سوال:
السلام علیکم، مفتی صاحب! کیا سود کی رقم مدرسہ کی کسی چیز میں خرچ کرسکتے ہیں یا نہیں؟
جواب: یاد رہے کہ سود سے حاصل شدہ رقم مالِ خبیث ہے، جس کا حکم یہ ہے کہ ثواب کی نیت کے بغیر کسی مستحقِ زکوٰۃ کو دے دی جائے۔
مدارس چونکہ اعلاء کلمۃ اللہ اور قرآن و حدیث کی حفاظت کے عظیم مقاصد کے حصول میں مصروفِ عمل ہیں، اس لئے ایک مسلمان کے لئے مناسب نہیں ہے کہ وہ ان عظیم مقاصد کے لیے اور اللہ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے مہمانوں کے لیے مال خبیث کا انتخاب کرے، اور مدرسہ کے زکوۃ فنڈ میں ایسا مال دے، جس مال پر اللہ نے اپنی ناراضگی اور جنگ کا اعلان کیا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
صحیح مسلم: (رقم الحدیث: 1015، ط: دار إحياء التراث العربي)
و حَدَّثَنِي أَبُو كُرَيْبٍ مُحَمَّدُ بْنُ الْعَلَاءِ حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَةَ حَدَّثَنَا فُضَيْلُ بْنُ مَرْزُوقٍ حَدَّثَنِي عَدِيُّ بْنُ ثَابِتٍ عَنْ أَبِي حَازِمٍ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَيُّهَا النَّاسُ إِنَّ اللَّهَ طَيِّبٌ لَا يَقْبَلُ إِلَّا طَيِّبًا وَإِنَّ اللَّهَ أَمَرَ الْمُؤْمِنِينَ بِمَا أَمَرَ بِهِ الْمُرْسَلِينَ فَقَالَ يَا أَيُّهَا الرُّسُلُ كُلُوا مِنْ الطَّيِّبَاتِ وَاعْمَلُوا صَالِحًا إِنِّي بِمَا تَعْمَلُونَ عَلِيمٌ وَقَالَ يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا كُلُوا مِنْ طَيِّبَاتِ مَا رَزَقْنَاكُمْ ثُمَّ ذَكَرَ الرَّجُلَ يُطِيلُ السَّفَرَ أَشْعَثَ أَغْبَرَ يَمُدُّ يَدَيْهِ إِلَى السَّمَاءِ يَا رَبِّ يَا رَبِّ وَمَطْعَمُهُ حَرَامٌ وَمَشْرَبُهُ حَرَامٌ وَمَلْبَسُهُ حَرَامٌ وَغُذِيَ بِالْحَرَامِ فَأَنَّى يُسْتَجَابُ لِذَلِكَ۔
الدر المختار: (291/2، ط: سعید)
لو کان الخبیث نصاباً لا یلزمه الزکوٰۃ لأن الکل واجب التصدق علیه فلا یفید ایجاب التصدق ببعضه۔
واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی