عنوان: "میں تمہیں آزاد کررہا ہوں" کہنے سے طلاق کا حکم(9702-No)

سوال: السلام علیکم، مفتی صاحب! آٹھ ماہ قبل ہمارا نکاح ہوا تھا، رخصتی نہیں ہوئی تھی، لیکن ہمارے ازداجی تعلقات قائم ہوگئے تھے، ایک روز دوران گفتگو میرے منہ سے یہ الفاظ ادا ہوئے کہ "میں تمہیں آزاد کر رہا ہوں" پھر کچھ دنوں بعد میرے منہ سے یہ الفاظ نکلے کہ "میں تمہیں آزاد کر رہا ہوں، اپنے ساتھ باندھ کر نہیں رکھ رہا" یہ الفاظ بیوی کو طلاق کے لیے رضا مند کرتے ہوئے میرے منہ سے ادا ہوئے، کیا ان الفاظ سے طلاق واقع ہوگئی؟ اگر ہاں! تو رجوع کا کیا طریقہ ہے؟ عدت کتنے عرصے تک کرنی ہوگی؟ براہ کرم ان سوالات کے جوابات عنایت فرمائیں۔

جواب: واضح رہے کہ ہمارے عرف میں اگر شوہر اپنی بیوی کو کہے کہ "میں نے تمہیں آزاد کیا یا کررہا ہوں"، تو یہ الفاظ طلاق صریح کے معنی میں استعمال ہوتے ہیں، جس سے طلاق صریح واقع ہو جاتی ہے۔
لہذا سوال میں ذکر کردہ صورت میں دو طلاق رجعی واقع ہوگئیں ہیں، جس کا حکم یہ ہے کہ شوہر عدت کے اندر بغیر نکاح کے رجوع کرسکتا ہے، رجوع کرنے کا طریقہ یہ ہے کہ زبان سے کہہ دے کہ "میں نے رجوع کرلیا" تو رجوع ہو جائے گا، اور بہتر یہ ہے کہ اس پر دو گواہ بھی بنالے۔ اگر زبان سے کچھ نہ کہے، مگر آپس میں میاں بیوی کا تعلق قائم کرلے یا خواہش اور رغبت سے اس کو ہاتھ لگالے، تب بھی رجوع ہو جائے گا، البتہ اگر عدت گزر گئی، تو پھر باہمی رضامندی سے نیا مہر مقرر کرکے گواہوں کی موجودگی میں دوبارہ نکاح کرنا ہوگا۔
واضح رہے کہ صورت مسئولہ میں رجوع یا نیا نکاح کرنے کے بعد آئندہ شوہر کو صرف ایک طلاق دینے کا اختیار باقی ہوگا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:

رد المحتار: (299/3، ط: دار الفکر)
قوله سرحتك وهو " رهاء كردم " لأنه صار صريحا في العرف على ما صرح به نجم الزاهدي الخوارزمي في شرح القدوري اه وقد صرح البزازي أولا بأن: حلال الله علي حرام أو الفارسية لا يحتاج إلى نية، حيث قال: ولو قال حلال " أيزدبروي " أو حلال الله عليه حرام لا حاجة إلى النية، وهو الصحيح المفتى به للعرف وأنه يقع به البائن لأنه المتعارف ثم فرق بينه وبين سرحتك فإن سرحتك كناية لكنه في عرف الفرس غلب استعماله في الصريح فإذا قال " رهاكردم " أي سرحتك يقع به الرجعي مع أن أصله كناية أيضا، وما ذاك إلا لأنه غلب في عرف الفرس استعماله في الطلاق وقد مر أن الصريح ما لم يستعمل إلا في الطلاق من أي لغة كانت، لكن لما غلب استعمال حلال الله في البائن عند العرب والفرس وقع به البائن ولولا ذلك لوقع به الرجعي.

و فیه أيضاً: (319/3، ط: دار الفکر)
(قوله استحسانا) راجع إلى قوله أو أنا أختار نفسي: أي لو ذكرت بلفظ المضارع سواء ذكرت (أنا) أو لا، ففي القياس لا يقع لأنه وعد. ووجه الاستحسان قول «عائشة - رضي الله عنها - لما خيرها النبي - صلى الله عليه وسلم - بل أختار الله ورسوله» ، واعتبره - صلى الله عليه وسلم - جوابا لأن المضارع حقيقة في الحال مجاز في الاستقبال كما هو أحد المذاهب، وقيل بالقلب، وقيل مشترك بينهما، وعلى الاشتراك يرجع هنا إرادة الحال بقرينة كونه إخبارا عن أمر قائم في الحال وذلك ممكن في الاختيار لأن محله القلب فيصحح الإخبار باللسان عما هو قائم بمحل آخر حال الإخبار كما في الشهادة.

و فیه أيضاً: (306/3، ط: دار الفکر)
(قوله الصريح يلحق الصريح) كما لو قال لها: أنت طالق ثم قال أنت طالق أو طلقها على مال وقع الثاني بحر، فلا فرق في الصريح الثاني بين كون الواقع به رجعيا أو بائنا.

کذا فی فتاویٰ دار العلوم کراتشي: رقم الفتوي: 84/1678

واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی

Print Full Screen Views: 574 Jul 21, 2022
"me tumhe azad kar raha ho" kehne se / say talaq ka hokom / hokum

Find here answers of your daily concerns or questions about daily life according to Islam and Sharia. This category covers your asking about the category of Divorce

Managed by: Hamariweb.com / Islamuna.com

Copyright © Al-Ikhalsonline 2024.