سوال:
السلام علیکم، مفتی صاحب! ایک شخص کے پاس مال اور دوسرے کے پاس مہارت ہے، دوسرے شخص نے پہلے والے کے مال سے گاڑیاں خریدیں، ان کی مرمت کروائی اور پھر ان کو فروخت کر دیا، منافع 50/50 آپس میں بانٹ لیا، نقصان کی صورت میں یہ تقسیم کس طرح ہو گی، جبکہ ابتدا میں اس بارے میں کوئی بات نہ ہوئی ہو، یا اگر دونوں کا آپس میں نفع اور نقصان میں برابر کی شراکت داری پر رضامندی قرار پائی ہو، تو کیا حکم ہے؟ براہ کرم رہنمائی فرمائیں۔ جزاک اللہ خیرا
جواب: پوچھی گئی صورت فقہی لحاظ سے "مضاربت" کہلاتی ہے، جوکہ اصولی طور پر شرعا درست ہے۔
مضاربت میں نقصان سے متعلق شرعی اصول یہ ہے کہ اگر مضارب (working partner) کی غفلت و کوتاہی کی وجہ سے نقصان ہوجائے، تو سارا نقصان وہی برداشت کرے گا، رب المال/Investor (جس کا مال ہے) اس کو اپنا سرمایہ ملے گا، لیکن اگر مضارب کی غفلت و کوتاہی کے بغیر کاروبار میں نقصان ہوجائے، تو ایسی صورت میں اولاً تو اس کو نفع سے پورا کیا جائے گا، اور اگر نقصان نفع سے پورا ہوجائے تو ٹھیک، ورنہ اس نقصان کی ذمہ داری رب المال (Investor) پر ہوگی، سارا نقصان وہی برداشت کرے گا، اس صورت میں مضارب کی محنت ضائع ہوجائے گی، جس کے عوض اسے کچھ نہیں ملے گا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
الھدایۃ: (200/3، ط: دار احیاء التراث العربی)
قال: "المضاربة عقد على الشركة بمال من أحد الجانبين" ومراده الشركة في الربح وهو يستحق بالمال من أحد الجانبين "والعمل من الجانب الآخر" ولا مضاربة بدونها؛ ألا ترى أن الربح لو شرط كله لرب المال كان بضاعة، ولو شرط جميعه للمضارب كان قرضا۔۔۔۔ قال: "ومن شرطها أن يكون الربح بينهما مشاعا لا يستحق أحدهما دراهم مسماة" من الربح لأن شرط ذلك يقطع الشركة بينهما ولا بد منها كما في عقد الشركة۔۔۔الخ
الدر المختار مع رد المحتار: (656/5، ط: سعید)
"(وما هلك من مال المضاربة يصرف إلى الربح) ؛ لأنه تبع (فإن زاد الهالك على الربح لم يضمن) ولو فاسدة من عمله؛ لأنه أمين (وإن قسم الربح وبقيت المضاربة ثم هلك المال أو بعضه ترادا الربح ليأخذ المالك رأس المال وما فضل بينهما، وإن نقص لم يضمن)
واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی