عنوان: بیوی دو طلاق کا دعویٰ کرے اور شوہر کو تعداد یاد نہ ہو، تو کتنی طلاق شمار کی جائیں گی؟ (9658-No)

سوال: ایک شخص نے غصے کی حالت میں طلاق دی، کتنی دی یہ معلوم نہیں، طلاق کے وقت بیوی، والدہ اور بہن موجود تھیں، والدہ کا کہنا ہے میں نے ایک طلاق سنی اور کمرے سے باہر چلی گئی، بہن کا ذہنی توازن درست نہیں، جب شوہر طلاق دے کر گھر سے باہر نکلا، تو گاؤں والوں نے پوچھا کہ کتنی طلاق دی ہیں؟ کہا جتنی دینی تھی دے دی ہیں، بیوی دو طلاق کا کہہ رہی ہے، معلوم یہ کرنا کہ کتنی طلاقیں واقع ہو گئی ہیں؟
شوہر کو بالکل بھی تعداد نہیں معلوم ہے، جبکہ شوہر کی والدہ کہہ رہی ہے کہ میں ایک مرتبہ سن کر کمرے سے نکل گئی تھی اور بیوی دو کا دعوی کر رہی ہے، اس صورت میں کتنی طلاقوں کا حکم لگے گا؟

جواب: پوچھی گئی صورت میں اگر واقعتاً شوہر کو طلاق دینا یاد ہے، مگر طلاقوں کی تعداد بالکل بھی یاد نہیں، نیز بیوی کو یقینی طور پر یاد ہو کہ شوہر نے دو طلاقیں دی ہیں، دو سے زیادہ نہیں دی، تو شرعاً اس صورت میں دو طلاقیں واقع ہوگئی ہیں، جس کا حکم یہ ہے کہ عدت کے دوران شوہر اگر رجوع کرنا چاہے، تو کر سکتا ہے۔
رجوع کرنے کا طریقہ یہ ہے کہ زبان سے کہہ دے کہ "میں نے رجوع کرلیا ہے" تو رجوع ہو جائے گا، اور بہتر یہ ہے کہ اس پر دو گواہ بھی بنالے، اور اگر زبان سے کچھ نہ کہے، مگر آپس میں میاں بیوی کا تعلق قائم کرلے یا خواہش اور رغبت سے اس کو ہاتھ لگالے، تب بھی رجوع ہو جائے گا، البتہ اگر عدت گزر گئی ہو، تو پھر باہمی رضامندی سے نیا مہر مقرر کرکے گواہوں کی موجودگی میں دوبارہ نکاح کرنا ہوگا۔
واضح رہے کہ ذکرکردہ صورت میں رجوع یا نیا نکاح کرنے کے بعد آئندہ شوہر کو صرف ایک طلاق دینے کا اختیار باقی ہوگا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:

الاشباہ و النظائر لابن نجیم: (ص: 52، ط: دار الکتب العلمیة)
ومنها:شك هل طلق أم لا لم يقع. شك أنه طلق واحدۃ أو أکثر،بنیٰ علی الأقل کما ذکرہ الإسبیجابي إلا أن یستیقن بالأکثر، أو یکون أکبر ظنه علی خلافه.

الدر المختار: (284/3، ط: دار الفکر)
لو شك أطلق أم لا. ولو شك أطلق واحدة أو أكثر بنى على الأقل.

رد المحتار: (284/3، ط: دار الفکر)
(قوله بنى على الأقل) أي كما ذكره الإسبيجابي، إلا أن يستيقن بالأكثر أو يكون أكبر ظنه. وعن الإمام الثاني إذا كان لا يدري أثلاث أم أقل يتحرى؛ وإن استويا عمل بأشد ذلك عليه؛ أشباه عن البزازية قال ط: وعلى قول الثاني اقتصر قاضي خان؛ ولعله لأنه يعمل بالاحتياط خصوصا في باب الفروج. اه. قلت: ويمكن حمل الأول على القضاء والثاني على الديانة.

و فيه أيضاً: (251/3)
والمرأة كالقاضي إذا سمعته أو أخبرها عدل لا يحل له تمكينه. والفتوى على أنه ليس لها قتله، ولا تقتل نفسها بل تفدي نفسها بمال أو تهرب، كما أنه ليس له قتلها إذا حرمت عليه وكلما هرب ردته بالسحر. وفي البزازية عن الأوزجندي أنها ترفع الأمر للقاضي، فإنه حلف ولا بينة لها فالإثم عليه. اه. قلت: أي إذا لم تقدر على الفداء أو الهرب ولا على منعه عنها فلا ينافي ما قبله.

بدائع الصنائع: (126/3، ط: دار الکتب العلمیة)
شك الزوج لا يخلو: إما أن وقع في أصل التطليق أطلقها أم لا؟ وإما أن وقع في عدد الطلاق وقدره؛ أنه طلقها واحدة أو اثنتين أو ثلاثا، أو صفة الطلاق أنه طلقها رجعية أو بائنة فإن وقع في أصل الطلاق لا يحكم بوقوعه لما قلنا، وإن وقع في القدر يحكم بالأقل؛ لأنه متيقن به وفي الزيادة شك، وإن وقع في وصفه يحكم بالرجعية؛ لأنها أضعف الطلاقين فكانت متيقنا بها.

مجلة الاحكام العدلية: (المادة: 67، ص: 24، ط: نور محمد، کتب خانه)
لا ينسب إلى ساكت قول لكن السكوت في معرض الحاجة بيان.

کذا في فتاوي بنوري تاؤن: رقم الفتوي: 144301200194

واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی

Print Full Screen Views: 681 Jun 29, 2022
biwi do /two talaq ka dawa kare / karey or shohar / husband ko tadad yaad na ho to kitni talaq shumar ki jai gi?

Find here answers of your daily concerns or questions about daily life according to Islam and Sharia. This category covers your asking about the category of Divorce

Managed by: Hamariweb.com / Islamuna.com

Copyright © Al-Ikhalsonline 2024.