سوال:
السلام علیکم، مفتی صاحب! ایک شخص زمین کا مالک ہے، اور اسکے پاس پیسے نہیں ہے کہ وہ اپنی زمین کی چار دیواری کراسکے، کوئی دوسرا بندہ کہتا ہے کہ میں آپ کی اس زمین کی چار دیواری کروا دوں گا، اور جو خرچہ آئے گا بعد میں آپ آرام آرام سے دوگے، لیکن جو خرچہ میرا ہوا ہے، اس سے میں کچھ زیادہ پیسے لونگا، تو کیا ایسا کرنا جائز ہے؟
جواب: سوال میں ذکرکردہ معاملہ "قرض" کا معاملہ ہے، جس پر شرط لگا کر اضافہ لینا سود ہے، لہٰذا اس سے اجتناب کرنا ضروری ہے۔
نیز اگر چار دیواری میں استعمال ہونے والا خام مال (Raw material) مثلا، اینٹیں، سیمنٹ، بجری وغیرہ خرید کر زمین کے مالک کو نفع کے ساتھ ادھار پر بیچ دے، تو اس کی گنجائش ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
القرآن الکریم: (البقرة، الآية: 275)
الَّذِينَ يَأْكُلُونَ الرِّبَا لَا يَقُومُونَ إِلَّا كَمَا يَقُومُ الَّذِي يَتَخَبَّطُهُ الشَّيْطَانُ مِنَ الْمَسِّ ذَلِكَ بِأَنَّهُمْ قَالُوا إِنَّمَا الْبَيْعُ مِثْلُ الرِّبَا وَأَحَلَّ اللَّهُ الْبَيْعَ وَحَرَّمَ الرِّبَا فَمَنْ جَاءَهُ مَوْعِظَةٌ مِنْ رَبِّهِ فَانْتَهَى فَلَهُ مَا سَلَفَ وَأَمْرُهُ إِلَى اللَّهِ وَمَنْ عَادَ فَأُولَئِكَ أَصْحَابُ النَّارِ هُمْ فِيهَا خَالِدُونo
الدر المختار: (168/5، ط: دار الفكر)
باب الربا هو لغة: مطلق الزيادة وشرعا (فضل) ولو حكما فدخل ربا النسيئة والبيوع الفاسدة فكلها من الربا فيجب رد عين الربا لو قائما لا رد ضمانه لأنه يملك بالقبض قنية وبحر (خال عن عوض).
واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی