عنوان: نماز میں نیت تبدیل کرنے سے نماز کی ادائیگی کا حکم (9616-No)

سوال: السلام علیکم، مفتی صاحب! ایک شخص نماز کی امامت کے لئے کھڑا ہوا، اور ایک مقتدی ساتھ تھا، عشاء کی نماز کا وقت تھا، لیکن امام کے ذہن میں تھا کہ ہمیں مغرب پڑھنی ہے، نماز شروع کی، دوسری رکعت کیلئے اٹھتے ہوئے امام کے ذہن میں آگیا کہ میں تو مغرب پڑھ چکا ہوں، اس نے عشاء کی نیت سے چار رکعتیں ادا کیں، تاہم وقت فارغ ملنے پر احتیاطاً اس نے نماز عشاء لوٹا دی، لیکن مقتدی کو نہیں بتایا۔ براہ کرم رہنمائی فرمائیں کہ کیا مقتدی کی نماز ہوگئی یا اسے بھی واپس ادا کرنی ہوگی؟

جواب: سوال میں ذکر کردہ صورت میں اگر امام نے دوسری رکعت میں صرف نیت تبدیل کرتے ہوئے عشاء کی نماز کی نیت کی ہو، لیکن اس کے لیے باقاعدہ تکبیر تحریمہ (یعنی الله اکبر) نہ کہی ہو تو اس طرح چونکہ شرعاً نیت کی تبدیلی معتبر نہیں ہے، لہذا وقت کی درست تعیین نہ ہونے کی وجہ سے عشاء کی نماز ادا نہیں ہوئی، کیونکہ مغرب کی نماز کی نیت سے عشاء کی نماز ادا نہیں ہوتی۔ ایسی صورت میں عشاء کی نماز کا اعادہ امام و مقتدی دونوں کے ذمہ لازم ہے، امام کی ذمہ داری ہے کہ وہ مقتدی کو اس مسئلہ کے بارے میں مطلع کرے، تاکہ وہ بھی اپنی نماز دہرائے۔ اور اگر امام نے عشاء کی نیت کے ساتھ تکبیر تحریمہ بھی کہی ہو تو چونکہ اس طرح نیت کی تبدیلی شرعاً معتبر ہے، لہذا اس صورت میں امام اور مقتدی دونوں کی نماز ادا ہوگئی اور مقتدی کو عشاء کی نماز دہرانے کی ضرورت نہیں ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:

البحر الرائق : (10/2، ط: دار الکتاب الاسلامی)
(قوله: وافتتاح العصر أو التطوع أو لا الظهر بعد ركعة الظهر) أي يفسدها انتقاله من صلاة الى أخرى مغايرة للأولي فقوله: بعد ركعة الظهر: ظرف للافتتاح وصورتها: صلى ركعة من الظهر ثم افتتح العصر أو التطوع بتكبيرة فقد افسد الظهر.... وانما بطل ظهره لأنه صح شروعه في غيره لأنه نوي تحصيل ما ليس بحاصل فيخرج عنه ضرورة لمنافاة بينهما فمناط الخروج عن الاولي صحة الشروع في المغايرة ولو من وجه.

الدر المختار مع رد المحتار: (کتاب الصلاة، باب شروط الصلاة، 415/1- 417، ط: دار الفکر)
(والمعتبر فيها عمل القلب اللازم للإرادة) فلا عبرة للذكر باللسان إن خالف القلب لأنه كلام لا نية إلا إذا عجز عن إحضاره لهموم أصابته فيكفيه اللسان مجتبى (وهو) أي عمل القلب (أن يعلم) عند الإرادة (بداهة) بلا تأمل۔
(قوله ولا عبرة بنية متأخرة) لأن الجزء الخالي عن النية لا يقع عبادة فلا ينبني الباقي عليه، وفي الصوم جوزت للضرورة، حتى لو نوى عند قوله الله قبل أكبر لا يجوز لأن الشروع يصح بقوله الله فكأنه نوى بعد التكبير حلية عن البدائع.

الهندية: (الفصل الرابع في النية،65/1-66، ط: دار الفکر)
الواجبات والفرائض لا تتأدي بمطلق النية اجماعا، كذا في الغياثية. فلا بد من التعيين، فيقول: نويت ظهر اليوم أو عصر اليوم أو فرض الوقت أو ظهر الوقت، كذا في شرح مقدمة أبي الليث.
ولو افتتح الظهر ثم نوي التطوع أو العصر أو الفائتة أو الجنازة وكبر يخرج عن الأول ويشرع في الثاني والنية بدون التكبير ليس بمخرج، كذا في التتارخانية ناقلا عن العتابية.

واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص کراچی

Print Full Screen Views: 1029 Jun 20, 2022
maghrib ki niat / niyat se / say namaz shuro karne / karnay k / kay bad isha ki niat / niyat karne ka hokom / hokum

Find here answers of your daily concerns or questions about daily life according to Islam and Sharia. This category covers your asking about the category of Salath (Prayer)

Managed by: Hamariweb.com / Islamuna.com

Copyright © Al-Ikhalsonline 2024.