resize-left-dar mid-dar right-dar

عنوان: مکان کی تعمیر کے حوالہ سے شرعی حدود وگنجائش (9744-No)

سوال: السلام علیکم، مفتی صاحب! گزشتہ تقریباً تیس سال سے ملک سے باہر ہوں، اس سے پہلے الحمد للہ اہل حق علماء اور اللہ والوں کی مجالس میں حاضری بھی رہی، یہ باتیں کانوں میں پڑی تھیں کہ گھر والوں پر خرچ کرنے پر ثواب ہے، مگر گھر پر خرچ کرنے پر ثواب نہیں ہے، اسی طرح یہ بات بھی سننے میں آئی تھی کہ گھر پر اچھے معیار کے رنگ کی بجائے چونے کے رنگ کو ترجیح دی جائے، سوال آپ سے یہ ہے کہ مذکورہ بالا باتیں کس حد تک قابل قبول ہیں، شریعت ہمیں اس بارے میں کیا رہنمائی کرتی ہے؟
دوسرا سوال یہ ہے کہ یہاں کینیڈا میں گھر کی زیب و زینت کہ معاملے میں بہت زیادہ غلو ہے، دیندار سے لیکر بے دین اکثریت اسی فکر میں ہے، ضروری مرمت اور بظاہر اچھا نظر آنے والے گھر میں بھی بلا ضرورت شدیدہ فرش، فلور، کچن اور باتھ روم وغیرہ کو یکسر نیا کر دیا جاتا ہے، پھر تقابل کی صورت اختیار ہوجاتی ہے، خاص طور سے خواتین میں، اور کچھ جگہوں پر مرد کی شامت آجاتی ہے، اگرچہ اس بیچارے کی جیب، صحت، وقت اور عمر اجازت نہ دیتی ہوں، جس کے باعث گھر کے حالات کشیدہ ہو جاتے ہیں۔

جواب:
گھر کی تعمیر کے سلسلہ میں انسان کو اپنی مالی حیثیت کے مطابق خرچ کرنا چاہیے، چنانچہ شریعت نے اپنی ضرورت و حصول ِراحت کے بقدر مکان کی تعمیر کرنے کی نہ صرف اجازت دی ہے، بلکہ ضرورت کے بقدر تعمیر پر اجر وثواب کا بھی وعدہ فرمایا ہے، تاہم اس میں یہ بات بھی ضروری ہے کہ اس تعمیر وآرائش سے مقصود نام ونمود اور فخر ومباہات ہرگز نہ ہو۔
اس حوالہ سے صحیح بخاری میں حضرت خباب بن ارت رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے ارشاد فرمایا:" مسلمان کو ہر طرح کے نان و نفقہ کے خرچ پر ثواب دیا جاتا ہے، البتہ گارے وغیرہ (تعمیرِ مکان) میں پیسہ لگانے پر اجر نہیں"۔
اس حدیث کی تشریح میں علامہ مناوی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ "جس تعمیر ِ مکان میں اللہ رب العزت کی رضامندی مقصود نہ ہو، یا جو انسان کی ذاتی اور اہل عیال کی مناسب ضروریات سے زائد ہو، سو ایسی تعمیر پر لگنے والی رقم پر اجر وثواب کا وعدہ نہیں، بلکہ بسااوقات (نام ونمود کی صورت میں) وہ انسان کے لیے وبالِ جاں بن جاتا ہے"۔
حضرت مفتی محمد شفیع عثمانی صاحب نور اللہ مرقدہ نے تفسیر "معارف القرآن" میں آیت کریمہ {اَتَبْنُوْنَ بِكُلِّ رِيْعٍ اٰيَةً تَعْبَثُوْنَ وَتَتَّخِذُوْنَ مَصَانِعَ لَعَلَّكُمْ تَخْلُدُوْنَ} (سورۃ الشعراء آیت نمبر 128)کی تفسیر میں تحریر فرماتے ہیں:
"اس آیت سے ثابت ہوا کہ بغیر ضرورت کے مکان بنانا اور تعمیرات کرنا شرعاً برا ہے، اور یہی معنی ہیں اس حدیث کے جو امام ترمذی نے حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت کی ہے کہ "النفقة کلّها في سبیل الله إلّا البناء فلا خیر فیه"، یعنی وہ عمارت جو ضرورت سے زائد بنائی گئی ہو، اس میں کوئی بہتری اور بھلائی نہیں ۔ اس معنی کی تصدیق حضرت انس رضی اللہ عنہ کی دوسری روایت سے بھی ہوتی ہے کہ "إنّ کلّ بناء وبال علی صاحبه إلّا ما لا، إلّا ما لا یعني: إلّا ما لا بدّ منه."(ابو داؤد) یعنی ہر تعمیر صاحبِ تعمیر کے لیے مصیبت ہے، مگر وہ عمارت جو ضروری ہو وہ وبال نہیں ہے۔روح المعانی میں (علامہ آلوسی رحمہ اللہ )فرماتے ہیں کہ" بغیر غرضِ صحیح کے بلند عمارت بنانا شریعتِ محمدیہ میں بھی مذموم اور برا ہے"۔(معارف القرآن: 6/ 536)
حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی رحمہ اللہ نے مکان کے حوالے سے جو رہنما ہدایات ارشاد فرمائی ہیں، وہ درج ذیل ہیں:
"انسانی ضرورت کی تکمیل کے لیے مکان کیسا ہونا چاہیئے؟اس حوالہ سے جاننا ضروری ہے کہ رہائش کی تعمیر کے سلسلہ میں یہ بات ضروری ہے کہ وہ آدمی کو سردی وگرمی کی شدت ،چور وڈاکؤوں کے حملوں سے اپنے اور اہل وعیال کے ساز وسامان کی حفاظت کا باعث ہو، یہی "ارتفاقِ منزل" کا صحیح مقصود ہے۔ رہائش گاہ کی تعمیر میں حد سے زیادہ بے اعتدالی، تزیین وآرائش میں مالی اسراف سے احتراز کرنا چاہیے ۔
اس بات کا بھی خیال رکھا جائے کہ رہائشی مکان حد درجہ تنگ نہ ہو ، بلکہ اس میں رہائش پذیر افراد مناسب طور پر آرام و راحت کے ساتھ زندگی بسر کر سکیں۔ چنانچہ( لکھا گیا ہے) کہ بہترین رہائشی جگہ وہ ہے جس کا حصول آسانی سے ہو(یعنی قرضہ وغیرہ لینے کی حاجت پیش نہ آئے)، ہوا دار ہو، اور چھت کی بلندی متوسط درجہ کی ہو۔چونکہ مکان ودیگر گھریلوں ساز وسامان کے حوالہ سے اصول وضابطہ یہ ہے کہ ان سب سے مقصود پیش آمدہ ضروریات کو اس طور سے پورا کیا جانا ہے جو طبعِ سلیم اور رسمِ صالح کے تقاضوں کے مطابق ہو۔ لیکن بدقسمتی سے بعض لوگ شاندار عمارتیں بنوانے میں نفس کے تقاضوں پر عمل پیرا ہوتے ہوئے ان کی تعمیر میں فطرت سے دور نفس کی تسکین کو مقصود بالذات چیز سمجھتے ہیں۔مگر افسو س ، ایسے لوگ نہ تو دنیا کی باگ دوڑ سے نجات پاسکتے ہیں، اور نہ انہیں فتنۂ قبر اور فتنۂ محشر سے نجات مل سکے گی۔(البدور البازغۃ مترجم ص: 123، بحوالہ "الشریعہ" جلد 2، شمارہ نمبر: 6، سن اشاعت: 1990)

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:

صحیح البخاري، لمحمد بن إسماعیل البخاري الجعفي، کتاب المرضی، باب تمني المریض الموت، 121/7، رقم الحدیث:5672، المحقق:محمد هير بن ناصر الناصر،ط: دار طوق النجاة:
عن قیس بن أبي حازم، قال: دخلنا على خباب، نعوده، وقد اكتوى سبع كيات، فقال: «إن أصحابنا الذين سلفوا مضوا ولم تنقصهم الدنيا، وإنا أصبنا ما لا نجد له موضعا إلا التراب، ولولا أن النبي ﷺ نهانا أن ندعو بالموت لدعوت به» ثم أتيناه مرة أخرى، وهو يبني حائطا له، فقال: «إن المسلم ليؤجر في كل شيء ينفقه، إلا في شيء يجعله في هذا التراب»

سنن الترمذي ،أبواب صفة القیامة، 651/4، رقم الحدیث:2482، محقق المجلد الرابع والخامس: وإبراهيم عطوة عوض المدرس في الأزهر الشريف، الناشر: شركة مكتبة ومطبعة مصطفى البابي الحلبي – مصر:
عن أنس بن مالك-رضي الله عنه-، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم «النفقة كلها في سبيل الله إلا البناء فلا خير فيه»، «هذا حديث غريب»

سنن أبي داود، لسلیمان بن أشعث السجستاني، کتاب الادب، باب ما جاء في البناء، 360/4، رقم الحديث: (5237)، المحقق: محمد محيي الدين عبد الحميد، الناشر: المكتبة العصرية، صيدا – بيروت:
عن أنس بن مالك-رضي الله عنه-، أن رسول الله صلى الله عليه وسلم، خرج فرأى قبة مشرفة فقال: «ما هذه؟» قال له أصحابه: هذه لفلان رجل من الأنصار، قال: فسكت وحملها في نفسه، حتى إذا جاء صاحبها رسول الله ﷺ يسلم عليه في الناس أعرض عنه، صنع ذلك مرارا، حتى عرف الرجل الغضب فيه والإعراض عنه، فشكا ذلك إلى أصحابه، فقال: والله إني لأنكر رسول الله ﷺ ، قالوا: خرج فرأى قبتك، قال: فرجع الرجل إلى قبته فهدمها حتى سوّاها بالأرض، فخرج رسول الله ﷺ ذات يوم فلم يرها، قال: «ما فعلت القبة؟» قالوا: شكا إلينا صاحبها إعراضك عنه، فأخبرناه فهدمها، فقال: «أما إن كل بناء وبال على صاحبه إلا ما لا، إلا ما لا» يعني ما لا بد منه"۔

أعلام الحدیث، لأبي سلیمان الخطابي، کتاب الجنائز، باب قول الله تعالی{لايسألون الناس إلحافا}، 809/2، المحقق: د. محمد بن سعد بن عبد الرحمن آل سعود، الناشر: جامعة أم القرى:
وأما قوله: {وإضاعة المال}، فهي على وجوه: جماعها الإسراف في النفقة، ووضعه في غير موضعه، وصرفه عن وجه الحاجة إلى غيره، كالإسراف في النفقة على البناء، ومجاوزة حد الاقتصاد فيه، وكذلك اللباس والفرش، وتمويه الأبنية بالذهب، وتطريز الثياب، وتذهيب سقوف البيت، فإن ذلك على ما فيه من التزين والتصنع إذا استعمل مرة لم يمكن بعد ذلك تخليصه وإعادته إلى أصله حتى يكون مالا قائما.

فتح الباری، لابن حجر العسقلاني، باب ماجاء في البناء، 93/11، دار المعرفة:
"قال الداودي: ليس الغرس كالبناء؛ لأن من غرس ونيته طلب الكفاف، أو لفضل ما ينال منه ففي ذلك الفضل، لا الإثم۔ قلت: لم يتقدم للإثم في الخبر ذكر، حتى يعترض به۔ وكلامه يوهم: أن في البناء كله الإثم، وليس كذلك، بل فيه التفصيل۔ وليس كل ما زاد منه على الحاجة يستلزم الإثم۔ ولا شك أن في الغرس من الأجر من أجل ما يؤكل منه ما ليس في البناء وإن كان في بعض البناء ما يحصل به الأجر، مثل الذي يحصل به النفع لغير الباني؛ فإنه يحصل للباني به الثواب۔ والله سبحانه وتعالى أعلم"۔

فیض القدیر، لزین الدین محمد المدعو ب"عبدالرؤوف" المناوي، حرف الهمزة، 370/2، المکتبة التجاریة الکبری:
قوله ﷺ: ("النفقة كلها في سبيل الله"): فيؤجر المنفق عليها (إلا) النفقة في (البناء فلا خير فيه) أي في الإنفاق فيه فلا أجر فيه ،وهذا في بناء لم يقصد به قربة كمسجد ورباط، أو فيما زاد على الحاجة اللائقة بالباني وعياله۔
وقوله ﷺ : ("إن العبد ليؤجر في نفقته كلها")، أي: فيما ينفقه على نفسه وعلى من عليه مؤونته (إلا في البناء)، الذي لا يحتاجه أو المزخرف۔ أما بيت يقيه من نحو حر وبرد ولص أو جهة قريبة، كمسجد ومدرسة ورباط وحوض ومصلى عيد ونحوها فمطلوب محبوب، وفاعله على الوجه المطلوب شرعا محتسبا مأجورا؛ لأن المسكن كالغذاء في الاحتياج إليه وفضل بناء المساجد ونحوها معروف، وعلى الزائد على الحاجة ينزل خبر القبة السابق"۔

البدور البازغة للإمام الشاه ولي الله الدهلوي، (المقالة الاولى/ فصل مباحث الحكم المتعلقة بالارتفاق الثاني، المسكن، ص :57، ط:مدينة برقى پریس بجنور ، یوپى)
"وأما المسكن فيجب أن يكون دافعا للحر والبرد، وطروق اللصوص ، حافظا لأهل المنزل وأقمشتهم، حتى يأتي الارتفاق المقصود به، وينبغي أن لا يتكلف في البناء بالتشديد البالغ والنقوش غاية التكلف، ولا يجعل في غاية الخرارة والضيق۔ وأحسن المسكن : ماسهل مأخذه ، واتسع فضائه، وتوسط ارتفاعه۔ والمسكن وسائر الحوائج إنما يراد بها: دفع الحاجات الطارئة على وضع يستريح إليه الطبع السليم، ويصدقه الرسم الصالح۔ ومن الناس من تهوك فيها ، وغاصت نفسه في لذتها، وجعلها مقصودا لنفسها، فعسى ذلك أن لا ينجو عن كد الدنيا ، وفتنة القبر وفتنة يوم المحشر".

واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص، کراچی

makan ki tameer me / mein israf se / say mutaliq shariat / shariyat k rehnuma hidayat., مکان کی تعمیر میں اسراف سے متعلق شریعت کی رہنما ہدایات

Find here answers of your daily concerns or questions about daily life according to Islam and Sharia. This category covers your asking about the category of Characters & Morals