عنوان: "نہیں بھئی اگر قدم بھی رکھا تو بہت برا ہوگا ۔۔۔۔ اور اگر آئی تو تجھے تین طلاق" کہنے کا حکم (9752-No)

سوال: میرا نکاح آج سے تقریبا دس سال قبل ہوا، اس نکاح سے ہمارے دو بچے بھی ہیں، میرے شوہر نے پہلے مجھے الگ الگ اوقات میں دو مرتبہ طلاق دی تھیں کہ "میں تمہیں طلاق دیتا ہوں" اس کے بعد ہم نے رجوع کرلیا تھا، اور بدستور میاں بیوی کی حیثیت سے رہتے رہے، اب میرے شوہر نے مجھے میسج کے ذریعے تین معلق طلاقیں دی ہیں، میسج یہ ہے:
"نہیں بھئی اگر قدم بھی رکھا، تو بہت برا ہوگا، ہاں نہیں ملنے دیتا، اور اگر آئی تو تین طلاق ہوجائیں گی، " اب معلوم یہ کرنا ہے کہ ایسی صورت میں ہمارے لیے کیا طریقہ ہے کہ ہمارا گھر بچ جائے، اگر میرا شوہر وہ گھر تبدیل کردے، تاکہ پھر میں وہاں جاؤں، تو کیا پھر بھی طلاق ہوگی؟ جو بھی شرعی حکم ہو، ارشاد فرمادیں۔

جواب: سوال میں ذکر کردہ صورت میں شوہر پہلے سے ہی بیوی کو دو طلاقیں دے چکا ہے اور اب مزید شوہر نے اپنی بیوی کی تین طلاقیں اس کے گھر آنے پر معلق کی ہیں، لہذا جب بھی یہ عورت اپنے شوہر کے گھر جائے گی، تو اس پر مزید ایک طلاق واقع ہوکر حرمت مغلظہ ثابت ہو جائے گی، عورت خواہ اس گھر میں چلی جائے، جہاں شوہر فی الحال رہائش پذیر ہے یا شوہر کسی دوسرے گھر منتقل ہوجائے اور عورت وہاں چلی جائے، دونوں صورتوں میں طلاق واقع ہوگی، کیونکہ عرف عام میں جب شوہر یوں کہتا ہے کہ میرے گھر میں قدم مت رکھنا یا مت آنا، تو اس سے خاص وہ گھر مراد نہیں ہوتا، بلکہ جہاں بھی شوہر رہائش اختیار کرے، وہ جگہ مراد ہوتی ہے۔
تین طلاقیں واقع ہوجانے کی صورت میں یہ عورت ہمیشہ کے لیے اپنے شوہر پر حرام ہو جائے گی۔
البتہ طلاق کی عدت گزر جانے کے بعد اس عورت کا کسی اور جگہ نکاح ہوجائے اور وہ دوسرا شوہر حقوق زوجیت ادا کرنے کے بعد اس کو اپنی مرضی سے طلاق دیدے یا اس شوہر کا انتقال ہو جائے، پھر اس دوسرے شوہر کی عدت بھی گزر جائے، تو اس صورت میں سابقہ شوہر سے نکاح کرنا جائز ہوگا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:

الدر المختار مع رد المحتار: (فروع حلف لایساکن فلانا فساکنه فی عرصة دار، 760/3، ط: دار الفکر)

(حلف لا يدخل دار فلان يراد به نسبة السكنى إليه) عرفا ولو تبعا أو بإعارة باعتبار عموم المجاز ومعناه كون محل الحقيقة فردا من أفراد المجاز.
(قوله أو بإعارة) أي لا فرق بين كون السكنى بالملك أو بالإجارة أو العارية.
(قوله باعتبار عموم المجاز إلخ) مرتبط بقوله يراد يعني أن الأصل في دار زيد أن يراد بها نسبة الملك، وقد أريد بها ما يشمل العارية ونحوها وفيه جمع بين الحقيقة والمجاز وهو لا يجوز عندنا. فأجاب بأنه من عموم المجاز بأن يراد به معنى عام يكون المعنى الحقيقي فردا من أفراده وهو نسبة السكنى: أي ما يسكنها زيد بملك أو عارية.

واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی

Print Full Screen Views: 397 Aug 04, 2022
"nahi bhi agar qadam bhi rakha too boht bura hoga...or agar ai too tujhe teen talaq" kehne ka hokom /hokum

Find here answers of your daily concerns or questions about daily life according to Islam and Sharia. This category covers your asking about the category of Divorce

Managed by: Hamariweb.com / Islamuna.com

Copyright © Al-Ikhalsonline 2024.