عنوان: میاں بیوی کے اختلاف کی صورت میں کیا کرنا چاہیے؟ (9693-No)

سوال: السلام علیکم، مفتی صاحب! میری بہن کا آج سے تقریباً چار ماہ قبل میری خالہ زاد بیٹے سے نکاح ہوا، نکاح کے ایک ہفتہ بعد اس لڑکے کے کچھ پیچیدہ معاملات سامنے آئے، مثلاً: کسی اور لڑکی سے ناجائز تعلقات وغیرہ جس کے تصویری ثبوت ہمارے پاس محفوظ ہیں، اس تین ماہ میں میری بہن صرف دس سے پندرہ دن اس کے ساتھ رہی، اس کے بعد اس نے کمرے میں بند کرنا الزامات لگانا اور اس جیسے تشدد والے معاملات شروع کردیئے، اب بنیادی مسئلہ یہ ہے کہ اس دوران میری ہمشیرہ کو حمل ٹھہر گیا ہے، گھر جوڑنے کی ہم نے بھر پور کوشش کی، لیکن کسی طرح سے معاملہ بن نہ سکا، اب وہ لڑکا طلاق دینے پر آمادہ ہے، اور طلاق دے کر فارغ بھی نہیں کر رہا، اس حوالے سے چند باتیں آپ سے پوچھنی ہیں:
1. ایسے موقع پر طلاق لینی چاہیے یا نہیں؟ خاندان کے معزز لوگ اور کچھ علماء کرام کا مشورہ یہ ہے کہ ایسی صورت میں طلاق لے لینی چاہیے۔
2. میری بہن اس حمل کو ضائع کروانا چاہتی ہے، جبکہ حمل کو چار ماہ ہونے والے ہیں، ذہنی اعتبار سے وہ بہت زیادہ ڈپریشن کا شکار ہے، بچہ جننے کے لیے بالکل راضی نہیں ہے۔
واضح رہے کہ اس لڑکے نے اشارةً بچہ کا انکار بھی کیا ہے، حتی کہ یہ بھی کہا ہے کہ میں اس بچہ کو نہیں مانتا، براہ کرم رہنمائی فرمائیں کہ ایسی صورتحال میں شریعت مطہرہ کا کیا حکم ہے؟

جواب: شریعت کی نظر میں میاں بیوی کے تعلقات بڑی اہمیت رکھتے ہیں، کیونکہ میاں بیوی میں اختلاف اور ناچاقی پیدا ہونے سے صرف دو افراد کے درمیان رشتہ ختم نہیں ہوتا ہے، بلکہ دو خاندان اجڑ جاتے ہیں اور بسا اوقات کئی کئی خاندانوں کے تعلقات ختم ہو جاتے ہیں، اسی وجہ سے قرآن کریم میں میاں بیوی کے تعلقات خراب ہونے کی صورت میں دونوں طرف سے ثالث مقرر کرنے کا حکم دیا گیا ہے، تاکہ فریقین میں باہمی صلح کرانے کی کوشش کی جائے۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے:
"اور اگر تمہیں میاں بیوی کے درمیان پھوٹ پڑنے کا اندیشہ ہو تو (ان کے درمیان فیصلہ کرانے کے لیے) ایک منصف مرد کے خاندان میں سے اور ایک منصف عورت کے خاندان میں سے بھیج دو ۔ اگر وہ دونوں اصلاح کرانا چاہیں گے تو اللہ دونوں کے درمیان اتفاق پیدا فرما دے گا۔ بیشک اللہ کو ہر بات کا علم اور ہر بات کی خبر ہے"۔
(سورۃ النساء: آیت نمبر:35)
لہذا سوال میں ذکر کردہ صورت میں آپ لوگوں کو دونوں طرف سے با اثر اور سمجھدار افراد کے ذریعے رضامندی اور صلح صفائی کے ساتھ آپس کے اختلافات کو ختم کرکے مسئلہ حل کرنے کی کوشش کرنی چاہیے، تاکہ طلاق کی نوبت نہ آئے، لیکن اگر تمام تر کوششوں اور وسائل کے اختیار کرنے کے باوجود زوجین کے درمیان نکاح کے نباہ کی کوئی صورت ممکن نہ ہو اور شوہر کی طرف سے بیوی کے ساتھ واقعی بلا وجہ زیادتی یا تشدد کیا جاتا ہو، تو ایسی صورت میں شریعت نے عورت کو طلاق کے مطالبہ کا حق دیا ہے۔
البتہ بلا وجہ اور بغیر شرعی عذر کے عورت کی طرف سے طلاق کا مطالبہ کرنا ناجائز ہے اور حدیث شریف کے مطابق ایسی عورت پر جنت کی خوشبو بھی حرام ہے، جو بغیر وجہ کے طلاق کا مطالبہ کرے۔
(سنن ابی داؤد: رقم الحدیث: 2226)
عام طور پر چار ماہ کے حمل میں جان پڑ چکی ہوتی ہے، ایسے حمل کو ضائع کرنا، گویا ایک زندہ انسان کو قتل کرنا ہے، جو کہ بد ترین گناہ ہے، لہذا ذکر کردہ صورت میں عورت کا شوہر سے ناراضگی کی وجہ سے حمل ضائع کرانا شرعًا جائز نہیں ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:

سنن أبي داؤد: (رقم الحدیث: 2226، ط: دار ابن حزم)
عَنْ ثَوْبَانَ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‏‏‏‏ أَيُّمَا امْرَأَةٍ سَأَلَتْ زَوْجَهَا طَلَاقًا فِي غَيْرِ مَا بَأْسٍ، ‏‏‏‏‏‏فَحَرَامٌ عَلَيْهَا رَائِحَةُ الْجَنَّةِ.

رد المحتار: (441/3، ط: دار الفکر)
(قوله: للشقاق) أي لوجود الشقاق وهو الاختلاف والتخاصم. وفي القهستاني عن شرح الطحاوي: السنة إذا وقع بين الزوجين اختلاف أن يجتمع أهلهما ليصلحوا بينهما، فإن لم يصطلحا جاز الطلاق والخلع. اه. ط، وهذا هو الحكم المذكور في الآية، وقد أوضح الكلام عليه في الفتح آخر الباب.

و فیه أيضاً: (375/6، ط: دار الفکر)
وفي الذخيرة: لو أرادت إلقاء الماء بعد وصوله إلى الرحم قالوا إن مضت مدة ينفخ فيه الروح لا يباح لها وقبله اختلف المشايخ فيه والنفخ مقدر بمائة وعشرين يوما بالحديث اه.

الھندیة: (356/5، ط: دار الفکر)
العلاج لإسقاط الولد إذا استبان خلقه كالشعر والظفر ونحوهما لا يجوز

واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی

Print Full Screen Views: 976 Jul 20, 2022
mia / khawand / shohar biwi / bivi / zoja me / mein ikhtilaf ki sorat me / mein kia karna chahiye?

Find here answers of your daily concerns or questions about daily life according to Islam and Sharia. This category covers your asking about the category of Divorce

Managed by: Hamariweb.com / Islamuna.com

Copyright © Al-Ikhalsonline 2024.