سوال:
السلام علیکم، مفتی صاحب! میں وارثت کے شرعی حوالے سے آپ کی خدمت اور نصیحت کا طلبگار ہوں۔
میرے والد صاحب کی وفات 1993ء میں ہوئی، دادا کی وفات 2001ء(دادا کی وراثت میں کل جائیداد ایک عدد دوکان اور ایک گھر تھا) اور دادی کی وفات 2010ء میں ہوئی، دوکان کو ہم نے 2003ء میں فروخت کردیا تھا، میری پھوپھی نے دوکان میرے نام بغیر کسی شرائط کے ٹرانسفر کردی، اب اس دوکان کے پیسے میں نے کسی اور جگہ انویسٹ کردیئے ہیں۔
ہمارا ایک گھر بنوں میں ہے، جو میرے دادا مرحوم کی ملکیت میں تھا، گھر کے اصلی کاغذات نہ ہونے کی وجہ سے میں نے اسے ڈگری کے ذریعے اپنے نام ٹرانسفر کردیا تھا، بہر حال اس ٹرانسفر میں میری پھوپھی کی مرضی شامل نہیں ہے، میری پھوپھی زندہ ہے، ان کے چار بیٹے اور تین بیٹیاں ہیں، اب پھوپھی اپنے والد یعنی میرے دادا کی جائیداد میں وراثت کا حصہ مانگ رہی ہیں۔
1) معلوم یہ کرنا ہے کہ دوکان میری پھوپھی نے میرے نام پہلے ہی ٹرانسفر کردی تھی، اب اس دوکان یا اس دوکان کی مالیت سے جو پراپرٹی میں نے لی ہے، کیا اس میں پھوپھی کا حصہ بنتا ہے؟
2) گھر جو کہ ہمارا آبائی، وراثتی اور واحد جائیداد ہے، جو میرے دادا اور والد کی طرف سے میرے قبضے میں آئی ہے، ابھی میرا اس گھر کو فروخت کرنے کا بالکل ارادہ نہیں ہے، اس لیے کہ بنوں جاتے وقت ہمیں وہاں رُکنا پڑتا ہے، لیکن مستقبل میں اس گھر کو مارکیٹ بنانے کا ارادہ ہے، اب اس گھر میں پھوپھی حصہ مانگ رہی ہے، تو کیا پھوپھی کو انتظار کرنا چاہیے؟
میں اس میں سے ہر ایک کو یعنی پھوپھی، میری والدہ، اور میری بہنوں کا حصہ ادا کرنے کا ارادہ رکھتا ہوں، گھر کی مالیت کا اندازہ چار کروڑ روپے تک کا ہے، مارکیٹ ویلیو کا تعین نہیں کیا ہے، براہ کرم رہنمائی فرمادیں۔
جواب: 1) واضح رہے کہ میراث میں جائیداد کی تقسیم سے پہلے کسی وارث کا اپنے شرعی حصہ سے بلا عوض دست بردار ہوجانا شرعاً معتبر نہیں ہے۔
اسی طرح ایک وارث کا دوسرے ورثاء کی اجازت کے بغیر ان کے حصہ میں تصرف کرنا جائز نہیں ہے۔
اس تمھید کے بعد سوال میں پوچھی گئی صورت میں دادا کی میراث کی تقسیم سے پہلے آپ کی پھوپھی کا دیگر ورثاء کی اجازت کے بغیر دکان آپ کے نام ٹرانسفر کرنا درست نہیں تھا، لہذا اس دکان میں دادا کے تمام شرعی ورثاء اپنے حصے کے مطابق شریک ہوں گے، صورت مسئولہ میں آپ نے اس دکان کو بیچ کر جو پراپرٹی خریدی ہے، اس پراپرٹی میں تمام ورثاء اپنے حصے کے بقدر شریک ہوں گے۔
2) واضح رہے کہ میراث کی تقسیم میں حتی الامکان جلدی کرنی چاہیے، بغیر کسی سخت مجبوری کے تاخیر کرنا درست نہیں ہے، خاص طور پر جب کہ دیگر ورثاء اپنے حق کا مطالبہ کر رہے ہوں، لہذا اگر آپ وہ مکان فی الحال نہیں بیچنا چاہتے ہیں، تو آپ پر لازم ہے کہ ورثاء کو ان کے شرعی حصے کے بقدر اس مکان کی موجودہ مالیت کے مطابق قیمت ادا کر دیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
مشکوۃ المصابیح: (255/1، ط: سعید)
عن ابی حرۃ الرقاشی عن عمہ قال: قال رسول اللہ ﷺ الا لا تظلموا الا لا یحل مال امرئ الا بطیب نفس منہ الخ
تکملة رد المحتار: (کتاب الدعوی، 505/7، ط: سعید)
" الإرث جبري لَا يسْقط بالإسقاط".
الأشباہ و النظائر: (ما یقبل الاسقاط من الحقوق و ما لا یقبله، ص: 309، ط: قدیمی)
"لَوْ قَالَ الْوَارِثُ: تَرَكْتُ حَقِّي لَمْ يَبْطُلْ حَقُّهُ؛ إذْ الْمِلْكُ لَا يَبْطُلُ بِالتَّرْك".
العقود الدریۃ في تنقيح الفتاوى الحامدیہ: (کتاب الدعوی، 26/2)
"(سئل) في أحد الورثة إذا أشهد عليه قبل قسمة التركة المشتملة على أعيان معلومة أنه ترك حقه من الإرث وأسقطه وأبرأ ذمة بقية الورثة منها ويريد الآن مطالبة حقه من الإرث فهل له ذلك؟
(الجواب) : الإرث جبري لا يسقط بالإسقاط وقد أفتى به العلامة الرملي كما هو محرر في فتاواه من الإقرار نقلا عن الفصولين وغيره فراجعه إن شئت."
الدر المختار مع رد المحتار: (260/6، ط: دار الفکر)
وقسم) المال المشترك (بطلب أحدهم إن انتفع كل) بحصته (بعد القسمة وبطلب ذي الكثير إن لم ينتفع الآخر لقلة حصته) وفي الخانية: يقسم بطلب كل وعليه الفتوى، لكن المتون على الأول فعليها المعول (وإن تضرر الكل لم يقسم إلا برضاهم) لئلا يعود على موضوعه بالنقض.
في المجتبى: حانوت لهما يعملان فيه طلب أحدهما القسمة إن أمكن لكل أن يعمل فيه بعد القسمة ما كان يعمل فيه قبلها قسم و إلا لا.
واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی