سوال:
مفتی صاحب! اس بارے میں وضاحت فرمادیں کہ کیا یہ جو بات کہی جارہی ہے کیا یہ درست ہے؟"اللھم بارک لی فی الموت وفی ما بعد الموت ترجمہ: اے اللہ! مجھے موت میں برکت عطا فرما اور موت کے بعد جو ہونا ہے اس میں بھی برکت عطا فرما۔
فضیلت: حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے حضورﷺ سے دریافت کیا کہ کوئی شخص بغیر شہادت کے بھی شہیدوں کے ساتھ ہوسکتا ہے؟ حضورﷺ نے فرمایا کہ جو شخص دن رات میں 20 مرتبہ موت کو یاد کرے وہ شہیدوں کے ساتھ ہوسکتا ہے۔
ایک حدیث میں ہے کہ جو شخص 25 مرتبہ "اللہم بارک لی فی الموت وفی ما بعد الموت" پڑھے، وہ شہادت کے درجہ میں ہوسکتا ہے۔" (مرقاۃ: جلد 5 صفحہ نمبر270)
جواب: سوال میں ذکرکردہ روایت ’’شدید ضعیف‘‘ ہے، لہذا اسے جناب رسول اللہ ﷺ کی طرف منسوب کرکے بیان کرنا درست نہیں ہے۔ اس روایت کا ترجمہ ،تخریج اور اسنادی حیثیت مندرجہ ذیل ہے۔
ترجمہ:حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ میں نے جناب رسول اللہ ﷺ سے عرض کیا: اے اللہ کے رسول ! کیا شہید صرف وہی شخص ہے جو اللہ کے راستہ میں قتل کر دیا جائے؟ جناب رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: اس طرح تو میری امت کے بہت ہی تھوڑے لوگ شہید کہلائیں گے، جو شخص دن میں پچیس مرتبہ یہ پڑھے:’’ اللهم بارك في الموت وفيما بعد الموت‘‘ (اے اللہ موت اور موت کے بعد برکت عطا فرما) پھر اگر اسے اپنے بستر پر موت آئے تو بھی اللہ تعالی اُسے شہید کا اجر عطا فرمائیں گے۔
تخریج الحدیث:
سوال میں ذکر کردہ روایت کو امام طبرانیؒ (م360ھ)نے ’’المعجم الاوسط‘‘:( 343/7)،رقم الحديث: 7676، ط: دار الحرمين)میں ذکر کیا ہے ۔
مذکورہ روایت کی اسنادی حیثیت:
علامہ ہیثمی ؒ (م807 ھ)فرماتے ہیں: امام طبرانىؒ نے "المعجم الاوسط" میں یہ روایت نقل کی ہے، اور اس کی سند میں ایسے روای ہیں جنہیں میں نہیں جانتا۔ علامہ مرتضی زبیدی ؒ(م1205 ھ)فرماتے ہیں: اس کی سند میں ایسے راوی ہیں جن کے حال کی معرفت نہیں ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تخریج الأحادیث و حکم أسانیدھا:
المعجم الأوسط:( 343/7)،( 7676)، ط: دار الحرمين)
حدثنا محمد بن موسى الإصطخري، ثنا الحسن بن كثير، حدثتني نضرة بنت جهضم بن عبد الله بن أبي الطفيل القيسية، عن أبيها، عن يحيى بن أبي كثير، عن أبي سلمة بن عبد الرحمن، عن عائشة، قالت: قلت: يا رسول الله، ليس الشهيد إلا من قتل في سبيل الله، فقال: يا عائشة، إن شهداء أمتي إذا لقليل، من قال في يوم خمسة وعشرين مرة: اللهم بارك في الموت، وفيما بعد الموت، ثم مات على فراشه، أعطاه الله أجر شهيد.
و الحديث أورده الهيثمي في ’’مجمع الزوائد‘‘ (5/301) (9557) وقال : رواه الطبراني في الأوسط وفيه من لم أعرفهم.
و الحديث ذكره الزبيدي من غير ذکر إسنادہ في ’’إتحاف السادة‘‘(9/530) و قال: في إسناده من لايعرف حاله.
دراسة أسانيدها:
’’محمد بن موسى بن إبراهيم الإصطخري‘‘
و قال ابن حجرالعسقلاني في’’لسان الميزان‘‘( 541/7) في ترجمة ’’محمد بن موسى بن إبراهيم الإصطخري‘‘
شيخ مجهول.روى عن شعيب بن عمران العسكري خبرا موضوعا كتبته في ترجمة الراوي عنه محمد بن أحمد بن محمد بن إدريس البكراوي [6422]
وقال ابن عراق الكناني في ’’ تنزيه الشريعة ‘‘ (115/1) محمد بن موسى بن إبراهيم الأصطخري مجهول روى خبرا موضوعا.
الحسن بن كثير‘‘
وقال الامام أبو حاتم في ’’الجرح والتعديل‘‘(34/3) (142) و الذهبي في ’’ديوان الضعفاء‘‘(85)في ترجمة الحسن بن كثير: هو مجهول.
’’نضرة بنت جهضم ‘‘
لم نقف على ترجمتها
واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی