سوال:
السلام علیکم، مفتی صاحب! گرمیوں میں برف باری ہونا جس سے فصلوں کو نقصان ہو یا زیادہ بارش ہونا جس سے فصلیں تباہ ہوجائیں، جیسے: آج کل پاکستان اور افغانستان میں اکثر جگہوں پر برف باری ہورہی ہے، جس سے موسم ٹھنڈا ہوگیا ہے تو اس کو "آفت" کہنا کیسا ہے؟
جواب: بارش اللہ تعالیٰ کی نعمتوں میں سے ایک عظیم نعمت ہے۔ بارش کے پانی سے انسان، چرند، پرند اور زمین پر بسنے والے سینکڑوں کی تعداد میں حیوانات زندگی پاتے ہیں۔ قرآن مجید میں جا بجا بارش کو اللہ تعالیٰ کی اپنی بندوں پر نعمت اور رحمت قرار دیا گیا ہے:
1) (وہ پروردگار) جس نے تمہارے لئے زمین کو بچھونا بنایا، اور آسمان کو چھت اور آسمان سے پانی برسایا، پھر اس کے ذریعے تمہارے رزق کے طور پر پھل نکالے، لہذا اللہ کے ساتھ شریک نہ ٹھہراؤ، جبکہ تم ( یہ سب باتیں) جانتے ہو۔(البقرة: آیت نمبر: ١٨)
2) اور وہی (اللہ) ہے جو اپنی رحمت (یعنی بارش) کے آگے آگے ہوائیں بھیجتا ہے، جو (بارش کی) خوشخبری دیتی ہیں، یہاں تک کہ جب وہ بوجھ بادلوں کو اٹھا لیتی ہیں، تو ہم انہیں کسی مردہ زمین کی طرف ہنکالے جاتے ہیں، پھر وہاں پانی برساتے ہیں، اور اس کے ذریعے ہر قسم کے پھل نکالتے ہیں۔ اسی طرح ہم مردوں کو بھی زندہ کر کے نکالیں گے، شاید (ان باتوں پر غور کر کے) تم سبق حاصل کرلو۔ (الاعراف: آیت نمبر: ٥٧)
ان آیات مبارکہ سے واضح طور پر معلوم ہوا کہ بارش رحمت خداوندی ہے، لہذا اسے عام حالات میں انسانوں کے حق میں "آفت" یا "عذاب الٰہی" کہنا درست نہیں ہے، البتہ بعض اوقات ابتلاء و امتحان کے پیشِ نظر کچھ لوگوں کو ان بارشوں سے اذیت اور نقصان کا سامنا ہوتا ہے، جیسے: فصلوں کا تباہ ہوجانا، کچے گھروں کا گرجانا وغیرہ، لیکن اس نقصان واذیت کا بنیادی مقصد بھی اللہ تعالیٰ کی طرف سے اپنے بندوں (خواہ نیک ہو یا بد) کو آزمانا ہے، چنانچہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: اور دیکھو ہم تمہیں آزمائیں گے ضرور، (کبھی) خوف سے اور (کبھی) بھوک سے (کبھی) مال و جان اور پھلوں میں کمی کر کے اور جو لوگ (ایسے حالات میں) صبر سے کام لیں، ان کو خوشخبری سنا دو۔ (البقرة: آیت نمبر: ١٥٥)
لہذا بارش اپنی ذات میں اللہ تعالیٰ کی بڑی نعمت ہے، لیکن ہمارے اسباب کی کمزوری (مثلاً: نکاسی آب کا بہتر نظام نہ ہونے وغیرہ) کی وجہ سے بارش کبھی کبھار اذیت ونقصان کی شکل اختیار کرلیتی ہے، البتہ یہ بات ملحوظ رکھنی چاہیے کہ بارش وبرفباری کے نتیجے میں ہونے والے نقصانات سے جہاں عموماً اللہ تعالیٰ کی طرف سے اپنے بندوں کی بتلاء و آزمائش مقصود ہوتی ہے، وہی اللہ تعالیٰ کے نافرمان بندوں کے لیے ایک طرح کی تنبیہ بھی ہے، لیکن یہ ہر شخص کا اللہ تعالیٰ کے ساتھ ذاتی وانفرادی معاملہ ہے، لہذا اسے عمومی قانون کے طور پر سب انسانوں کے لیے عذاب الٰہی یا آفت سمجھنا درست نہیں ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
القرآن الكريم: (البقرة، الاية: 22)
الَّذِیۡ جَعَلَ لَکُمُ الۡاَرۡضَ فِرَاشًا وَّ السَّمَآءَ بِنَآءً ۪ وَّ اَنۡزَلَ مِنَ السَّمَآءِ مَآءً فَاَخۡرَجَ بِہٖ مِنَ الثَّمَرٰتِ رِزۡقًا لَّکُمۡ ۚ فَلَا تَجۡعَلُوۡا لِلّٰہِ اَنۡدَادًا وَّ اَنۡتُمۡ تَعۡلَمُوۡنَo
و قوله تعالي: (الاعراف، الاية: 57)
وَ ہُوَ الَّذِیۡ یُرۡسِلُ الرِّیٰحَ بُشۡرًۢا بَیۡنَ یَدَیۡ رَحۡمَتِہٖ ؕ حَتّٰۤی اِذَاۤ اَقَلَّتۡ سَحَابًا ثِقَالًا سُقۡنٰہُ لِبَلَدٍ مَّیِّتٍ فَاَنۡزَلۡنَا بِہِ الۡمَآءَ فَاَخۡرَجۡنَا بِہٖ مِنۡ کُلِّ الثَّمَرٰتِ ؕ کَذٰلِکَ نُخۡرِجُ الۡمَوۡتٰی لَعَلَّکُمۡ تَذَکَّرُوۡنَo
و قوله تعالي: (البقرة، الاية: 155)
وَ لَنَبۡلُوَنَّکُمۡ بِشَیۡءٍ مِّنَ الۡخَوۡفِ وَ الۡجُوۡعِ وَ نَقۡصٍ مِّنَ الۡاَمۡوَالِ وَ الۡاَنۡفُسِ وَ الثَّمَرٰتِ ؕ وَ بَشِّرِ الصّٰبِرِیۡنَo
واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی