عنوان: والد کا اپنے بڑے بیٹے کی شادی کے اخراجات اس شرط پر اٹھانا کہ وہ اس کے بدلے اپنے چھوٹے بھائیوں کی شادی کے اخراجات اٹھائے گا (9632-No)

سوال: السلام علیکم، مفتی صاحب! ہمارے ہاں رواج یہ ہے کہ شادی کا سارا خرچہ لڑکے والوں کو دینا ہوتا ہے، ایک والد نے اپنے دو بیٹوں کی شادی اس شرط پر کی کہ چھوٹے بھائیوں کی جب شادی ہوگی، تو اس کی شادی کا سارا خرچہ تم بھائیوں کو دینا ہوگا. پوچھنا یہ ہے کہ یہ شرط لگانا کیسا ہے؟ اور اب یہ خرچہ ان بھائيوں سے لیا جائے گا یا نہیں؟

جواب: واضح رہے کہ لڑکا جب تک نابالغ ہو یا بالغ ہو، لیکن کسی عذر شرعی کی وجہ سے کمانے کے قابل نہ ہو، اسی طرح غیرشادی شدہ لڑکیاں چاہے بالغہ ہوں یا نابالغہ، جب تک ان کی شادی نہ ہو، اس وقت تک ان کا نفقہ(خرچہ) شرعاً والد کے ذمے ہوتا ہے۔
جب لڑکا بالغ ہو جائے اور وہ کمانے کے قابل بھی ہو، تو اس کا خرچہ شرعاً والد کے ذمے نہیں ہوتا ہے، چنانچہ شادی کا خرچہ اور بیوی کا نفقہ بھی والد کے ذمہ نہیں ہوگا، لہذا ان اخراجات کی ذمہ داری شرعاً بالغ لڑکے پر ہوگی۔
ہاں! اگر والد اپنی خوشی سے ان اخراجات کو اپنے ذمہ لیتا ہے، تو یہ اس کی طرف سے محض احسان اور تبرع ہے، اس کی وجہ سے وہ بیٹا اس بات کا پابند نہیں ہوگا کہ وہ اس کے بدلے اپنے سے چھوٹے بھائیوں کی شادی کے موقع پر ان کے اخراجات اپنے ذمہ لے گا۔
ہاں! اگر بڑا بھائی اپنی خوشی سے ان اخراجات کی ذمہ داری لیتا ہے، تو یہ اس کی طرف سے محض احسان اور تبرع ہوگا، مگر شرعاً اس پر واجب نہیں ہوگا۔
لہذا صورت مسئولہ میں والد کا اپنے بڑے بیٹے کی شادی کے اخراجات اٹھاتے ہوئے یہ شرط لگانا کہ وہ اپنے چھوٹے بھائیوں کی شادی کے اخراجات اٹھائے گا، شرعا یہ شرط لگانا درست نہیں ہے، البتہ اس کی ترغیب دے سکتا ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:

الهندية: (کتاب الطلاق، 562/1، ط: دار الفکر، بیروت)
"الذكور من الأولاد إذا بلغوا حد الكسب، ولم يبلغوا في أنفسهم يدفعهم الأب إلى عمل ليكسبوا، أو يؤاجرهم وينفق عليهم من أجرتهم وكسبهم، وأما الإناث فليس للأب أن يؤاجرهن في عمل، أو خدمة كذا في الخلاصة".

الدر المختار مع رد المحتار: (کتاب الطلاق، 612/3، ط: دار الفکر، بیروت)
"(وتجب) النفقة بأنواعها على الحر (لطفله) يعم الأنثى والجمع (الفقير) الحر... (وكذا) تجب (لولده الكبير العاجز عن الكسب) كأنثى مطلقا وزمن ومن يلحقه العار بالتكسب وطالب علم لا يتفرغ لذلك، كذا في الزيلعي والعيني".
مطلب الصغير والمكتسب نفقة في كسبه لا على أبيه:
"(قوله لطفله) هو الولد حين يسقط من بطن أمه إلى أن يحتلم، ويقال جارية، طفل، وطفلة، كذا في المغرب. وقيل أول ما يولد صبي ثم طفل ح عن النهر (قوله يعم الأنثى والجمع) أي يطلق على الأنثى كما علمته، وعلى الجمع كما في قوله تعالى {أو الطفل الذين لم يظهروا} فهو مما يستوي فيه المفرد والجمع كالجنب والفلك والإمام {واجعلنا للمتقين إماما} ولا ينافيه جمعه على أطفال أيضا كما جمع إمام على أئمة أيضا فافهم. (قوله الفقير) أي إن لم يبلغ حد الكسب، فإن بلغه كان للأب أن يؤجره أو يدفعه في حرفة ليكتسب وينفق عليه من كسبه لو كان ذكرا، بخلاف الأنثى كما قدمه في الحضانة عن المؤيدية.... (قوله لولده الكبير إلخ) فإذا طلب من القاضي أن يفرض له النفقة على أبيه أجابه ويدفعها إليه؛ لأن ذلك حقه وله ولاية الاستيفاء ذخيرة، وعليه فلو قال له الأب: أنا أطعمك ولا أدفع إليك لا يجاب، وكذا الحكم في نفقة كل محرم بحر (قوله كأنثى مطلقا) أي ولو لم يكن بها زمانة تمنعها عن الكسب فمجرد الأنوثة عجز إلا إذا كان لها زوج فنفقتها عليه ما دامت زوجة وهل إذا نشزت عن طاعته تجب لها النفقة على أبيها محل تردد فتأمل، وتقدم أنه ليس للأب أن يؤجرها في عمل أو خدمة، وأنه لو كان لها كسب لا تجب عليه (قوله وزمن) أي من به مرض مزمن، والمراد هنا من به ما يمنعه عن الكسب كعمى وشلل، ولو قدر على اكتساب ما لا يكفيه فعلى أبيه تكميل الكفاية (قوله ومن يلحقه العار بالتكسب) كذا في البحر والزيلعي. واعترضه الرحمتي بأن الكسب لمؤنته ومؤنة عياله فرض فكيف يكون عارا، الأولى ما في المنح عن الخلاصة إذا كان من أبناء الكرام ولا يستأجره الناس فهو عاجز. اه ومثله في الفتح وسيأتي تمامه".

واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالإفتاء الاخلاص،کراچی

Print Full Screen Views: 817 Jun 23, 2022
walid ka apne / apnay bare / big bete / betey / son ki shadi / marriage k ikhrajat is shart / shrt per / par uthana / karna k us k badle / badley apne / apney chote / chotey bhaiyon / brothers k ikhrajat uthai / uthaye ga

Find here answers of your daily concerns or questions about daily life according to Islam and Sharia. This category covers your asking about the category of Nikah

Managed by: Hamariweb.com / Islamuna.com

Copyright © Al-Ikhalsonline 2024.