سوال:
السلام علیکم، مفتی صاحب! کیا درج ذیل بات درست ہے؟
”کسی معاملہ میں جلد رہنمائی اور اللہ کی تعالی کی رائے معلوم کرنے کے لیے یہ دعا پڑھیں: "اللھم خرلی واخترلی"“ براہ کرم رہنمائی فرمادیں۔
جواب: واضح رہے کہ استخارہ ( اللہ تعالی سے خیر اور بھلائی طلب کرنا) صرف اہم اور بڑے کاموں میں ہی نہیں، بلکہ اپنے ہر کام میں کرنا چاہیے، خواہ وہ کام چھوٹا ہو یا بڑا ہو، لہذا جب کسی کام کا ارادہ کیا جائے اور مسنون استخارہ کے لیے مہلت نہ ہو اور فوری فیصلے کی ضرورت ہو تو ایسے موقع پر نبیﷺ نے اپنی امت کے لئے ایک مختصر استخارہ تجویز فرمایا ہے، تاکہ استخارہ سے محرومی نہ ہوجائے، وہ دعا یہ ہے:
" اَللّٰھُمَّ خِرْ لِیْ وَاخْتَرْ لِیْ " (اے اللہ !میرے لیے میرے معاملے کو خیر کا ذریعہ بنا، اور میرے لئے جو درست ہو، وہ پسند فرما)۔
اس حوالہ سے سنن ترمذی میں روایت مذکور ہے، جس کا ترجمہ درج ہے:
حضرت ابو بکر صدیق رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب کسی کام کا ارادہ کرتے تو یہ دعا فرماتے تھے: "اللهم خر لي واختر لي". (اے اللہ! میرے لیے میرے معاملے کو خیر کا ذریعہ بنا، اور میرے لیے جو درست ہو وہ پسند فرما)۔
حدیث کى اسنادى حیثیت:
اس حدیث کی سند پر امام ترمذی رحمہ اللہ نے کلام کرتے ہوئے "زنفل بن عبداللہ عرفی" کو ضعیف قرار دیا ہے، تاہم فضائل کے باب میں توسع ہونے کی وجہ سے روایت کو آگے نقل کرنا اور عمل کرنا درست ہے۔
مختصر استخارے کے دیگر کلمات:
2۔اَللّٰھُمَّ اھْدِنِیْ وَسَدِّدْنِیْ.(صحیح مسلم)
ترجمہ: اے اللہ ! مجھے صحیح ہدایت عطا فرما، اور مجھے سیدھے راستے پر رکھ۔
3۔اَللّٰہُمَ اَلْھِمْنِیْ رُشْدِیْ. (سنن ترمذی)
ترجمہ: اے اللہ ! جو صحیح راستہ ہے وہ میرے دل میں ڈال دیجیے۔
مذکورہ دعاؤں میں سے جو دعا یاد آجائے، اس کو پڑھ لیا جائے، اگر عربی میں دعا یاد نہ آئے تو اردو ہی میں دعا کرلی جائے کہ اے اللہ! مجھے یہ معاملہ درپیش ہے، آپ مجھے صحیح راستہ دکھا دیجیے۔ اگر زبان سے نہ کہہ سکیں تو دل ہی دل میں اللہ تعالی سے کہہ دیں کہ یا اللہ! یہ مشکل اور یہ پریشانی پیش آگئی ہے، آپ ہی صحیح راستے پر ڈال دیجیے، جو راستہ آپ کی رضا کے مطابق ہو اور جس میں میرے لیے خیر ہو وہ اپنى رحمت وعافیت کے ساتھ میرے لیےمقدر فرما دیجیے۔ سو انجام کے اعتبار سے ضرور کامیابی مقدر ہوگی. (ان شاء اللہ)
استخارہ کا مقصد:
اس حوالہ سے محدث العصر حضرت مولانا سید محمد یوسف بنوری رحمہ اللہ لکھتے ہیں کہ :
”واضح ہو کہ استخارہ مسنونہ کا مقصد یہ ہے کہ بندے کے ذمے جو کام تھا, وہ اس نے کرلیا اور اپنے آپ کو حق تعالی کے علم محیط اور قدرت کاملہ کے حوالہ کردیا، گویا استخارہ کرنے سے بندہ اپنی ذمہ داری سے سبکدوش ہوگیا ، ظاہر ہے کہ اگر کوئی انسان کسی تجربہ کار عاقل اور شریف شخص سے مشورہ کرنے جاتا ہے تو وہ شخص صحیح مشورہ ہی دیتا ہے اور اپنی مقدور کے مطابق اس کی اعانت بھی کرتا ہے ، گویا استخارہ کیا ہے؟ حق تعالی سے مشورہ لینا ہے، اپنی درخواست استخارہ کی شکل میں پیش کردی، حق تعالی سے بڑھ کر کون رحیم وکریم ہے؟ اس کا کرم بے نظیر ہے ، علم کامل ہے اور قدرت بے عدیل ہے ، اب جو صورت انسان کے حق میں مفید ہوگی، حق تعالی اس کی توفیق دے گا ، اس کی رہنمائی فرمائے گا ، پھر نہ سوچنے کی ضرورت ، نہ خواب میں نظر آنے کی حاجت، جو اس کے حق میں خیر ہوگا وہی ہوگا ، چاہے اس کے علم میں اس کی بھلائی آئے یا نہ آئے ، اطمینان وسکون فی الحال حاصل ہویانہ ہو ، ہوگا وہی جو خیر ہوگا ، یہ ہے استخارہ مسنونہ کا مطلوب !اسی لئے تمام امت کے لئے تاقیامت یہ دستور العمل چھوڑا گیا ہے“۔ (دورحاضر کے فتنے اور ان کا علاج)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
سنن الترمذی،لمحمد بن عیسی الترمذي، أبواب الدعوات، 535/5، رقم الحدیث:3516، محقق المجلد الرابع والخامس:إبراهيم عطوة عوض المدرس في الأزهر الشريف ، الناشر: شركة مكتبة ومطبعة مصطفى البابي الحلبي – مصر:
عن أبي بكر الصديق، أن النبي ﷺ كان إذا أراد أمرا قال: «اللهم خر لي واختر لي»
هذا حديث غريب لا نعرفه إلا من حديث زنفل: وهو ضعيف عند أهل الحديث، ويقال له: زنفل بن عبد الله العرفي، وكان يسكن عرفات، وتفرد بهذا الحديث، ولا يتابع عليه۔
صحيح مسلم ، لمسلم بن الحجاج القشیري، کتاب الذکر والدعاء،باب التعوذ من شر ما عمل ومن شر ما لم یعمل، 4/ 2090، رقم الحدیث: (2725)، ط: دار إحياء التراث العربي-بيروت:
عن علي-رضي الله عنه-، قال: قال لي رسول الله ﷺ: «قل اللهم اهدني وسددني، واذكر، بالهدى هدايتك الطريق، والسداد، سداد السهم»، وحدثنا ابن نمير، حدثنا عبد الله يعني ابن إدريس، أخبرنا عاصم بن كليب، بهذا الإسناد قال: قال لي رسول الله صلى الله عليه وسلم: «قل اللهم إني أسألك الهدى والسداد»
سنن الترمذي : (أبواب الدعوات، 5/ 397، رقم الحدیث: (3483)، ط: دار الغرب الإسلامی-بیروت:
عن عمران بن حصين-رضي الله عنه-، قال: قال النبي ﷺ لأبي: «يا حصين كم تعبد اليوم إلها»؟ قال أبي: سبعة ستة في الأرض وواحدا في السماء. قال: «فأيهم تعد لرغبتك ورهبتك»؟ قال: الذي في السماء. قال: «يا حصين أما إنك لو أسلمت علمتك كلمتين تنفعانك». قال: فلما أسلم حصين قال: يا رسول الله علمني الكلمتين اللتين وعدتني، فقال: " قل: اللهم ألهمني رشدي، وأعذني من شر نفسي "۔ «هذا حديث غريب وقد روي هذا الحديث عن عمران بن حصين من غير هذا الوجه»
الزهد والرقائق لابن المبارك، باب في الرضا بالقضاء، 32/2، المحقق: حبيب الرحمن الأعظمي، الناشر: دار الكتب العلمية – بيروت:
عن مكحول الأزدي قال: سمعت ابن عمر يقول: «إن الرجل يستخير الله تبارك وتعالى فيختار له، فيسخط على ربه عز وجل، فلا يلبث أن ينظر في العاقبة، فإذا هو خير له»
واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی