عنوان: کیا اس طرح کہنا صحیح ہے کہ "سنت کے مطابق بیت الخلاء میں داخل ہونا مسجد حرام میں سنت کے خلاف داخل ہونے سے زیادہ بہتر ہے"؟ (9622-No)

سوال: السلام علیکم، مفتی صاحب! آج ایک صاحب سنت پر عمل کی فضیلت سے متعلق بیان میں فرما رہے تھے کہ ایک آدمی سنت کے مطابق اور دعا پڑھ کر بیت الخلاء میں داخل ہوا، اور دوسرا آدمی سنت کے خلاف مسجد حرام میں داخل ہوا، اس آدمی سے پہلا آدمی بہتر ہے، بلکہ دوسرے آدمی پر اللہ کی لعنت برس رہی ہے“
اس ضمن میں سوال یہ ہے کہ کیا دوسرے آدمی سے پہلا آدمی بہتر ہے یا نہیں اور اگر ہے، تو کیوں؟ نیز کیا واقعی دوسرے آدمی پر لعنت برستی ہے یا نہیں؟

جواب: جواب سے پہلے چند باتیں سمجھ لینی چاہیں:
1- کسى بھى عبادت کے ادا ہونے کے لیے ضرورى ہے کہ اس عبادت میں جو فرائض اور واجبات شریعت نے مقرر کیے ہیں، اگر ان کو ادا کر لیا جائے، تو شرعاً وہ عبادت ادا سمجھى جاتى ہے، چنانچہ کوئى بھی عبادت اپنے فرائض اور واجبات کے بغیر ادا نہیں ہوتی ہے۔
اور اس عبادت میں جو سنتین، آداب اور مستحبات ہوتے ہیں، ان کا اہتمام کرنا اس عبادت کى فضیلت اور ثواب میں اضافے کا باعث ہوتا ہے، لہذا اگر اس عبادت کے فرائض اور واجبات کو ادا کیا جائے اور اس عبادت کى سنتیں، آداب اور مستحبات کسى عذر یا سستى کى وجہ سے چھوٹ جائیں، تو شرعا وہ عبادت ادا ہو جاتى ہے، اگرچہ سستى کى وجہ سے سنن مؤکدہ چھوڑنے سے ثواب میں کمى واقع ہوگى، جیسے اگر کوئی شخص نماز پڑھتے ہوئے ثناء، تعوذ، تسمیہ اور رکوع و سجود کی تسبیح کسى عذرِ شرعى یا سستى و غفلت کى وجہ سے چھوڑ دے، تو صرف نماز کے فرائض اور واجبات بجا لانے سے شرعا وہ نماز ادا ہو جائے گى۔
البتہ جو نماز سنن و مستحبات کی رعایت کے ساتھ ادا کی گئی ہو، وہ اس نماز سے ثواب اور فضیلت میں بڑھی ہوئی ہے، جس نماز میں صرف فرائض اور واجبات ادا کیے گئے ہوں اور سستى اور غفلت کى وجہ سے سنن و مستحبات کو ترک کردیا گیا ہو۔
2- آنحضرت صلی اللّٰہ علیہ وسلم کی سنتوں کی دو قسمیں ہیں: سُنَنِ ھُدَیٰ اور سُنَنِ زَوَائِدْ۔
سُنَنِ ھُدَیٰ:
آنحضرت صلی اللّٰہ علیہ وسلم کے وہ اعمال ہیں، جن کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بطور عبادت سر انجام دیے ہیں۔
پھر سُنَنِ ھُدَیٰ کی دو قسمیں ہیں، جو کہ مشہور ومعروف ہیں، سنن مؤکدہ اور سنن غیر مؤکدہ۔
"سنت مؤکدہ کا اہتمام کرنا واجب کے قریب ہے، بلا کسی عذر کے سنت مؤکدہ کا ترک کرنا جائز نہیں ہے، جو شخص بلا کسی عذر کے سنت مؤکدہ ترک کرتا ہے، وہ گناہ گار اور لائق ملامت ہے"۔
(کفایت المفتی: 3 /319، دارالاشاعت)
سنت غیر مؤکدہ وہ سنت ہے، جس میں سنت مؤکدہ والی بات نہ ہو، اور اس کا حکم یہ ہے کہ اگر اس پر عمل کر لیا جائے، تو اجر و ثواب ملے گا اور اگر اسے ترک کردیں، تو اس پر کوئی گناہ نہیں ہوگا اور نہ ہی کوئی لعنت و ملامت ہوگی۔
سُنَنِ زَوَائِدْ:
آنحضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جن اعمال کو بطورِ عادت اختیار فرمایا ہو، انہیں سنن زوائد کہتے ہیں، سُنَنِ زَوَائِدْ کو سنن عادیہ بھی کہا جاتا ہے، مثلا: کپڑے پہننے کا طریقہ، راستے میں چلنے کے آداب، مجلس میں بیٹھنے کے آداب، بیت الخلا میں جانے اور آنے کے آداب وغیرہ۔ اگر کوئی سننِ عادیہ پر بھی عمل کرتا ہے، تو اس کو ضرور ثواب ملے گا، لیکن سننِ عادیہ کے ترک پر کوئی گناہ، لعنت اور ملامت نہیں ہے۔
مذکورہ بالا باتوں کو ذہن نشین کرنے کے بعد آپ کے سوال کا جواب یہ ہے کہ آپ کے ارسال کردہ سوال میں جس انداز سے سنت کى اہمیت کو بیان کیا گیا، اگر یہ بیان واقعى اسى طرح کہا گیا ہے، جیسا کہ سوال میں درج ہے، تو ایسا انداز شرعاً مذموم ہے، بیان کرنے والے کے پیش نظر یہ ہوگا کہ سنت کى اہمیت کو واضح کیا جائے، لیکن جوشِ خطابت میں احکامِ شریعت کے بیان میں حد درجہ غلو سے کام لیا گیا ہے، کیونکہ اول تو بیت اللہ شریف میں داخل ہونا ایک عبادت ہے، جبکہ بیت الخلا میں داخل ہونا کوئی عبادت نہیں ہے، بلکہ طبعی تقاضے کو پورا کرنا ہے، اس طبعی تقاضے کے ادا کرنے کے جو مسنون آداب ہیں، ان کی بجا آوری کی وجہ سے ثواب ملے گا، ان کے ترک کرنے پر کوئی گناہ نہیں ہے اور نہ ہی اس پر لعنت برسے گی، جبکہ عمرے کے لیے بیت اللہ شریف میں داخل ہونا ایک اہم عبادت ہے، اگر عمرے کے فرائض اور واجبات ادا کر لیے جائیں، تب بھی عمرہ ادا ہو جائے گا، عمرے کے مسنون اعمال کے ترک کرنے سے ثواب میں کمی تو آئے گی، لیکن یہ ایسا گناہ نہیں ہے کہ جس پر لعنت برسے۔
پھر اس بیان میں جو بیت الخلا میں داخلے کا بیت اللہ شریف میں داخلے سے موازنہ کیا گیا ہے، وہ سخت اہانت آمیز ہے، کہاں بیت اللہ شریف جیسا نزول رحمت کا پاکیزہ مقام اور کہاں بیت الخلا؟ لہذا اس انداز بیان پر فورى طور پر توبہ واستغفار کرنا چاہیے اور آئندہ احکام شریعت کے بیان میں حد درجہ احتیاط کرنا چاہیے۔
نوٹ!
مذکورہ بالا جواب اس تناظر میں لکھا گیا ہے کہ جب سنت کی اہمیت اور اس کی فضیلت کا دل میں اعتقاد ہو اور پھر محض اپنى سستی اور غفلت کی وجہ سے کسی سنت کو ترک کیا گیا ہو، تو یہ ایسا گناہ نہیں ہے کہ اس پر لعنت ہوتى ہو، لیکن اگر سنت کو ہلکا سمجھتے ہوئے یا اس کی اہمیت کا دل میں اعتقاد نہ رکھتے ہوئے ترک کیا جائے، تو یہ بات شرعا بہت خطرناک ہے، کیونکہ اللہ تعالیٰ سے محبت کی بنیادی شرط جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی مکمل اتباع کو قرار دیا گیا ہے۔
ارشاد باری تعالی ہے:
اے نبی! آپ کہیے! اگر تم اللہ کو چاہتے ہو، تو میری پیروی کرو، تب اللہ تم سے پیار کرے گا۔
(سورۃ آل عمران: آیت نمبر 31)
لہذا جو شخص آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنتوں کی جس قدر پیروی کرے گا، وہ اتنا ہی آپ کے قریب ہوگا، اس کے نتیجے میں وہ اللہ تعالی کا محبوب بن جائے گا، گویا اتباع سنت ہی روح عبادت اور حاصل بندگی ہے۔
ایک اور جگہ ارشاد باری تعالی ہے:
جس شخص نے رسول کی اطاعت کی اس نے اللہ کی اطاعت کی۔
(سورة النساء: آیت نمبر: 80 )
ارشاد باری تعالیٰ ہے:
اور جو شخص اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرے گا، سو وہ بڑی کامیابی کو پہنچے گا۔
(سورۃ الأحزاب: آیت نمبر: 72)
ان قرآنی ھدایات سے اتباع سنت کی تاکید اور اہمیت کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔
اسی طرح ایک حدیث مبارک میں ہے:
حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : جس نے میری سنت سے اعراض کیا وہ مجھ سے نہیں ہے۔
(صحیح البخاری: حدیث نمبر: 5063)
سنت پر عمل کرنے کی اس سے بڑھ کر کیا تاکید ہو سکتی ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے سنت ترک کرنے والے سے اپنا تعلق ہی منقطع فرما دیا۔
اللّٰہ تعالیٰ ہم سب کو آنحضرت صلی اللّٰہ علیہ وسلم کی سنتوں کی کامل اتباع نصیب فرمائے آمین۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:

القرآن الکریم: (آل عمران، الاية: 31)
قل إن كنتم تحبون الله فاتبعوني يحببكم الله....الخ

و قوله تعالی: (النساء، الایة: 80)
من یطع الرسول فقد الله....الخ

و قوله تعالی: (الأحزاب، الایة: 71)
ومن یطع اللہ ورسولہ فقد فاز فوزا عظیما....الخ

صحيح البخاري: (كتاب النكاح، باب الترغيب في النكاح، 2/7، رقم الحديث: 5063، ط: دار طوق النجاة)
حدثنا سعيد بن أبي مريم، أخبرنا محمد بن جعفر، أخبرنا حميد بن أبي حميد الطويل، أنه سمع أنس بن مالك رضي الله عنه، يقول: جاء ثلاثة رهط إلى بيوت أزواج النبي صلى الله عليه وسلم، يسألون عن عبادة النبي صلى الله عليه وسلم، فلما أخبروا كأنهم تقالوها، فقالوا: وأين نحن من النبي صلى الله عليه وسلم؟ قد غفر له ما تقدم من ذنبه وما تأخر، قال أحدهم: أما أنا فإني أصلي الليل أبدا، وقال آخر: أنا أصوم الدهر ولا أفطر، وقال آخر: أنا أعتزل النساء فلا أتزوج أبدا، فجاء رسول الله صلى الله عليه وسلم إليهم، فقال: "أنتم الذين قلتم كذا وكذا، أما والله إني لأخشاكم لله وأتقاكم له، لكني أصوم وأفطر، وأصلي وأرقد، وأتزوج النساء، فمن رغب عن سنتي فليس مني".

رد المحتار: (کتاب الطهارة، سنن الوضوء، 6/1، ط: دار الفکر)
مطلب في السنة وتعريفها: "والسنة نوعان: سنة الهدي، وتركها يوجب إساءة وكراهية كالجماعة والأذان والإقامة ونحوها. وسنة الزوائد، وتركها لا يوجب ذلك كسير النبي - عليه الصلاة والسلام - في لباسه وقيامه وقعوده. والنفل ومنه المندوب يثاب فاعله ولا يسيء تاركه، قيل: وهو دون سنن الزوائد. ويرد عليه أن النفل من العبادات وسنن الزوائد من العادات، وهل يقول أحد إن نافلة الحج دون التيامن في التنعل والترجل، كذا حققه العلامة ابن الكمال في تغيير التنقيح وشرحه.أقول: فلا فرق بين النفل وسنن الزوائد من حيث الحكم؛ لأنه لا يكره ترك كل منهما، وإنما الفرق كون الأول من العبادات والثاني من العادات، لكن أورد عليه أن الفرق بين العبادة والعادة هو النية المتضمنة للإخلاص، كما في الكافي وغيره، وجميع أفعاله - صلى الله عليه وسلم - مشتملة عليها كما بين في محله.وأقول: قد مثلوا لسنة الزوائد أيضا «بتطويله - عليه الصلاة والسلام - القراءة والركوع والسجود» ، ولا شك في كون ذلك عبادة، وحينئذ فمعنى كون سنة الزوائد عادة أن النبي - صلى الله عليه وسلم - واظب عليها حتى صارت عادة له ولم يتركها إلا أحيانا؛ لأن السنة هي الطريقة المسلوكة في الدين، فهي في نفسها عبادة وسميت عادة لما ذكرنا. ولما لم تكن من مكملات الدين وشعائره سميت سنة الزوائد، بخلاف سنة الهدي، وهي السنن المؤكدة القريبة من الواجب التي يضلل تاركها؛ لأن تركها استخفاف بالدين، وبخلاف النفل فإنه كما قالوا ما شرع لنا زيادة على الفرض والواجب والسنة بنوعيها؛ ولذا جعلوا قسما رابعا، وجعلوا منه المندوب والمستحب، وهو ما ورد به دليل ندب يخصه، كما في التحرير؛ فالنفل ما ورد به دليل ندب عموما أو خصوصا ولم يواظب عليه النبي - صلى الله عليه وسلم -؛ ولذا كان دون سنة الزوائد، كما صرح به في التنقيح. وقد يطلق النفل على ما يشمل السنن الرواتب، ومنه قوله: باب الوتر والنوافل، ومنه تسمية الحج نافلة لأن النفل الزيادة، وهو زائد على الفرض مع أنه من شعائر الدين العامة، ولا شك أنه أفضل من تثليث غسل اليدين في الوضوء ومن رفعهما للتحريمة مع أنهما من السنن المؤكدة، فتعين ما قلنا، وبه اندفع ما أورده ابن الكمال، فاغتنم تحقيق هذا المحل فإنك لا تجده في غير هذا الكتاب، والله تعالى أعلم بالصواب".

البحر الرائق: (29/1، ط: دار الکتاب الاسلامي)
"وعند الفقهاء هو ما فعله النبي - صلى الله عليه وسلم - مرة وتركه أخرى والمندوب ما فعله مرة أو مرتين وتركه تعليما للجواز كذا في شرح النقاية ويرد عليه ما رغب فيه ولم يفعله وما جعله تعريفا للمستحب جعله في المحيط تعريفا للمندوب، فالأولى ما عليه الأصوليون من عدم الفرق بين المستحب والمندوب، وأن ما واظب - صلى الله عليه وسلم - عليه مع ترك ما بلا عذر سنة وما لم يواظب عليه مندوب ومستحب، وإن لم يفعله بعد ما رغب فيه كذا في التحرير وحكمه الثواب على الفعل وعدم اللوم على الترك".

بدائع الصنائع: (24/1، ط: دار الكتب العلمية)
"هذا هو الفرق بين السنة، والأدب أن السنة ما، واظب عليه رسول الله - صلى الله عليه وسلم - ولم يتركه إلا مرة، أو مرتين لمعنى من المعاني،، والأدب ما فعله مرة، أو مرتين، ولم يواظب عليه".

الفقه الاسلامی و ادلته: (1644/3، ط: دار الفكر)
"والمسنون: هو ما واظب عليه النبي صلّى الله عليه وسلم، والمندوب أو المستحب: هو مالم يواظب عليه صلّى الله عليه وسلم، وإن لم يفعله بعدما رغب إليه. والنفل: ما سوى ذلك وهو ما رغب فيه الشرع".

کشاف اصطلاحات الفنون و العلوم: (ص: 981- 983، ط: مكتبة لبنان)
"وفي بعض الحواشي المتعلقة على شرح الوقاية مواظبة النبي عليه السلام على ثلاثة أنواع. واجب وهو الذي يكون على سبيل العبادة، ولا يترك أحيانا. وسنة وهو الذي يكون على سبيل العبادة مع الترك أحيانا. ومستحب وهو الذي يكون على سبيل العادة سواء ترك أحيانا أو لا انتهى. ويؤيده ما في شرح أبي المكارم لمختصر الوقاية من أنّ المواظبة إن كانت بطريق العادة في العبادة فلا تقتضي الوجوب كالتيامن في الوضوء فإنّه مستحبّ مع مواظبة النبي عليه السلام عليه وعدم تركه أحيانا انتهى. فعلم من هذا أنّ سنن الزوائد والمستحبّات واحدة. وفي نور الأنوار شرح المنار السّنن الزوائد في معنى المستحب، إلّا أنّ المستحب ما أحبه العلماء، وهذه ما اعتاد به النبي عليه السلام.۔۔۔۔والسّنة المطلقة على نوعين: سنة الهدى وتقال لها السنة المؤكّدة أيضا كالآذان والإقامة والسنن الرواتب، وحكمها حكم الواجب. وفي التلويح ترك السنّة المؤكّدة قريب من الحرام، فيستحق حرمان الشفاعة، إذ معنى القرب إلى الحرمة أنّه يتعلّق به محذور دون استحقاق العقوبة بالنار. والسنة الزائدة كالسّواك والنوافل المعينة وهي ندب وتطوع. وسنة الكفاية كسلام واحد من جماعة والاعتكاف أيضا سنة الكفاية كما في البحر الرائق وسنة عادة كالتيامن من الترجّل والتنعّل. والسّنّي منسوب إلى السّنّة انتهى من الكليات ۔۔۔۔والحاصل أنّ السنة إن كانت مؤكدة قوية يكون تركها مكروها كراهة تحريم كترك الواجب، وإذا كانت غير مؤكّدة فتركها مكروه كراهة تنزيه.
وإذا كان الشيء مستحبّا أو مندوبا وليس سنة فلا يكون تركه مكروها أصلا. وفي الدّرّ المختار في باب الآذان هو سنّة مؤكّدة هي كالواجب في لحوق الإثم. وأيضا فيه في باب صفة الصلاة: ترك السنة لا يوجب فسادا ولا سهوا بل إساءة لو كان عامدا غير مستخفّ. وقالوا الإساءة أدون من الكراهة. وترك الأدب والمستحب لا يوجب إساءة ولا عتابا كترك سنة الزوائد، لكن فعله أفضل".

والله تعالى أعلم بالصواب
دارالإفتاء الإخلاص،کراچى

Print Full Screen Views: 687 Jun 21, 2022
kia istarha / istarah kehna sahih he / hea keh "sunnat ke mutabiq baitul khula / khala me dakhil hona masjid e haram me sunnat ke khilaf dakhil hone se zyada behtar hea / he".

Find here answers of your daily concerns or questions about daily life according to Islam and Sharia. This category covers your asking about the category of Interpretation and research of Ahadees

Managed by: Hamariweb.com / Islamuna.com

Copyright © Al-Ikhalsonline 2024.