبع الناس خبزا ولحما، ثم خرج إلى حجر أمهات المؤمنين كما كان يصنع صبيحة بنائه، فيسلم عليهن ويسلمن عليه، ويدعو لهن ويدعون له، فلما رجع إلى بيته رأى رجلين جرى بهما الحديث، فلما رآهما رجع عن بيته، فلما رأى الرجلان نبي الله صلى الله عليه وسلم رجع عن بيته وثبا مسرعين، فما أدري أنا أخبرته بخروجهما أم أخبر، فرجع حتى دخل البيت وأرخى الستر بيني وبينه، وأنزلت آية الحجاب».
عارضة الأحوذي لابن العربي: (8/1، ط: دار الكتب العلمية)
السنة في الوليمة أن تكون بعد البناء، وطعام ما قبل البناء لا يقال له وليمة عربية.
وعجبا لبعض شيوخنا، قال: يحتمل أن يكون قول النبي لعبد الرحمن بن عوف: أولم قبل البناء. وهذا رجل جاهل بالعربية؛ لا يسمى وليمة إلا ما كان بعد البناء، ولو كان قبل البناء، لقال له: شندخ.
بذل المجهود: (20/8- 21، ط: مركز الشيخ أبي الحسن الندوي، الهند)
قال الأزهري: الوليمة مشتقة من الولم، وهو الجمع؛ لأن الزوجين يجتمعان، وقال ابن الأعرابي: أصلها تمام الشيء، واجتماعه، وتقع على كل طعام يتخذ لسرور، وتستعمل في وليمة الأعراس بلا تقييد، وفي غيرها مع التقييد، فيقال مثلا: وليمة مأدبة، هكذا قال بعض الفقهاء، وحكاه في "الفتح" عن الشافعي وأصحابه، وحكى ابن عبد البر عن أهل اللغة، وهو المنقول عن الخليل وثعلب، وبه جزم الجوهري، وابن الأثير أن الوليمة هي الطعام في العرس خاصة. قال ابن رسلان: وقول أهل اللغة أقوى؛ لأنهم أهل اللسان، وهم أعرف بموضوعات اللغة، وأعلم بلسان العرب، انتهى.۔۔۔واختلف السلف في وقتها، هل هو عند العقد، أو عقبه، أو عند الدخول، أو عقبه، أو يوسع من ابتداء العقد إلى انتهاء الدخول؟ على أقوال. قال السبكي: والمنقول من فعل النبي - صلى الله عليه وسلم - أنها بعد الدخول، وفي حديث أنس عند البخاري وغيره التصريح بأنها بعد الدخول، لقوله: أصبح عروسا بزينب فدعا القوم.
و فیه أيضاً: (271/11)
ويجوز أن يولم بعد النكاح أو بعد الرخصة أو بعد أن يبني بها، والثالث هو الأولى.
الهندية: (304/1، ط: دار الفکر)
والخلوة الصحيحة أن يجتمعا في مكان ليس هناك مانع يمنعه من الوطء حسا أو شرعا أو طبعا.
واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی