سوال:
السلام علیکم، مفتی صاحب! سوشل میڈیا پر آج کل یہ بات بہت پھیلائی جارہی ہے، مجھے معلوم کرنا تھا کہ کیا واقعی اس طرح کا کوئی واقعہ ہوا ہے؟ کیا یہ واقعہ کسی صحیح سند سے ثابت ہے یا نہیں؟ براہ کرم رہنمائی فرمادیں۔ وہ بات درج ذیل ہے:
حضرت علی المرتضی کرم اللہ وجهه نے ایک بار رسول اللہ سے دریافت کیا کہ آپ کا طریقہ زندگی اور آپ کی سنتِ حسنہ کیا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تفصیل سے جواب دیتے ہوئے فرمایا: ”معرفت میرا سرمایہ زندگی ہے، عقل میرے دین کی اصل ہے، محبت میری زندگی کی بنیاد ہے، شوق میرا راہ دار ہے، ذکرِ الہی میرا مونس ہے، اعتماد میرا خزانہ ہے، غم میرا رفیق ہے، علم میرا ہتھیار ہے، صبر میری پوشاک ہے، رضا میرا مال غنیمت ہے، تواضع وانکساری میرا فخر ہے، زہد میرا پیشہ ہے، یقین میری توانائی ہے، صدق میرا حامی اور سفارشی ہے، طاعتِ الہی میرے لیے کافی ہے، جہاد میرا خلق ہے اور میری آنکھ کی ٹھنڈک نماز میں ہے۔“ (کتاب الشفاء للقاضی عیاض)
جواب:
سوال میں ذکر کردہ روایت کو محدثین کرام ؒ نے موضوع (من گھڑت) قرار دیا ہے، لہذا جناب رسول اللہ ﷺکی طرف اس کی نسبت کر کے بیان کرنےسے اجتناب کرنا چاہیے، اس روایت کا ترجمہ ،تخریج اور اسنادی حیثیت مندرجہ ذیل ہے:
ترجمہ:حضرت علی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں نے جناب رسول اللہ ﷺ سے آپ کے طریقۂ زندگی کے بارے میں پوچھا: تو آپ ﷺنے فرمایا: اللہ کی معرفت میری زندگی کا سرمایہ ہے، عقل میرے دین کی اصل ہے، محبت میری زندگی کی بنیاد ہے، شوق میری سواری ہے، اللہ کا ذکر میرا مونس ہے (انس اور محبت پیدا کرنے والا ہے)، اعتماد میرا خزانہ ہے، غم میرا دوست ہے، علم میرا ہتھیار ہے، صبر میری چادر ہے، رضا میرا مالِ غنیمت ہے، تواضع و انکساری میرا فخر ہے، زہد میرا پیشہ ہے، یقین میری قوت ہے، سچائی میری سفارشی ہے، اللہ کی اطاعت میرے لیے کافی ہے، جہاد میرا خُلق ہے اور میری آنکھ کی ٹھنڈک نماز میں ہے۔
تخریج:
سوال میں ذکر کردہ روایت کو قاضی عیاض ؒ(م544ھ) نے اپنی کتاب ’’ الشفا بتعريف حقوق المصطفى ‘‘میں حضرت علی رضی اللہ عنہ کی طرف نسبت کرتے ہوئے بغیر سند کے ذکر کیا ہے ۔
مذکورہ روایت کی اسنادی حیثیت:
اس روایت کے بارے میں علامہ عراقی ؒ(م806ھ) نے فرمایا: ’’اس روایت کو قاضی عیاضؒ(م544ھ) نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کی حدیث کے طورپر ذکر فرمایا اور میں اس کی کوئی سند نہیں پاتا‘‘۔
علامہ زبیدیؒ (م1205 ھ )فرماتے ہیں کہ ’’حافظ ابن حجر کے فتاوی میں ہے کہ ان سے اس روایت کے بارے میں پوچھا گیا، انہوں نے فرمایا:اس کی کوئی اصل نہیں‘‘ اور علامہ ابن السبکیؒ فرماتے ہیں کہ میں اس کی کوئی سند نہیں پاتا۔
علامہ خفاجیؒ (م1069 ھ )فرماتے ہیں:’’یہ روایت احیاء علوم الدین میں ذکر کی گئی ہے، حافظ عراقی نے کہا کہ اس کی کوئی اصل نہیں اور علامہ سیوطی ؒ نے کہا کہ یہ موضوع ہے اوراس پر وضع کی علامات واضح ہیں اور یہ صوفیا کے کلام کے مشابہ ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
الشفا بتعريف حقوق المصطفى: (1/147،ط:دارالفکر)
وعن علي رضي الله عنه، قال: سألت رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم عن سنته،فقال: المعرفة رأس مالي، والعقل أكل ديني، والحب أساسي، والشوق مركبي، وذكر الله أنيسي، والثقة كنزي، والحزن رفيقي، والعلم سلاحي، والصبر ردائي، والرضا غنيمتي، والفقر فخري، والزهدحرفتي، واليقين قوتي، والصدق شفيعي، والطاعة حسبي، والجهادخلقي، وقرة عيني في الصلاة.
المغني عن حمل الأسفار في الأسفار: (ص: 1729، ط: دار ابن حزم، بیروت)
ذكره القاضي عياض من حديث علي بن أبي طالب ولم أجد له إسنادا.
تخريج أحاديث إحياء علوم الدين: (1/21، ط: دار العاصمة)
قلت: وسئل عنه الحافظ ابن حجر في فتاويه فقال لا أصل له.قال ابن السبكي: (6/378) لم أجد له إسناداً.
مناهل الصفا في تخريج أحاديث الشفا: (85)( 322)،ط: مؤسسة الكتب الثقافية)
نسيم الرياض في شرح شفاء القاضي عياض للخفاجي: (2/144، ط: المطبعة الأزهرية المصرية)
والحديث ذكره في الإحياء وقال الحافظ العراقي أنه لاأصل له، وقال السيوطي رحمه الله إنه موضوع وآثار الوضع لائحة عليه وهو يشبه كلام الصوفية
واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی