سوال:
میں نے شراب کے نشے کی حالت میں اپنی بیوی کو طلاق دی، حالت یہ تھی میری کہ مجھے یاد نہیں، اب 2 گواہ تھے، ایک مرد ایک عورت مرد جو تھا مجھ سے زیادہ نشے میں تھا، اس کا کہنا ہے کہ میں نے 3 دی جو عورت موجود تھی اس کا کہنا ہے کہ کے 2 دی میری بیوی کا کہنا ہے کہ ایک دی اور مجھے بلکل یاد نہیں میں نے دی بھی یا نہیں؟ معلوم یہ کرنا ہے کہ ایسی صورت میں کتنی طلاقیں واقع ہوگئی ہیں؟ جواب کا منتظر رہوں گا شکریہ
جواب: واضح رہے کہ شراب پینا حرام اور گناہِ کبیرہ ہے، اور گناہ کر کے انسان معذور قرار نہیں پاتا، اس لیے نشہ کی حالت میں دی ہوئی طلاق واقع ہو جاتی ہے، لہذا سوال میں ذکرکردہ صورت میں جب آپ کو یاد نہیں ہے کہ کتنی طلاق دی تھیں اور اس موقع پر موجود گواہوں میں بھی اختلاف پایا جاتا ہے، تو اس صورت میں چونکہ ایک طلاق یقینی ہے، لہذا ایک طلاق رجعی واقع ہوگی۔
جس کا حکم یہ ہے کہ شوہر عدت کے اندر بغیر نکاح کے رجوع کرسکتا ہے اور رجوع کرنے کا طریقہ یہ ہے کہ زبان سے کہہ دے کہ "میں نے رجوع کرلیا ہے" تو رجوع ہوجائے گا، اور بہتر یہ ہے کہ اس پر دو گواہ بھی بنالے۔ اگر زبان سے کچھ نہ کہے، مگر آپس میں میاں بیوی کا تعلق قائم کرلے یا خواہش اور رغبت سے اس کو ہاتھ لگالے، تب بھی رجوع ہو جائے گا، البتہ اگر عدت گزر گئی، تو پھر باہمی رضامندی سے نیا مہر مقرر کرکے گواہوں کی موجودگی میں دوبارہ نکاح کرنا ہوگا۔
واضح رہے کہ صورت مسئولہ میں رجوع یا نیا نکاح کرنے کے بعد آئندہ شوہر کو صرف دو طلاق دینے کا اختیار باقی ہوگا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
بدائع الصنائع: (99/3، ط: دار الکتب العلمیة)
وأما السكران إذا طلق امرأته فإن كان سكره بسبب محظور بأن شرب الخمر أو النبيذ طوعا حتى سكر وزال عقله فطلاقه واقع عند عامة العلماء وعامة الصحابة - رضي الله عنهم - وعن عثمان - رضي الله عنه - أنه لا يقع طلاقه وبه أخذ الطحاوي والكرخي وهو أحد قولي الشافعي وجه قولهم: إن عقله زائل والعقل من شرائط أهلية التصرف لما ذكرنا ولهذا لا يقع طلاق المجنون والصبي الذي لا يعقل والذي زال عقله بالبنج والدواء كذا هذا والدليل عليه أنه لا تصح ردته فلأن لا يصح طلاقه أولى.
(ولنا) عموم قوله عز وجل: {الطلاق مرتان} [البقرة: 229] إلى قوله - سبحانه وتعالى - {فإن طلقها فلا تحل له من بعد حتى تنكح زوجا غيره} [البقرة: 230] من غير فصل بين السكران وغيره إلا من خص بدليل.وقوله - عليه الصلاة والسلام - «كل طلاق جائز إلا طلاق الصبي والمعتوه» ولأن عقله زال بسبب؛ هو معصية فينزل قائما عقوبة عليه وزجرا له عن ارتكاب المعصية ولهذا لو قذف إنسانا أو قتل يجب عليه الحد والقصاص وأنهما لا يجبان على غير العاقل دل أن عقله جعل قائما وقد يعطى للزائل حقيقة حكم القائم تقديرا إذا زال بسبب هو معصية للزجر والردع كمن قتل مورثه أنه يحرم الميراث ويجعل المورث حيا زجرا للقاتل وعقوبة عليه۔
الاشباہ و النظائر لابن نجيم: (196/1، ط: ادارة القرآن)
شك هل طلق أم لا لم يقع.شك أنه؛ طلق واحدة، أو أكثر، بنى على الأقل كما ذكره الإسبيجابي إلا أن يستيقن بالأكثر، أو يكون أكبر ظنه على خلافه
واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی