عنوان: کار کی ٹکر (Car Accident) سے کسی کے ہلاک ہوجانے پر دیت اور کفارہ کا حکم(9640-No)

سوال: مفتی صاحب ! کار چلاتے ہوئے ڈرائیور کی غلطی سے ایکسیڈنٹ ہوگیا، جس کی وجہ سے ایک راہ گیر شخص ہلاک ہو گیا ہے، معلوم یہ کرنا ہے کہ ڈرائیور پر کتنی دیت دینا لازم ہوگی؟ اور کیا کفارہ بھی واجب ہوگا؟

جواب: واضح رہے کہ اگر ایکسیڈنٹ ڈرائیور کی غلطی کی وجہ سے ہوا ہو، یعنی وہ بے احتیاطی سے گاڑی چلا رہا تھا یا گاڑی کی رفتار مقررہ حد سے زیادہ تھی، جس کی وجہ سے گاڑی راہ گیر سے ٹکرا گئی اور وہ ہلاک ہوگیا، تو ایسی صورت میں ڈرائیور کی "عاقلہ" پر دیت اور ڈرائیور کو مسلسل کفارے کے طور پر ساٹھ روزے رکھنے ہوں گے۔
دیت کی ادائیگی اس ڈرائیور کی "عاقلہ" کے ذمہ ہے، اور "عاقلہ" سے مراد وہ انجمن، ایسوسی ایشن، جماعت یا کمیونٹی ہے، جس کے ساتھ اس ڈرائیور کا باہمی تعاون کا تعلق ہو، نیز یہ دیت تین سال میں ادا کی جائے گی۔

ملحوظ رہے کہ دیت کی ادائیگی کی شرعاََ تین صورتیں ہیں، اس میں دیت دینے والے کو اختیار ہے کہ وہ ان تینوں صورتوں میں سے جو صورت چاہے اختیار کرلے، یا جس نصاب پر آپس کی رضامندی سے معاملہ طے ہو جائے۔
الف) دیت اگر سونے کی صورت میں ادا کی جائے، تو اس کی مقدار ایک ہزار (1000) دینار یعنی 375 تولہ سونا یا اس کی قیمت بنتی ہے۔
ب) اور اگر دیت چاندی کے اعتبار سے ادا کرنی ہو، تو دس ہزار (10000) درہم یعنی 2625 تولہ چاندی، یا اس کی قیمت بنتی ہے۔
ج) اور اگر دیت اونٹ کے اعتبار سے ادا کی جائے، تو سو اونٹ یا ان کی قیمت دیت میں ادا کی جائے گی، یہ اونٹ پانچ قسم کے ہوں گے، ایک سالہ بیس اونٹنیاں، ایک سالہ بیس اونٹ، دو سالہ بیس اونٹنیاں، تین سالہ بیس اونٹنیاں، چار سالہ بیس اونٹنیاں یا ان کی قیمت۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:

القرآن الکریم: (النساء، الایة: 92)
وَمَا كَانَ لِمُؤْمِنٍ أَن يَقْتُلَ مُؤْمِنًا إِلَّا خَطَأً ۚ وَمَن قَتَلَ مُؤْمِنًا خَطَأً فَتَحْرِيرُ رَقَبَةٍ مُّؤْمِنَةٍ وَدِيَةٌ مُّسَلَّمَةٌ إِلَىٰ أَهْلِهِ إِلَّا أَن يَصَّدَّقُوا ۚ فَإِن كَانَ مِن قَوْمٍ عَدُوٍّ لَّكُمْ وَهُوَ مُؤْمِنٌ فَتَحْرِيرُ رَقَبَةٍ مُّؤْمِنَةٍ ۖ وَإِن كَانَ مِن قَوْمٍ بَيْنَكُمْ وَبَيْنَهُم مِّيثَاقٌ فَدِيَةٌ مُّسَلَّمَةٌ إِلَىٰ أَهْلِهِ وَتَحْرِيرُ رَقَبَةٍ مُّؤْمِنَةٍ ۖ فَمَن لَّمْ يَجِدْ فَصِيَامُ شَهْرَيْنِ مُتَتَابِعَيْنِ تَوْبَةً مِّنَ اللَّهِ ۗ وَكَانَ اللَّهُ عَلِيمًا حَكِيمًاo

سنن ابی داؤد: (کتاب الدیات، باب الدیة كم هي، رقم الحدیث: 4545، ط: دار ابن حزم)
‏‏‏‏‏‏عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مَسْعُودٍ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي دِيَةِ الْخَطَإِ عِشْرُونَ حِقَّةً، ‏‏‏‏‏‏وَعِشْرُونَ جَذَعَةً، ‏‏‏‏‏‏وَعِشْرُونَ بِنْتَ مَخَاضٍ، ‏‏‏‏‏‏وَعِشْرُونَ بِنْتَ لَبُونٍ، ‏‏‏‏‏‏وَعِشْرُونَ بَنِي مَخَاضٍ ذُكُرٍ.

سنن النسائی: (القسامة، باب ذکر حدیث عمرو بن حزم فی العقول، رقم الحدیث: 4868، ط: دار المعرفة)
عَنْ أَبِي بَكْرِ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ عَمْرِو بْنِ حَزْمٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ جَدِّهِ: أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَتَبَ إِلَى أَهْلِ الْيَمَنِ كِتَابًا فِيهِ الْفَرَائِضُ وَالسُّنَنُ وَالدِّيَاتُ، وَبَعَثَ بِهِ مَعَ عَمْرِو بْنِ حَزْمٍ، فَقُرِأتْ عَلَى أَهْلِ الْيَمَنِ هَذِهِ نُسْخَتُهَا: «مِنْ مُحَمَّدٍ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِلَى شُرَحْبِيلَ بْنِ عَبْدِ كُلَالٍ، وَنُعَيْمِ بْنِ عَبْدِ كُلَالٍ، وَالْحَارِثِ بْنِ عَبْدِ كُلَالٍ قَيْلِ ذِيِ رُعَيْنٍ وَمَعَافِرَ وَهَمْدَانَ أَمَّا بَعْدُ»، وَكَانَ فِي كِتَابِهِ «أَنَّ مَنْ اعْتَبَطَ مُؤْمِنًا قَتْلًا عَنْ بَيِّنَةٍ، فَإِنَّهُ قَوَدٌ إِلَّا أَنْ يَرْضَى أَوْلِيَاءُ الْمَقْتُولِ، وَأَنَّ فِي النَّفْسِ الدِّيَةَ مِائَةً مِنَ الْإِبِلِ..... وَعَلَى أَهْلِ الذَّهَبِ أَلْفُ دِينَارٍ

تبيين الحقائق: (126/6- 127، ط: المطبعة الكبرى الأميرية)
(والخطأ مائة من الإبل أخماسا ابن مخاض وبنت مخاض وبنت لبون وحقة وجذعة) أي دية الخطأ مائة من الإبل أخماسا....قال رحمه الله :(أو ألف دينار أو عشرة آلاف درهم) أي الدية من الذهب ألف دينار ،ومن الورق عشرة آلاف درهم.

بدائع الصنائع: (255/7، ط: دار الکتب العلمیة)
وأما بيان من تجب عليه الدية فالدية تجب على القاتل؛ لأن سبب الوجوب هو القتل، وإنه وجد من القاتل، ثم الدية الواجبة على القاتل نوعان: نوع يجب عليه في ماله، ونوع يجب عليه كله، وتتحمل عنه العاقلة، بعضه بطريق التعاون إذا كان له عاقلة، وكل دية وجبت بنفس القتل الخطأ أو شبه العمد تتحمله العاقلة، وما لا فلا.

الدر المختار: (640/6- 642، ط: دار الفکر)
(والعاقلة أهل الديوان) وهم العسكر ،وعند الشافعي: أهل العشيرة وهم العصبات (لمن هو منهم ،فيجب عليهم كل دية وجبت بنفس القتل).... (فتؤخذ من عطاياهم) أو من أرزاقهم....(في ثلاث سنين) من وقت القضاء....(وإن لم يكن) القاتل (من أهل الديوان ،فعاقلته قبيلته) وأقاربه وكل من يتناصر هو به، تنوير البصائر.(وتقسم) الدية (عليهم في ثلاث سنين لا يؤخذ في كل سنة إلا درهم أو درهم وثلث.

فتح القدير للكمال ابن الهمام: (330/10، ط: دار الفکر)
"(قال:ومن قاد قطاراً فهو ضامن لما أوطأ)، فإن وطئ بعير إنساناً ضمن به القائد والدية على العاقلة؛ لأن القائد عليه حفظ القطار كالسائق وقد أمكنه ذلك وقد صار متعدياً بالتقصير فيه، والتسبب بوصف التعدي سبب للضمان، إلا أن ضمان النفس على العاقلة فيه وضمان المال في ماله (وإن كان معه سائق فالضمان عليهما) لأن قائد الواحد قائد للكل، وكذا سائقه لاتصال الأزمة، وهذا إذا كان السائق في جانب من الإبل، أما إذا كان توسطها وأخذ بزمام واحد يضمن ما عطب بما هو خلفه، ويضمنان ما تلف بما بين يديه لأن القائد لا يقود ما خلف السائق لانفصام الزمام، والسائق يسوق ما يكون قدامه".

تکملة فتح الملهم: (523/2، ط: مکتبة دار العلوم کراتشي)
"ثم لم یذکر الفقهاء حکم السیارة لعدم وجودها في عصرهم. والظاهر أن سائق السیارة ضامن لما أتلفته في الطریق ، سواء أتلفته من القدام أو من الخلف. و وجه الفرق بینها و بین الدابة علی قول الحنفیة أن الدابة متحرکة بإرادتها، فلاتنسب نفحتها إلی راکبها، بخلاف السیارة، فإنها لاتتحرك بإرادتها ، فتنسب جمیع حرکاتها إلی سائقها، فیضمن جمیع ذلك، والله سبحانه و تعالیٰ أعلم".

فتاوی عثمانی: (544/3، ط: معارف القرآن)

احسن الفتاوی: (540/8، ط: سعید)

واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی

Print Full Screen Views: 576 Jun 23, 2022
car ki takkar / accident se / say kisi k halak hojane per / par diyat or kafara ka hokom / hokum

Find here answers of your daily concerns or questions about daily life according to Islam and Sharia. This category covers your asking about the category of Inheritance & Will Foster

Managed by: Hamariweb.com / Islamuna.com

Copyright © Al-Ikhalsonline 2024.