سوال:
ایک شخص سوتا رہ جائے جب آنکھ کھلے اس وقت نماز پڑھ لے، کیا یہ کسی حدیث میں آیا ہے؟
جواب: سوال میں ذکرکردہ الفاظ ’’صحیح مسلم ‘‘ اور حدیث کی دیگر کتب میں موجود ہیں ،لہذا اس حدیث کو بیان کی جاسکتا ہے۔ذیل میں اس حدیث کا ترجمہ اور مختصر تشریح ذکر کی جاتی ہے۔
ترجمہ:حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ اللہ کے نبی ﷺ نے فرمایا: ’’جو شخص کوئی نماز بھول گیا یا اسے ادا کرتے وقت سوتا رہ گیا تو اس (نماز) کا کفارہ یہی ہے کہ جب اسے یاد آئے وہ اس نماز کو پڑھ لے۔(۱)
تشریح:
اگر کوئی شخص نماز کا وقت داخل ہونے سے پہلے سوجائے اورسونے سے پہلے جاگنے کے اسباب اختیار کر چکا ہو اور پھر کسی وجہ سے نہ اٹھ سکے تو اس حالت میں نماز قضاء ہونے پر کوئی گناہ نہیں ہے ۔
اسی طرح کسی سے بھول ہو گئی اور پورا نماز کا وقت گزر گیا اس کو یاد ہی نہیں آیا کہ نماز کا وقت داخل ہوکر گزر بھی چکا ہے، چونکہ بھول اور چوک اس امت سے معاف ہے؛ جیسے حدیث شریف میں ہے:"رسول اللہﷺ نے فرمایا اللہ تعالی نےمیری امت سے خطا اور بهول معاف کردی گئی ہے"۔(۲)
لہذا ان دونوں وجوہات کی وجہ سے اس پر گناہ نہیں ہے، البتہ اس حدیث میں قضاء پڑھنے کا اشارہ مل رہا ہے کہ جب اسے یاد آئے یا وہ نیند سے اٹھ جائے تواسے نماز پڑھنی پڑےگی ، قضاء کسی صورت میں معاف نہیں ہے۔(۳)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
(۱)صحيح مسلم:( 1/477،رقم الحديث: 684، ط:دار إحياء التراث العربي)
عن أنس بن مالك، قال: قال نبي الله صلى الله عليه وسلم: «من نسي صلاة، أو نام عنها، فكفارتها أن يصليها إذا ذكرها
(۲)سنن ابن ماجة :(3/201،رقم الحديث:2046،ط:دار الرسالة العالمية)
عن ابن عباس، عن النبي - صلى الله عليه وسلم - قال: "إن الله وضع عن أمتي الخطأ والنسيان وما استكرهوا عليه"
(۳)فتح الملهم :(4 /360 ، ط:دار إحياء التراث العربي)
قوله: (من نسي الصلاة) الخ زاد في رواية القعنبي: أو نام عنها قال الشوكاني: تمسك بدليل الخطاب من قال: إن العامد لا يقضي الصلاة، لأن انتفاء الشرط يستلزم انتفاء المشروط، فيلزم منه أن من لم ينس لا يصلي، وإلى ذلك ذهب داود وابن حزم، وقال الحافظ ابن تيمية والمنازعون لهم ليس لهم حجة قط يرد إليها عند التنازع ، وأكثرهم يقولون: لا يجب القضاء إلا بأمر ،جديد وليس معهم هنا أمر ونحن لا ننازع في وجوب القضاء فقط، بل ننازع في قبول القضاء منه وصحة الصلاة في غير وقتها وأطال البحث في ذلك، واختار ما ذكره داود ومن معه، والأمر كما ذكره، فإني لم أقف مع البحث الشديد للموجبين للقضاء على العامد، وهم من عدا من ذكرنا على دليل ينفق في سوق المناظرة، ويصلح للتعويل عليه في مثل هذا الأصل العظيم إلا حديث: «فدين الله أحق أن يقضى باعتبار ما يقتضيه اسم الجنس المضاف من العموم، وأيضاً عمومات الأدلة القاضية بالقضاء على من أفطر في رمضان وغير ذلك، ولا فرق بين الصلاة والصيام في الوجوب، على أن الصلاة لا تسقط بحال، بخلاف الصيام فهي أولى بالقضاء) ولكنهم لم يرفعوا إليه رأساً.
واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی