سوال:
السلام علیکم، مفتی صاحب! میری شادی کو تین سال ہونے کو ہیں، میرا ایک اٹھارہ مہینے کا بیٹا ہے، اور ابھی میری بیوی حاملہ بھی ہے، جب میری منگنی ہوئی تھی، تو اسی دن ایجاب وقبول بھی ہوا تھا، جس کی وجہ سے میں اس سے موبائل پر بات کرتا تھا، جب میں رات کو فون کرتا، تو اس کا فون کسی دوسری لائن پر مصروف ہوتا تھا، میرے پوچھنے پر کہتی کہ اپنی سہیلی سے بات کر رہی ہوں، پانچ یا چھ دفعہ میں اس بات پر اس سے ناراض ہوا، خیر میری اور اس کی شادی ہوگئی، شادی کے ایک مہینے بعد ایک نمبر سے میسیج آیا، میں نے پوچھا یہ کون ہے؟ تو بیوی نے کہا سہیلی ہے، خیر میں نے نظر انداز کردیا، کچھ مہینے بعد اس نمبر سے دوبارہ واٹس ایپ پر میسج آیا، اس دفعہ تو لڑکے کی تصویر بھی تھی، میں نے پھر پوچھا کہ کون ہے یہ لڑکا؟ تو بیوی بولی سہیلی کا بھائی ہے، میں نے پھر کچھ بھی نہیں کہا، یہ سلسلہ تین سال تک چلتا رہا، میں نے ان تین سالوں میں بیوی پر نا ظلم کیا نا ایک دفعہ ہاتھ اٹھایا، مگر اشارہ دیتا رہا کہ میں بے وقوف نہیں ہوں، سب سمجھتا ہوں دس دن پہلے مجھے سب علم ہوا، اور پھر میری بیوی نے بھی مجھے سب کچھ بتا دیا، میں نے بتایا کہ تمہارے سارے میسج میرے پاس موجود ہیں، اب وہ بول رہی کہ آئندہ ایسا نہیں کروں گی، قرآن کریم پر ہاتھ رکھ کر قسم لے رہی ہے، جب یہ بات میری بیوی کے والد اور بھائی کو پتا چلی، تو انہوں نے کہا کہ مار ڈالو، اگر گھر آئی، تو ہم مار ڈالیں گے۔ مفتی صاحب ! ایسی صورتحال میں میرے لیے شریعت کا کیا حکم ہے؟
جواب: سوال میں ذکرکردہ صورت میں اگر عورت کے واقعی کسی غیر مرد سے نا جائز تعلقات تھے، تو وہ اپنے اس قبیح (برے) فعل کی وجہ سے حرام اور گناہ کبیرہ کی مرتکب ہوئی ہے، اس لیے اس پر لازم ہے کہ خلوصِ دل سے توبہ کرکے اپنی اس حرکت پر نادم ہو، اگر وہ سچے دل سے توبہ استغفار کرلیتی ہے، تو امید ہے کہ اس کا گناہ معاف ہوجائے گا، اور اگر شوہر کو اس پر اطمینان ہوجائے کہ آئندہ ان گناہوں سے دور رہے گی، اور وہ اسے اپنے نکاح میں رکھنا چاہتا ہو، تو رکھ سکتا ہے، شرعاً اس میں کوئی ممانعت نہیں ہے۔
البتہ اگر وہ اپنے قبیح (برے) فعل سے باز نہ آئے اور اس کے ساتھ رہنے میں شوہر شرعی حدود پر قائم نہ رہ سکتا ہو، تو پاکی کی حالت میں اسے ایک طلاق دے کر اپنے نکاح سے خارج کرسکتا ہے، (اس کے بعد اگر وہ عورت نادم ہو جائے، تو عدت کے دوران اس سے رجوع بھی کیا جا سکتا ہے) اس صورت میں شوہر شرعاً گناہ گار نہیں ہوگا، لیکن اس حرکت کی وجہ سے عورت کو قتل کرنا کسی بھی صورت میں جائز نہیں ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
صحیح مسلم: (رقم الحدیث: 2657، ط: دار احیاء التراث العربي)
عن ابن عباس، قال: ما رأيت شيئا أشبه باللمم مما قال أبو هريرة: أن النبي صلى الله عليه وسلم قال: إن الله كتب على ابن آدم حظه من الزنا، أدرك ذلك لا محالة، فزنا العينين النظر، وزنا اللسان النطق، والنفس تمنى وتشتهي، والفرج يصدق ذلك أو يكذبه.
سنن النسائي: (رقم الحديث: 3490، ط: دار التأصيل)
عن ابن عباس، قال: جاء رجل إلى النبي صلى الله عليه وسلم، فقال: إن امرأتي لا تمنع يد لامس، فقال: غربها إن شئت، قال: إني أخاف أن تتبعها نفسي، قال: استمتع بها.
البحر الرائق: (115/3، ط: دار الكتاب الإسلامي)
لا يجب على الزوج تطليق الفاجرة ولا عليها تسريح الفاجر إلا إذا خافا أن لا يقيما حدود الله فلا بأس أن يتفرقا. اه.
رد المحتار: (427/6، ط: دار الفکر)
(قوله لا يجب على الزوج تطليق الفاجرة) ولا عليها تسريح الفاجر إلا إذا خافا أن لا يقيما حدود الله فلا بأس أن يتفرقا اه مجتبى والفجور يعم الزنا وغيره وقد «قال - صلى الله عليه وسلم - لمن زوجته لا ترد يد لامس وقد قال إني أحبها: استمتع بها» اه۔
بدائع الصنائع: (57/7، ط: دار الکتب العلمیة)
وأما شرائط جواز إقامتها فمنها ما يعم الحدود كلها، ومنها ما يخص البعض دون البعض، أما الذي يعم الحدود كلها فهو الإمامة: وهو أن يكون المقيم للحد هو الإمام أو من ولاه الإمام وهذا عندنا.
واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی