سوال:
ایک شخص یہ کہہ رہا ہے کہ آپ اگر امریکا یا کینیڈا کی یونیورسٹی میں جا کر پڑھنا چاہتے ہیں، اور آپ کے پاس پیسے نہیں ہیں، تو ہمارے پاس آپ کو پڑھانے کی ایک ترتیب ہے کہ ان دو ممالک کی صرف ان چار سو یونیورسٹیز میں سے آپ جس میں داخلہ لینا چاہیں لے لیں، اور جو ان کا ٹیسٹ ہو، وہ دیں، جیسے ہی آپ کو یونیورسٹی کی طرف سے آفر لیٹر آجائیگا، تو جتنی بھی رقم یونیورسٹی کو مکمل تعلیم کی دینی ہوگی، ہم خود اس یونیورسٹی کو دیں گے، اور پھر آپ دس سال کے عرصے میں قسطوں کی صورت میں یہ رقم مع اتنے اضافے کے ہمیں دینے کے پابند ہوں گے کیا یہ طریقہ جائز ہے؟
جواب: پوچھی گئی صورت میں مذکورہ شخص جو رقم آپ کی طرف سے یونیورسٹی کو ادا کرے گا، وہ قرض شمار ہوگی، جس میں زیادتی کی شرط لگانا سودی شرط ہونے کی وجہ سے ناجائز اور حرام ہے، اس لئے مذکورہ معاملہ جائز نہیں ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
القرآن الکریم: (البقرة، الایة: 278- 279)
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا اللَّهَ وَذَرُوا مَا بَقِيَ مِنَ الرِّبَا إِنْ كُنْتُمْ مُؤْمِنِينَo فَإِنْ لَمْ تَفْعَلُوا فَأْذَنُوا بِحَرْبٍ مِنَ اللَّهِ وَرَسُولِهِ ۖ وَإِنْ تُبْتُمْ فَلَكُمْ رُءُوسُ أَمْوَالِكُمْ لَا تَظْلِمُونَ وَلَا تُظْلَمُونَo
الاشباہ و النظائر: (226/1، ط: دار الکتب العلمیة)
کل قرض جر نفعا حرام.
واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی