سوال:
السلام علیکم، مفتی صاحب! طلاق کے بعد مرد پرعدت کا نان و نفقہ کیا لازم ہوگا؟ اور اگر وہ یہ ذمہ داری پوری نہ کرے، تو ایسے شخص کے بارے میں کیا حکم ہے؟ براہ کرم رہنمائی فرمائیں۔
جواب: عدت کے دوران بیوی کا نان و نفقہ شوہر کے ذمہ لازم ہے۔
عدت کے نان ونفقہ سے عدت کے دوران عورت کا کھانے پینے اور كپڑوں کی ضروریات وغيره کا خرچہ مراد ہے، البتہ شرعاً اس کی کوئی خاص مقدار متعین نہیں، بلکہ مرد کی آمدنی اور مالی وسعت، نیز عورت کی ضرورت کو سامنے رکھتے ہوئے عرف کے مطابق نان و نفقہ دیا جائے گا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
القرآن الكريم: (الطلاق، الایة: 6- 7)
أَسْكِنُوهُنَّ مِنْ حَيْثُ سَكَنْتُمْ مِنْ وُجْدِكُمْ وَلَا تُضَارُّوهُنَّ لِتُضَيِّقُوا عَلَيْهِنَّ وَإِنْ كُنَّ أُولَاتِ حَمْلٍ فَأَنْفِقُوا عَلَيْهِنَّ حَتَّى يَضَعْنَ حَمْلَهُنَّ فَإِنْ أَرْضَعْنَ لَكُمْ فَآتُوهُنَّ أُجُورَهُنَّ وَأْتَمِرُوا بَيْنَكُمْ بِمَعْرُوفٍ وَإِنْ تَعَاسَرْتُمْ فَسَتُرْضِعُ لَهُ أُخْرَى o لِيُنْفِقْ ذُو سَعَةٍ مِنْ سَعَتِهِ وَمَنْ قُدِرَ عَلَيْهِ رِزْقُهُ فَلْيُنْفِقْ مِمَّا آتَاهُ اللَّهُ لَا يُكَلِّفُ اللَّهُ نَفْسًا إِلَّا مَا آتَاهَا سَيَجْعَلُ اللَّهُ بَعْدَ عُسْرٍ يُسْرًا o
الهندية: (558/1، ط: دار الفکر)
والمعتدة إذا كانت لا تلزم بيت العدة بل تسكن زمانا وتبرز زمانا لا تستحق النفقة كذا في الظهيرية. ولو طلقها، وهي ناشزة فلها أن تعود إلى بيت زوجها، وتأخذ النفقة.
و فيها أيضاً: (558/1، ط: دار الفکر)
ويعتبر في هذه النفقة ما يكفيها، وهو الوسط من الكفاية، وهي غير مقدرة؛ لأن هذه النفقة نظير نفقة النكاح فيعتبر فيها ما يعتبر في نفقة النكاح.
واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی