عنوان: حضرت على کرم اللہ وجہہ کا جہاد کے موقع پر تنہا خیبر کے قلعے کا دروازہ اکھاڑ کر اسے بطور ڈھال استعمال کرنے کے واقعے کى تحقیق(9624-No)

سوال: السلام علیکم، مفتی صاحب! حضرت علی رضی اللہ عنہ کے بارے میں لوگوں میں یہ بات مشہور ہے کہ حضرت علی کرم اللہ وجہہ نے قلعہ خیبر کا دروازہ اکھا ڑ پھینکا تھا، کیا یہ واقعہ صحیح ہے؟

جواب: حضرت علی کرم اللہ وجہہ نے غزوہ خیبر کے موقع پر دشمن سے لڑتے ہوئے قلعے کا دروازہ اکھاڑ کر اسے بطور ڈھال استعمال فرماتے ہوئے جو شجاعت کے جوہر دکھائے، اس واقعے کا تذکرہ کتب حدیث و سیرت میں موجود ہے، اس بارے میں جو روایات بیان کى گئى ہیں، ذیل میں انہیں ترتیب کے ساتھ ذکر کیا جاتا ہے:
1-حضرت ابو رافع رضی اللہ عنہ کى حدیث:
حضرت ابورافع رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ہم حضرت علی رضی اللہ عنہ کے ساتھ (خیبر کے قلعہ کی طرف) نکلے، جب نبی کریم ﷺ نے انہیں جھنڈا دے کر بھیجا تھا، جب ہم قلعہ کے پاس پہنچے، تو قلعہ والے لوگ باہر آئے، ان کے ساتھ لڑائی شروع ہوئی، ایک یہودی نے حضرت علی رضی اللہ عنہ پر حملہ کیا، حضرت علی رضی اللہ عنہ کی ڈھال ہاتھ سے گر گئی، انہوں نے قلعہ کا دروازہ اکھیڑ کر اس سے ڈھال کا کام لیا، وہ دروازہ دورانِ قتال مستقل طور پر ان کے ہاتھ میں رہا، حتی کہ اللہ تعالیٰ نے انہیں فتح عطا فرما دی۔
جنگ سے فارغ ہو کر حضرت علی رضی اللہ عنہ نے اسے اپنے ہاتھ سے پھینک دیا۔میں نے دیکھا کہ سات آدمیوں نے جن کے ساتھ آٹھواں میں تھا،اس دروازے کو ہلانے میں ایڑھی چوٹی کا زور لگا دیا، لیکن ہم اسے ہلا بھی نہیں سکے۔
(مسنداحمد: حدیث نمبر: 23858)
مذکورہ بالا روایت کى اسنادى حیثیت:
اس روایت کو امام ابن کثیر رحمہ اللہ نے "البدایۃ والنہایۃ" کى جلد 4 ص 189 میں نقل کرنے کے بعد فرمایا: اس روایت میں ایک راوى مجہول ہے اور سند میں انقطاع ہے، علامہ ہیثمى رحمہ اللہ نے اس روایت کو "مجمع الزوائد" جلد 6 ص 152 میں مسند احمد کے حوالے سے نقل کرکے فرمایا: اس روایت میں ایک راوى کا نام ذکر نہیں کیا گیا ہے، تاہم حافظ ابن حجر عسقلانى رحمہ اللہ نے اس روایت کو اپنى کتاب "فتح البارى شرح صحیح البخارى" جلد 7 ص 478 میں ذکر کرنے کے بعد اس پر کوئى کلام نہیں فرمایا، البتہ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے اپنى کتاب "موافقۃ الخبر" میں اس روایت کو نقل کر کے فرمایا: "ہذا حدیث حسن"، نیز جس راوى کے نام معلوم نہ ہونے کا ذکر علامہ ہیثمى اور حافظ ابن کثیر رحمہما اللہ نے فرمایا تھا، اس راوى کے بارے میں حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے فرمایا: "بعض وہ راوى جن کا نام اگرچہ ہمیں معلوم نہیں ہو سکا ہے، لیکن اس حدیث کا سیاق کا تقاضہ یہ ہے کہ وہ راوى اہل بیت میں سے کوئى تابعى ہوں گے، بظاہر وہ صدوق معلوم ہوتے ہیں۔
خلاصہ یہ کہ اس روایت میں جو ضعف آرہا تھا، اس کے متعلق حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے وضاحت فرما کر اس حدیث کو حسن قرار دیا ہے۔
۲۔ حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ کی روایت:
(الف)حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ کی روایت سے دو طریق سے مروی ہے۔
1۔ مطلب بن زياد عن ليث بن أبي سليم کی طریق سے درج ذیل الفاظ کے ساتھ مروی ہے۔
حضرت علی رضی اللہ عنہ نے خیبر کے دن قلعے کے دروازے کو اٹھا لیا، حتی کہ مسلمانوں نے چڑھائی کر کے اسے فتح کر لیا، تجربہ کیا گیا، تو معلوم ہوا کہ اس دروازے کو چالیس طاقتور افراد ہی اٹھا سکتے تھے۔
مذکورہ بالا روایت کى اسنادى حیثیت:
اس روایت میں ’’ليث بن أبي سليم ‘‘ کو اکثر ائمہ جرح وتعدیل نے ’’ضعیف ‘‘ قرار دیا ہے۔
علامہ ابن حجر عسقلانی ؒ نے ’’القول المسدد‘‘ میں ’’ليث بن أبي سليم‘‘ کے بارے میں فرمایا: لیث اگرچہ ضعیف ہیں، ان کا ضعف حافظہ کی وجہ سے ہونے کی بنا پر وہ مضبوط متابع ہیں۔
علامہ سیوطی ؒ نے اس روایت کو ’’مصنف ابن ابی شیبہ‘‘ کے حوالے سے نقل کرنے کے بعد ’’حسن ‘‘ قرار دیا۔
خلاصہ کلام یہ ہے کہ اس روایت میں جو ضعف آرہا ہے، وہ ضعف یسیر (کم ) ہے، اسی وجہ سے علامہ سیوطیؒ نے اس روایت کو ’’حسن ‘‘ قرار دیا ہے۔
(ب) حرام بن عثمان عن ابي عتيق وابن جابر کی طریق سے علامہ زرکشی نے’’ التذكرة في الأحاديث المشتهرة ‘‘ میں درج ذیل الفاظ کے ساتھ نقل ہے۔
حضرت علی رضی اللہ عنہ جب قلعہ کے پاس پہنچے، تو انہوں نے قلعہ کے ایک دروازے کو اکھیڑ کر زمین پر پھینک دیا، اس کے بعد ہم میں سے ستر آدمیوں نے بڑی کوشش کر کے اس کو واپس اپنی جگہ پر رکھا۔
اس طریق میں راوی ’’حرام بن عثمان‘‘ ہیں، جن کو محدثین کرام ؒ نے ’’ضعیف‘‘ کہا ہے۔
امام بیہقیؒ نے بھی اس طریق کے ضعف کی طرف اشارہ کیا ہے۔
روایات کا حکم :
علامہ زرکشی ؒ نے اس روایت کے متعلق ارشاد فرمایا:
بعض علمائے کرام نے گمان کیا ہے کہ اس حدیث کی کوئی اصل نہیں ہے، اس کو معمولی درجہ کے لوگوں نے روایت کیا ہے، حالانکہ ایسی بات نہیں ہے، جیسے انہوں نے کہا ہے، اس روایت کو ابن اسحاق نے اپنی سیرت میں حضرت ابورافع رضی اللہ عنہ سے نقل کیا ہے۔
خلاصہ کلام:
۱۔ذکر کردہ روایت سند کے اعتبار سے اگرچہ ضعیف ہے، لیکن اس حدیث کا متابع اور شاہد موجود ہونے کی وجہ سے اس حدیث کو تقویت مل جاتی ہے اور سند میں موجود ضعف کم ہوجاتا ہے اور ضعیف روایت ضعیف سے حسن لغیرہ کے درجے تک پہنچ جاتی ہے، اور اگر بالفرض اس روایت کو ضعیف بھی مان لیا جائے، تب بھی اس روایت کا بیان کرنا درست ہے، کیونکہ اس روایت کا تعلق مناقب سے ہے اور فضائل و مناقب کے باب میں ضعیف روایت قابلِ قبول ہوتی ہے۔
مولانا سید ابوالحسن علی ندوی ؒ نے اپنی کتاب ’’المرتضیٰ‘‘ میں اس واقعے کو نقل کرنے کے بعد فرمایا: یہ روایت مختلف طریقوں سے مروی ہے اور یہ مشہور واقعہ ہے، اور اس کا واقع ہونا مستبعد نہیں ہے، اگراس کی صحت ثابت ہو جائے اور اگر اس کی کوئی اصل ہے، تو یہ عقائد اہلِ سنت کے خلاف نہیں ہے، کیونکہ اہلِ سنت کے عقائد و علمِ کلام میں آتا ہے ’’اولیاء اللہ سے کرامات کا صدور حق ہے‘‘ (81،ط:مجلس ِ نشریاتِ اسلام)

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:

حدیث أبي رافع رضي اللہ عنه:
مسند احمد: (رقم الحدیث: 23858، ط: مؤسسة الرسالة)

حدثنا يعقوب، حدثنا أبي، عن محمد بن إسحاق، قال: حدثني عبد الله بن حسن، عن بعض أهله عن أبي رافع، مولى رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: " خرجنا مع علي حين بعثه رسول الله صلى الله عليه وسلم برايته، فلما دنا من الحصن خرج إليه أهله فقاتلهم، فضربه رجل من يهود، فطرح ترسه من يده، فتناول علي بابا كان عند الحصن، فترس به نفسه، فلم يزل في يده وهو يقاتل، حتى فتح الله عليه، ثم ألقاه من يده حين فرغ، فلقد رأيتني في نفر معي سبعة أنا ثامنهم نجهد على أن نقلب ذلك الباب، فما نقلبه "

السیرة النبویة لابن ھشام: (335/2، ط: مکتبة مصطفي البابي الحلبي)

تاریخ دمشق لابن عساکر: (111/42، ط: دار الفکر)
’’وسقط من حديث البيهقي عن عبد الله بن الحسن‘‘ .

مجمع الزوائد: (152/6، ط: مکتبة القدسي)
رواه أحمد، وفيه راو لم يسم.

البداية و النهاية: (189/4، ط: دار الفكر)
وفي هٰذا الخبر جهالة وانقطاع ظاهر.

موافقة الخبر الخبر في تخريج أحاديث المختصر: (193/1، ط: مکتبة الرشد)
هذا حديث حسن، أخرجه الإِمام أحمد هكذا والحاكم في الإِكليل والبيهقي في الدلائل من طريق يونس بن بكير عن ابن إسحاق ، وسقط من رواية البيهقي من إسناده عبد اللہ بن الحسن ولابد منه، والبعض المبهم لم أقف على اسمه، لكن السياق يقتضي أنه تابعي من أهل البيت، فالذي يظهر أنه صدوق.

حديث جابر رضى الله عنه عن طريق مطلب بن زياد عن ليث:
مصنف ابن أبي شیبة: (139/17، ط: دار القبلة)

حدثنا مطلب بن زياد , عن ليث , قال : دخلت على أبي جعفر فذكر ذنوبه , وما يخاف , قال : فبكى , ثم قال : حدثني جابر أن عليا حمل الباب يوم خيبر حتى صعد المسلمون ففتحوها وإنه جرب فلم يحمله إلا أربعون رجلا.

تاریخ بغداد للخطیب البغدادي: (224/13، ط: دار الغرب الاسلامي)

تاریخ دمشق لابن عساکر: (111/42، ط: دار الفکر)

التذكرة في الأحاديث المشتهرة للزرکشی: (ص: 166، ط: دار الكتب العلمية)
عن ابي علي الحافظ ثنا الهيثم بن خلف الدودي القائل فيه ابو بكر الاسماعيلي لا ثبات وقال احمد بن كامل كان كثير الحديث حافظا لكتابه قال ثنا اسماعيل ين موسى السدي القائل فيه احمد بن صالح ليس به بأس وقال ابن المطين وابو حاتم كان صدوقا ثنا المطلب بن زياد القائل فيه احمد ويحيى ثقة ثنا ليث بن سليم وحديثه في مسلم واثنى عليه غير واحد ثنا ابو جعفر محمد بن علي بن حسين عن جابر ان عليا حمل الباب يوم خيبر وانه جرب بعد ذلك فلم يحلمه اربعون رجلا

دلائل النبوة للبیھقي: (222/4، ط: دار الكتب العلمية)

میزان الاعتدال :(420/3، ط: دار المعرفة)
الليث بن أبي سليم [عو، م - مقرونا] الكوفي الليثي أحد العلماء.
قال أحمد: مضطرب الحديث، ولكن حدث عنه الناس.وقال يحيى والنسائي: ضعيف.وقال ابن معين أيضا: لا بأس به.وقال ابن حبان: اختلط في آخر عمره.

القول المسدد في الذب عن المسند لابن حجر العسقلاني:(ص: 41، ط: مكتبة ابن تيمية)
وليث وإن كان ضعيفا فإنما ضعف من قبل حفظه فهو متابع قوي.

الجامع الكبير للسيوطي: (539/19، ط: الأزهر الشريف)
أن عليا حمل الباب يوم خيبر حتى صعد المسلمون ففتحوها، وأنه جرب فلم يحمله إلا اربعون رجلا ".
ش، حسن
حديث جابررضى الله عنه عن طريق حرام بن عثمان عن ابي عتيق وابن جابر :

التذكرة في الأحاديث المشتهرة للزرکشی: (ص: 166، ط: دار الكتب العلمية)
عن اسماعيل بن محمد بن الفضل ثنا جدي ثنا ابراهيم بن حمزة ثنا عبد العزيز بن محمد عن حرام بن عثمان عن ابي عتيق وابن جابر عن جابر ان عليا لما انتهى الى الحصن اجتذب احد ابوابه فألقاه بالارض فاجتمع عليه بعده سبعون رجلا فكان جهدهم ان اعادوا الباب

دلائل النبوة للبیھقي: (222/4، ط: دار الکتب العلمیة)
و قال وروي من وجه آخر ضعيف عن جابر ثم اجتمع عليه سبعون رجلا فكان جهدهم أن أعادوا الباب.

لسان الميزان لابن حجر العسقلاني: (6/3، ط: دار البشائر الإسلامية)
حرام بن عثمان الأنصاري المدني.
عن ابني جابر بن عبد الله.
وعنه معمر، وَغيره.قال مالك ويحيى: ليس بثقة.وقال أحمد: ترك الناس حديثه.وقال الشافعي، وَغيره: الرواية عن حرام حرام.وقال ابن حبان: كان غاليا في التشيع يقلب الأسانيد ويرفع المراسيل.

التذكرة في الأحاديث المشتهرة للزرکشی: (ص: 166، ط: دار الكتب العلمية)
زعم العلماء ان هذا الحديث لا اصل له وانما يروى عن رعاع الناس وليس كما قال فقد اخرجه ابن اسحاق في سيرته عن ابي رافع وان سبعة لم يقلبوه.

المقاصد الحسنة: (ص: 313، ط: دار الكتاب العربي)
حديث: حمل علي باب خيبر، أورده ابن إسحاق في السيرة عن أبي رافع مولى رسول الله صلى الله عليه وسلم، وأن سبعة هو ثامنهم، اجتهدوا أن يقلبوه، فلم يستطيعوا، ومن طريق ابن إسحاق أخرجه البيهقي في الدلائل، ورواه الحاكم وعنه البيهقي في الدلائل من جهة ليث ابن أبي سليم عن أبي جعفر محمد بن علي بن حسين عن جابر أن عليا حمل الباب يوم خيبر، وأنه جرب بعد ذلك فلم يحمله أربعون رجلا، وليث ضعيف، والراوي عنه شيعي، وكذا من دونه ولكن لمن دونه متابع، ذكره البيهقي، ومن جهة حرام بن عثمان عن أبي عتيق وابن جابر أن عليا لما انتهى إلى الحصن اجتبذ أحد أبوابه فألقاه بالأرض فاجتمع عليه بعده منا سبعون رجلا، فكان جهدهم أن أعادوا الباب، وعلقه البيهقي مضعفا له، قلت: بل كلها واهية، ولذا أنكره بعض العلماء.

القَولُ البَدِيعُ للسخاوي: (ص: 472، ط: مؤسسة الريان)
قال شيخ الإسلام أبو زكريا النووي - رحمه الله - في الأذكار قال العلماء من المحدثين والفقهاء وغيرهم يجوز ويستحب العمل في الفضائل والترغيب والترهيب بالحديث الضعيف ما لم يكن موضوعاً .....وقد سمعت شيخنا مراداً يقول وكتبه لي بخطه أن شرائط العمل بالضعيف ثلاثة، الأول متفق عليه أن يكون الضعف غير شديد فيخرج من أنفرد من الكذابين والمتهمين بالكذب ومن فحش غلطه، الثاني أن يكون مندرجاً تحت أصل عام فيخرج ما يخترع بحيث لا يكون له أصل أصلاً، الثالث أن لا يعتقد عند العمل به ثبوته لئلا ينسب إلى النبي - صلى الله عليه وسلم - ما لم يقله.

تعلیق أحمد فتحی علی المقنع فی علوم الحدیث: (ص: 68، ط: دار الکتب العلمیة)
يقسم الحديث الضعيف إلى أنواع كثيرة جدا، وأكثر أهل العلم على تصنيفه بحسب الأنواع الرئيسة، حيث إنها ضوابط كافية لتمييز المقبول من المردود، تدرج تحتها كافة الصورة كما أنها تبين إلى أي مدى بلغ الضعف، هل هو هين يصلح للتقوية إن وجد عائذ، أو شديد لا يصلح للتقوية، أو مكذوت مختلف جرماً؟ وهو ثلاثة أنواع:
النوع الأول: الضعيف ضعفا يسي

واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی

Print Full Screen Views: 3718 Jun 21, 2022
hazrat Ali karamallah wajhahu ka jihad k moqey per tanha khyber ka darwaza ukhar kar usey bator dhaal istemal karne k waqey ki tehqeeq

Find here answers of your daily concerns or questions about daily life according to Islam and Sharia. This category covers your asking about the category of Interpretation and research of Ahadees

Managed by: Hamariweb.com / Islamuna.com

Copyright © Al-Ikhalsonline 2024.