عنوان: "آپ کے چچا زاد بھائی معاویہؓ ہمیں اس بات کا حکم دیتے ہیں کہ ہم آپس میں ایک دوسرے کا مال ناجائز طریقے سے کھائیں اور ایک دوسرے کو قتل کریں" کا مطلب اور اس کی درست تشریح (9642-No)

سوال: اس حدیث کے بارے میں بتادیں کہ کیا یہ حدیث درست ہے؟
حضرت جریر نے اعمش سے حدیث بیان کی انہوں نے زید بن وہب سے انہوں نے عبد الرحمن بن عبد رب الکعبہ سے روایت کی: میں مسجد (حرام) میں داخل ہوا تو وہاں حضرت عبداللہؓ بن عمرو بن عاص کعبہ کے سائے میں بیٹھے ہوئے تھے اور لوگوں نے ان پر جمگھٹا لگا رکھا تھا، میں (بھی) ان لوگوں کے پاس چلا گیا اور حضرت عبد اللہؓ کے قریب جا کر بیٹھ گیا، حضرت عبداللہ نے کہا: ہم ایک بار سفر میں رسول اللہ ﷺ کے ساتھ تھے، ہم نے ایک منزل پر قیام کیا، ہم میں سے کوئی ایسا تھا جو اپنا خیمہ درست کرنے لگا، کوئی تیر اندازی کرنے لگا، کوئی اپنے چرتے ہوئے جانوروں میں چلا گیا کہ اتنے میں رسول اللہﷺ کے مؤذن نے باجماعت نماز کا اعلان کیا، ہم رسول اللہ ﷺ کے پاس اکٹھے ہو گئے، آپ ﷺ نے فرمایا: مجھ سے پہلے (بھی) ہر نبی پر فرض تھا کہ وہ اپنی امت کے حق میں جو بھلائی کی بات جانتا ہے اس کی طرف ان کی رہنمائی کرے اور ان کے حق میں جو برا ہے اس سے ان کو ڈرائے، رہی تمہاری یہ امت تو اس کی عافیت آغاز میں رکھی گئی ہے اور آخری دور میں اسے آزمائش کا اور ایسے معاملات کا سامنا ہوگا جنہیں تم اچھا نہ سمجھو گے، ایسا فتنہ درپیش ہوگا کہ کچھ آزمائشیں دوسری کو ہیج کردیں گی، ایسا فتنہ آئے گا کہ مومن کہے گا: یہ میری تباہی (کا سامان) ہے، پھر وہ چھٹ جائے گا، پھر ایک اور آئے گا تو مومن کہے گا: یہ یہ (اصل تباہی) ہے، جو شخص یہ چاہتا ہے کہ اسے آگ سے دور کردیا جائے اور جنت میں داخل کردیا جائے تو اس کی موت اس عالم میں آئے کہ وہ اللہ اور آخرت کے دن پر یقین رکھتا ہو، (وہ آخری دم تک اپنے ایمان کی حفاظت کرے) اور وہ لوگوں کے پاس وہی (بات، دعوت، سلوک) لے کے جائے جو وہ پسند کرتا ہے کہ اس کے پاس لایا جائے، اور جو شخص ہاتھ میں ہاتھ دیتے ہوئے، دل کی گہرائیوں سے امام (مسلمان حکمران) کی بیعت کرے، استطاعت رکھتے ہوئے اس کی اطاعت کرے، پھر اگر دوسرا آجائے اور اس سے امامت چھیننا چاہے تو اس دوسرے کی گردن اڑادو، میں ان ( عبد اللہ بن عمرو رضی اللّٰه عنھما) سے (مزید) قریب ہوا اور عرض کی، میں آپ کو الله کی قسم دیتا ہوں، کیا آپ نے یہ بات رسول اللہ ﷺ سے سنی ہے؟ حضرت عبداللہؓ نے اپنے دونوں ہاتھوں سے اپنے کانوں اور دل کی طرف اشارہ کیا اور کہا: یہ بات میرے دونوں کانوں نے سنی، میرے دل نے یاد رکھی، میں نے ان سے کہا: یہ جو آپ کے چچا زاد معاویہؓ ہیں وہ تو ہمیں حکم دیتے ہیں کہ ہم آپس میں ایک دوسرے کا مال ناجائز طریقے سے کھائیں اور ایک دوسرے کو قتل کریں اور اللہ تعالیٰ یہ فرماتا ہے: "اے ایمان والو! ایک دوسرے کا مال ناجائز طریقے سے مت کھاؤ، الا یہ کہ باہمی رضا مندی سے تجارت ہو اور ایک دوسرے کو قتل نہ کرو، بلا شبہ اللہ تعالیٰ تم پر رحم کرنے والا ہے"، (عبد الرحمٰن) نے کہا: پھر وہ (حضرت عبدالله بن عمرو بن عاص رضی اللہ عنہما) گھڑی بھر خاموش رہے، پھر فرمایا: اللہ تعالیٰ کی اطاعت میں ان کی اطاعت کرو اور اللہ تعالیٰ کی نافرمانی (کے معاملے) میں ان کی نافرمانی کرو۔ (صحیح مسلم: 4776)

جواب: سوال میں ذکرکردہ روایت "صحیح مسلم" میں موجود ہے، ذیل میں مکمل روایت سند، متن، ترجمہ اور تشریح کے ساتھ ذکر کی جاتی ہے۔
حدثنا زهير بن حرب، وإسحاق بن إبراهيم، قال إسحاق: أخبرنا، وقال زهير: حدثنا جرير، عن الأعمش، عن زيد بن وهب، عن عبد الرحمن بن عبد رب الكعبة، قال: دخلت المسجد فإذا عبد الله بن عمرو بن العاص جالس في ظل الكعبة، والناس مجتمعون عليه، فأتيتهم فجلست إليه، فقال: كنا مع رسول الله صلى الله عليه وسلم في سفر، فنزلنا منزلا فمنا من يصلح خباءه، ومنا من ينتضل، ومنا من هو في جشره، إذ نادى منادي رسول الله صلى الله عليه وسلم: الصلاة جامعة، فاجتمعنا إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم، فقال: " إنه لم يكن نبي قبلي إلا كان حقا عليه أن يدل أمته على خير ما يعلمه لهم، وينذرهم شر ما يعلمه لهم، وإن أمتكم هذه جعل عافيتها في أولها، وسيصيب آخرها بلاء، وأمور تنكرونها، وتجيء فتنة فيرقق بعضها بعضا، وتجيء الفتنة فيقول المؤمن: هذه مهلكتي، ثم تنكشف وتجيء الفتنة، فيقول المؤمن: هذه هذه، فمن أحب أن يزحزح عن النار، ويدخل الجنة، فلتأته منيته وهو يؤمن بالله واليوم الآخر، وليأت إلى الناس الذي يحب أن يؤتى إليه، ومن بايع إماما فأعطاه صفقة يده، وثمرة قلبه، فليطعه إن استطاع، فإن جاء آخر ينازعه فاضربوا عنق الآخر "، فدنوت منه، فقلت له: أنشدك الله آنت سمعت هذا من رسول الله صلى الله عليه وسلم؟ فأهوى إلى أذنيه، وقلبه بيديه، وقال: «سمعته أذناي، ووعاه قلبي»، فقلت له: هذا ابن عمك معاوية، يأمرنا أن نأكل أموالنا بيننا بالباطل، ونقتل أنفسنا، والله يقول: {يا أيها الذين آمنوا لا تأكلوا أموالكم بينكم بالباطل إلا أن تكون تجارة عن تراض منكم ولا تقتلوا أنفسكم إن الله كان بكم رحيما} [النساء: 29] قال: فسكت ساعة، ثم قال: «أطعه في طاعة الله، واعصه في معصية الله.
ترجمہ:
‏‏‏‏ عبدالرحمٰن بن عبد رب کعبہ رحمہ اللہ سے روایت ہے کہ میں مسجد میں داخل ہوا تو حضرت عبداللہ بن عمرو بن عاص رضی اللہ عنہم کعبہ کے سایہ میں بیٹھے ہوئے تھے، اور لوگ ان کے اردگرد جمع تھے، میں ان کے پاس آیا اور ان کے پاس بیٹھ گیا تو عبداللہ نے کہا: ہم ایک سفر میں رسول اللہ ﷺکے ساتھ تھے، ہم ایک جگہ رکے، ہم میں سے بعض نے اپنا خیمہ لگانا شروع کر دیا اور بعض تیر اندازی کرنے لگے اور بعض وہ تھے، جو جانوروں میں ٹھہرے رہے، اتنے میں رسول اللہ ﷺکے منادی نے آواز دی «الصلوۃ جامعۃ» (یعنی) نماز کا وقت ہو گیا ہے، تو ہم رسول اللہ ﷺکے پاس جمع ہو گئے تو آپ ﷺنے فرمایا: مجھ سے قبل کوئی نبی ایسا نہیں گزرا، جس کے ذمے اپنے علم کے مطابق اپنی امت کی بھلائی کی طرف رہنمائی لازم نہ ہو اور برائی سے اپنے علم کے مطابق انہیں ڈرانا لازم نہ ہو، اور بیشک تمہاری اس امت کی عافیت ابتدائی حصہ میں ہے اور اس کا آخر ایسی مصیبتوں اور امور میں مبتلا ہوگا، جسے تم ناپسند کرتے ہو اور ایسا فتنہ آئے گا کہ مومن کہے گا کہ یہ میری ہلاکت ہے، پھر وہ ختم ہو جائے گا اور دوسرا ظاہر ہو گا، تو مومن کہے گا کہ یہی میری ہلاکت کا ذریعہ ہو گا، جس کو یہ بات پسند ہو کہ اسے جہنم سے دور رکھا جائے اور جنت میں داخل کیا جائے تو چاہیے کہ اس کی موت اس حال میں آئے کہ وہ اللہ پر اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتا ہو اور لوگوں کے ساتھ اس معاملہ سے پیش آئے، جس کے دیئے جانے کو اپنے لیے پسند کرے اور جس نے امام کے ہاتھ میں ہاتھ دے کر دل کے اخلاص سے بیعت کی، تو چاہیئے کہ اپنی طاقت کے مطابق اس کی اطاعت کرے اور اگر دوسرا شخص اس سے جھگڑا کرے تو دوسرے کی گردن مار دو۔ راوی کہتا ہے، پھر میں عبداللہ کے قریب ہو گیا اور ان سے کہا: میں تجھے اللہ کی قسم دے کر کہتا ہوں کہ کیا آپ نے یہ حدیث رسول اللہ ﷺسے سنی ہے؟ تو عبداللہ نے اپنے کانوں اور دل کی طرف اپنے ہاتھ سے اشارہ کر کے فرمایا: میرے کانوں نے آپ ﷺسے سنا اور میرے دل نے اسے محفوظ رکھا، تو میں نے ان سے کہا کہ یہ آپ کے چچا زاد بھائی معاویہ رضی اللہ عنہ ہمیں اپنے اموال کو ناجائز طریقے پر کھانے اور اپنی جانوں کو قتل کرنے کا حکم دیتے ہیں اور اللہ کا ارشاد ہے: ‏‏‏‏”اے ایمان والو ! اپنے اموال کو ناجائز طریقے سے نہ کھاؤ سوائے اس کے کہ ایسی تجارت ہو، جو باہمی رضا مندی سے کی جائے اور نہ اپنی جانوں کو قتل کرو، بیشک اللہ تم پر رحم فرمانے والا ہے۔“ راوی نے کہا عبداللہ رضی اللہ عنہ تھوڑی دیر خاموش رہے، پھر کہا: اللہ کی اطاعت میں ان کی اطاعت کرو اور اللہ کی نافرمانی میں ان کی نافرمانی کرو۔
تشریح:
اس حدیث کی تشریح سمجھنے سے پہلے تمہیداً چند باتوں کا جاننا ضروری ہے۔
۱۔ واضح رہے کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین اس امت کےلیے معیارِ حق ہیں، صحابہ کرام نے پوری امانت کے ساتھ قرآن، حدیث اور جناب رسول اللہ ﷺکی حیات طیبہ ہم تک پہنچائی ہے، اسلام کے اولین جانثار ہیں، ان کی تعریف خود اللہ تعالی نے قرآن مجید میں فرمائی ہے اور جن کی اللہ تعالی تعریف فرمائے، ایسی برگزیدہ ہستیوں کو برا بھلا کہنا یقیناً لعنت کا موجب ہے، ایک مقام پر مہاجرین و انصار کی عظمت و فضیلت کو یوں بیان فرمایا ہے۔
ارشاد باری تعالی ہے:
"اسلام میں سب سے پہلے آگے بڑھنے والے مہاجرین اور انصار اور پھر وہ جنہوں نے ان کی اچھی طرح پیروی کی، اللہ ان سے راضی ہوا اور وہ اس سے خوش ہو گئے اور اس نے ان کیلئے باغات تیار کر رکھے ہیں، جن کے نیچے نہریں بہہ رہی ہیں، وہ ان میں ہمیشہ رہیں گے۔ یہی بڑی کامیابی ہے"۔
(سورة التوبۃ: آیت نمبر:۱۰۰)
خود نبی اکرم ﷺنے اپنے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے بارے میں ارشاد فرمایا:
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺنے فرمایا:
میرے اصحاب کو برا مت کہو، میرے اصحاب کو برا مت کہو، قسم اس ذات کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے کہ اگر کوئی تم میں سے احد پہاڑ کے برابر سونا (اللہ کی راہ میں) خرچ کرے تو ان کے دیئے ایک مُد (آدھ کلو) یا آدھے مد کے برابر بھی نہیں ہو سکتا۔
(صحیح مسلم،حدیث نمبر: ۲۵۴۰ ٬ فضائل صحابہ امام احمد : ۵۳۴ ، سنن الکبری للنسائی : ۸۲۵۱ ، سنن ابن ماجہ ۱۶۱)
۲۔ تمام صحابہ ثقہ، عادل، قابل اعتماد واستناد ہیں۔
۳۔ تمام صحابہ کرام مغفور ہیں اور ان کی خطاء خطائے اجتہادی تھی، اور خطاء اجتہادی پر کوئی گناہ نہیں، بلکہ حسب تصریح احادیث صحیحہ ایک اجر ہی ملتا ہے۔
حضرت عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ سے مروى ہے کہ رسول اللہ صلى اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:حاکم و قاضى جب فیصلہ کرنے کا ارادہ کرے اور اجتہاد کرے، پھر وہ اپنےاجتہاد کے نتیجہ میں حق تک رسائى حاصل کرے (درست فیصلہ کرنے میں کامیاب ہو جائے)، تو اس کے لیے دو اجر ہیں اور اس سے چوک ہوئى، تو اس کے لیے ایک اجر ہے۔(صحيح البخاري : 9/ 108 ، رقم الحدیث: (7352) كتاب الاعتصام بالكتاب والسنة /باب أجر الحاكم إذا اجتهد فأصاب أو أخطأ)
۴۔ صحابۂ کرام کی کوتاہیوں میں بلا ضرورت غور وخوض، بحث و تمحیص کرنا بدبختی اور اپنے ایمان کو خطرہ میں ڈالنا ہے۔
حضرت امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ نے اپنے ایک مکتوب میں تحریر فرمایا: حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کے بعد سب سے افضل حضرت ابوبکرؓ ہیں، ابوبکرؓ کے بعد عمرؓ ہیں، عمرؓ کے بعد عثمانؓ ہیں، عثمان ؓ کے بعد علیؓ ہیں، (رضی اللہ عنہم) آخری قول میں ایک جماعت نے توقف کیا ہے، یہ ہدایت یافتہ خلفاء راشدینؓ تھے، پھر چار حضرات کے بعد سب صحابۂ کرامؓ سب سے افضل ہیں، کسی کو جائز نہیں کہ ان کی برائی کرے، کسی میں کوئی عیب اور نقص کی وجہ سے اعتراض نہ کرے، جس نے ایسا کیا، تو حاکم کے لیے اسے سزا دینی واجب ہے۔(الصارم المسلول على شاتم الرسول ص: 568)
۵۔ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے درمیان پیش آنے والے اختلافات کے بارے میں اہل السنۃ و الجماعۃ کا متفقہ عقیدہ یہ ہے کہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے بارے میں حسنِ ظن رکھا جائے، ان میں سے کسی ایک پر کسی قسم کا کوئی طعن نہ کیا جائے،کیوں کہ صحابہ کرام کے درمیان اختلافات کی بنیاد اجتہاد تھی، امام نوویؒ فرماتے ہیں:
اہلِ سنت اہل حق کا مذہب یہ ہے کہ سب صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے بارے میں حسن ظن رکھا جائے، ان کے آپس کے اختلافات میں خاموشی اور ان کی لڑائیوں کی تاویل کی جائے، وہ بلا شبہ سب مجتہد اور صاحبِ رائے تھے، معصیت اور نافرمانی ان کا مقصد نہ تھا اور نہ ہی محض دنیا طلبی پیش نظر تھی، بلکہ ہر فریق یہ اعتقاد رکھتا تھا کہ وہی حق پر ہے اور دوسرا باغی ہے اور باغی کے ساتھ لڑائی ضروری ہے؛ تاکہ وہ امر الٰہی کی طرف لوٹ آئے، اس اجتہاد میں بعض راہ صواب پر تھے اور بعض خطا پر تھے، مگر خطا کے باوجود وہ معذور تھے، کیوں کہ اس کا سبب اجتہاد تھا اور مجتہد سےا گر خطا سرزد ہو جائے، تو اس پر گناہ نہیں، حضرت علی رضی اللہ عنہ ان جنگوں میں حق پر تھے، اہلِ سنت کا یہی موقف ہے، یہ معاملات بڑے مشتبہ تھے، یہاں تک کہ صحابہ رضی اللہ عنہم کی ایک جماعت اس پر حیران و پریشان تھی، جس کی بنا پر وہ فریقین سے علیحدہ رہی اور قتال میں انہوں نے حصہ نہیں لیا۔
علامہ ابن حجر عسقلانیؒ فرماتے ہیں:
اہل سنت اس بات پر متفق ہیں کہ صحابہ کے مابین واقع ہونے والے حوادث کی بنا پر ان میں کسی ایک صحابی پر طعن و تشنیع سے اجتناب واجب ہے، اگرچہ یہ معلوم ہوجائے کہ فلاں صحابی کا موقف موقفِ حق تھا، کیوں کہ انہوں نے ان لڑائیوں میں صرف اپنے اجتہاد کی بنا پر حصہ لیا اور اللہ نے مجتہد مخطی کو معاف فرما دیا ہے، بلکہ یہ بات ثابت ہے کہ مجتہد کے اجتہاد میں خطا ہوجائے، تب بھی اسے ایک گنا اجر ملے گا، اور جس کا اجتہاد درست ہوگا، اسے دو گنا اجر ملے گا۔
۶۔ حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کی فضیلت کے بارے میں بہت سی روایات وارد ہوئی ہیں، جن میں سے چند روایات درج ذیل ہیں:
(1) عبدالرحمٰن بن ابی عمیرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی ﷺنے حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کے لئے فرمایا کہ:" اے اللہ! اسے ہدایت یافتہ بنادے اور اس کے ذریعے لوگوں کو ہدایت دے"
(سنن الترمذی: رقم الحدیث:3842، وقال؛ ھذا حدیث حسن غریب)
(2) صحیح بخاری میں رسول اللہ صلی اللہ کا ارشاد ہے کہ :"میری اُمت کا پہلا لشکر جو سمندر میں جہاد کرے گا، ان کے لئے جنت واجب ہے۔"
(صحیح بخاری: رقم الحدیث: 2924)
محدثین اس حدیث کی ذیل میں لکھتے ہیں کہ یہ جہاد حضرت معاویہ بن ابی سفیان رضی اللہ عنہ کی خلافت کے زمانے میں ہوا تھا، اور اس جہاد میں حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ شامل تھے۔
(دیکھیےصحیح بخاری ٢٧٩٩۔٢٨٠٠، ٦٢٨٢۔٦٢٨٣)
(3) عرباض بن ساریہ السلمی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺنے فرمایا کہ اے میرے اللہ! معاویہ کو کتاب و حساب سکھا اور اُسے عذاب سے بچا۔"
(مسند احمد: 127/4 ح 17152، وسند حسن، صحیح ابن خزیمہ 1938)
(4)امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کاتبین وحی میں سے تھے۔
(صحیح مسلم:2604)
ان تمہیدات کے بعد سوال میں ذکرکردہ روایت کی تشریح ذکرکی جاتی ہے۔
روایت کی تشریح:
اس روایت میں حضرت عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ سے سوال کرنے والاشخص عبدالرحمٰن بن عبد رب کعبہ حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کا سیاسی مخالف تھا اور حضرت علی رضی اللہ عنہ کا حامی تھا اور کوفہ کا رہنے والا تھا، ظاہر ہے اس دور میں امت مسلمہ سیاسی طور پر تقسیم ہو چکی تھی اور مسلمانوں کے دو بڑے گروہ بن چکے تھے، جو قصاصِ عثمان کے مسئلہ پر ایک دوسرے سے سخت اختلاف رکھتے تھے اور مسلمان، دشمنان اسلام یعنی سبائی گروہ، قاتلین عثمان کی سازشوں اور کاوشوں کا شکار ہو کر آپس میں جنگیں بھی لڑ چکے تھے، ایسے حالات میں عبد الرحمان بن عبدربہ جو کہ حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کا مخالف تھا اور وہ اس موقعہ پر جیسا کہ حدیث میں بیان ہوا ہے ، کھل کر تنقید بھی کر رہا ہے ، تو اس سے ظاہر ہو تا ہے کہ وہ مخالف آدمی تھا، پھر یہ کیسے ممکن ہے کہ حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ اسے حکم دیں کہ لوگوں کا مال ناحق کھاؤ، یا نہیں کہیں کہ ناحق قتل بھی کرو۔۔؟ ظاہر ہے کہ معاویہ رضی اللہ نے کسی کو قتل کروانا تھا تو اپنے حامیوں کو حکم دیں گے یا پھر اپنے مخالف کو ؟ اس لئے عبد الرحمان بن عبد رب کے یہ الفاظ حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ پر بے جا تنقید ہیں اور ان کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ اسی لیے اس روایت کے بارے میں علماء اہل سنت کا موقف ہے کہ عبد الرحمان بن عبد ربہ کے الفاظ اصل میں ظاہری معنی کے ساتھ عمومی حالت میں تسلیم کرنا درست نہیں، بلکہ یہ مقصد تھا جو لوگ حضرت علی رضی اللہ عنہ کے گروہ سے تھے ،وہ سمجھتے تھے کہ مسلمانوں کی آپس کی لڑائی میں جو قتل ہو رہے ہیں، وہ ناحق قتل ہو رہے ہیں اور جو مال خرچ ہو رہا ہے، وہ ناحق خرچ ہو رہا ہے، اور اس نقصان کی ذمہ داری حضرت امیر معاویہ رضی اللہ پر ہے۔
امام نووی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ (عبد الرحمن بن عبد رب کعبہ نے جو اعتراض کیا اس کا پس منظر یہ تھا کہ) حضرت علی رضی اللہ عنہ کے ہاتھ پہ مسلمانوں نے بیعت کر لی تھی، (بیعت کے بعد خلیفہ کی اطاعت کرنے کا حکم ہے اور اس کی نافرمانی سے رکنے کا حکم ہے ) تو حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ اپنے لشکروں پر جو مال خرچ کر رہے ہیں اور جو لوگ حضرت علی رضی اللہ عنہ سے لڑائی میں مارے جار ہے ہیں، یہ تو گویا کہ یہ ناحق ہے تو اس تناظر میں عبد الرحمن بن عبد رب کعبہ نے یہ بات کی تھی کہ حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ نے جو حضرت علی رضی اللہ عنہ کی مخالفت کی ہے، درست نہیں ہے، بلکہ ناحق ہے، یہ ان کا موقف تھا۔
حضرت مفتی تقی عثمانی صاحب دامت برکاتہم لکھتے ہیں کہ امام نووی کی اس تفسیر سے بات واضح ہوگئی کہ سائل کا مطلب ہرگز یہ نہیں تھا کہ (العیاذ باللہ) حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ بیت مال میں کوئی خیانت کررہے ہیں یا لوگوں کو ناحق یا بغیر اجتہاد کے قتل کررہے ہیں، جیسا کہ بعض لوگوں نے سمجھا، کیونکہ امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے بارے میں یہ بات کسی متعمد سند سے ثابت نہیں ہے، وہ فضلاء صحابہ کرام کی جماعت کے فرد ہیں۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:

شرح النووي على مسلم: (11/18، ط: دار إحياء التراث العربي)
واعلم أن الدماء التي جرت بين الصحابة رضي الله عنهم ليست بداخلة في هذا الوعيد ومذهب أهل السنة والحق إحسان الظن بهم والإمساك عما شجر بينهم وتأويل قتالهم وأنهم مجتهدون متأولون لم يقصدوا معصية ولامحض الدنيا بل اعتقد كل فريق أنه المحق ومخالفه باغ فوجب عليه قتاله ليرجع إلى أمر الله وكان بعضهم مصيبا وبعضهم مخطئا معذورا في الخطأ لأنه لاجتهاد والمجتهد إذا أخطأ لا إثم عليه وكان علي رضي الله عنه هو المحق المصيب في تلك الحروب هذا مذهب أهل السنة وكانت القضايا مشتبهة حتى إن جماعة من الصحابة تحيروا فيها فاعتزلوا الطائفتين ولم يقاتلوا ولم يتيقنوا الصواب ثم تأخروا عن مساعدته منهم۔

و فیه ایضاً: (234/12، ط: دار إحياء التراث العربي)
المقصود بهذا الكلام أن هذا القائل لما سمع كلام عبد الله بن عمرو بن العاص وذكر الحديث في تحريم منازعة الخليفة الأول وأن الثاني يقتل فاعتقد هذا القائل هذا الوصف في معاوية لمنازعته عليا رضي الله عنه وكانت قد سبقت بيعة علي فرأى هذا أن نفقة معاوية على أجناده وأتباعه في حرب علي ومنازعته ومقاتلته إياه من أكل المال بالباطل ومن قتل النفس لأنه قتال بغير حق فلا يستحق أحد مالا في مقاتلته۔

فتح الباري لابن حجرالعسقلاني: (34/13، ط: دار المعرفة)
واتفق أهل السنة على وجوب منع الطعن على أحد من الصحابة بسبب ما وقع لهم من ذلك ولو عرف المحق منهم لأنهم لم يقاتلوا في تلك الحروب إلا عن اجتهاد وقد عفا الله تعالى عن المخطئ في الاجتهاد بل ثبت أنه يؤجر أجرا واحدا وأن المصيب يؤجر أجرين

بذل المجهود للشيخ خليل أحمد السهارنفوري: (281/12، ط: مركز الشيخ أبي الحسن الندوي)
كتب مولانا محمد يحيى المرحوم من تقرير شيخه - رحمه الله -: قوله: "أطعه في طاعة الله"، استشكل عليه الجواب عما سأله السائل، إذ لا شك أن عليًّا - رضي الله عنه - كان هو الأول بيعة، وأحقّ منه بالخلافة، وكان معاوية - رضي الله عنه - في أول ما حارب معه علي - رضي الله عنه - على خلاف الحق، إلا أنه كان قد أخطأ في اجتهاده، حيث تواترت إليه الأخبار بما أورثت له علم يقين بأن قتل عثمان - رضي الله عنه - إنما هو بإشارة علي - رضي الله عنه -، وعِلْمِه بذاك، وصار وجود الحسنين على الباب قرينةً لذاك وحجةً للمعاندين الذين كانوا مُتَصَدِّيْن لإفساد ما بينهم، وكذلك نقول فيمن لم يبايع يزيدَ منهم، ومن بايعه منهم، فإن معنى قوله - صلى الله عليه وسلم -: "اقتلوا الآخر" ليس على إطلاقه، كيف: ولو كان الأمر بقتل الآخر مطلقًا عن كل تقييد لأدى ذلك إلى تكليف بما لا يطاق، كيف وإنه أمر لكل من يأتي منه القتل ويتيسر، لا لمن لم يتأت منه ذلك أيضًا، وإذا كان أمر القتل للمتمكن منه لا مطلقًا كان ذلك إجازة لانقياد المتغلب إذا لم يتيسر قتله، وإلَّا لكان إلقاء لنفسه في التهلكة بمخالفته.
وإذا تحققت هذا فاعلم أن الصحابة كلهم اتفقوا بعد علي - رضي الله عنه - على معاوية - رضي الله عنه -، ولما وصلت النوبة إلى يزيد بن معاوية، تفرقت منهم فرق، فمن جَوَّز خلافته نَظَرَ إلى النصوص الواردة في إطاعة أئمة الجور، ومن لم يجوِّزْها افتقر إلى خليفة آخر يقوم به أمرهم.

واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی

Print Full Screen Views: 2906 Jun 27, 2022
muslim sharif ki riwayat number 4776 k alfaz "aap k chachazad bhai muavia razi allaho tala anho hamain apne amwal ko najaiz tariqe per khane or apni jano ko qatal karne ka hokom / hokum detey hain" ka matlab or is ki drust tashreeh

Find here answers of your daily concerns or questions about daily life according to Islam and Sharia. This category covers your asking about the category of Interpretation and research of Ahadees

Managed by: Hamariweb.com / Islamuna.com

Copyright © Al-Ikhalsonline 2024.