عنوان: فتنہ دجال سے حفاظت کے لیے سورۃ الکہف کی تلاوت سے متعلق احادیث کا تحقیقی جائزہ اور سورۃ الکہف کے تمام فضائل کا بیان (9791-No)

سوال: کیا جمعہ کے دن سورہ کہف کی ابتدائی دس اور آخری دس آیتیں پرھنے والی روایت صحیح ہے اور مکمل سورہ کہف پڑھنے والی روایت ضعیف ہے؟ براہ کرم وضاحت فرمادیں۔

جواب: تمہید:
احادیث مبارکہ میں قرآن کریم کی جن سورتوں کے متعلق كثرت سے مختلف فضائل وارد ہوئے ہیں، ان سورتوں میں سے ایک سورۃ الکہف بھی ہے، اس سورۃ کى بے پناہ اہمیت، عظمت اور فضیلت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ اس سورۃ کی فضیلت میں ایک درجن سے زائد احادیث وارد ہوئی ہیں۔ ان احادیث میں سے بیشتر احادیث میں سورۃ الکہف کی مکمل یا بعض آیات کى تلاوت کو دجال اور فتنہ دجال سےحفاظت کا ذریعہ قرار دیا گیا ہے۔ جس سے معلوم ہوتا ہے کہ سورۃ الکہف کا دجال کے فتنے سے کوئى خاص تعلق ہے، جبھى تو اس سورۃ مبارکہ کے پڑھنے، یاد کرنے اور خاص طور پر جمعہ کے دن اس سورۃ کو پڑھنے کے متعلق احادیث میں بھر پور ترغیب دلائی گئی ہے، مزید یہ کہ جمعہ کے دن اور اس کے علاوہ دنوں میں بھی اس سورۃ کے پڑھنے کے بہت سے فضائل بیان کیے گئے ہیں، ذیل میں پہلے ان روایات کی تحقیق ذکر کى جائے گى جن میں اس سورۃ کا پڑھنا دجال اور اس کے فتنے سے حفاظت کا ذریعہ قرار دیا گیا ہے، پھر اس کے بعد سورۃ الکہف کے مزید فضائل بیان کیے جائیں گے:
دجال اور اس کے فتنے سے حفاظت کے لیے سورۃ الکہف کی تلاوت کے متعلق احادیث کا تحقیقی جائزہ:
واضح رہے کہ اس بارے میں جو روایات منقول ہیں وہ دو قسم کے مضامین پرمشتمل ہیں: ایک مضمون یہ ہے کہ مکمل سورۃ الکہف یا اس کى بعض آیات کى مطلقا تلاوت دجال اور اس کے فتنے سے حفاظت کا ذریعہ ہے، اس مضمون میں جمعہ کے دن کى تعیین نہیں کى گئى ہے، جبکہ دوسرا مضمون یہ ہے کہ خاص جمعہ کے دن سورۃ الکہف کى تلاو ت دجال اور اس کے فتنے سے حفاظت کا ذریعہ ہے۔
ذیل میں بالترتیب دونوں مضامین کى روایات کو ذکر کیا جاتا ہے:
پہلے مضمون کى احادیث: یہ مضمون پانچ صحابہ کرام: حضرت ابو الدرداء، حضرت نواس بن سمعان، حضرت ثوبان بن بجدد القرشى، ام المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ اور حضرت ابوسعید خدرى رضی اللہ عنہم اجمعین سے مروى ہے۔
1- حضرت ابو الدرداء رضی اللہ عنہ کى حدیث:
حضرت ابو الدرداء رضی اللہ عنہ سے مروى ہے کہ آنحضرت صلى اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: "جس نے سورۃ الکہف کى ابتدائى دس آیات کو یاد کیا وہ دجال سے محفوظ ہو گا"۔
حضرت ابوالدرداء رضی اللہ عنہ کى اس روایت کا مضمون مختلف کتب احادیث میں الفاظ کے فرق کے ساتھ یوں نقل کیا گیا ہے:
بعض کتب احادیث میں یہ الفاظ ہیں: "جس نے سورۃ الکہف کى ابتدائى دس آیات تلاوت کى تو وہ دجال سے محفوظ رہے گا۔
بعض کتب احادیث میں یہ الفاظ ہیں: "جس نے سورۃ الکہف کى آخرى دس آیات یاد کیں یا تلاوت کیں، تو وہ دجال اور اس کے فتنے سے محفوظ رہے گا۔
بعض کتبِ احادیث میں صرف دس آیات کى تلاوت کا ذکر ہے، ابتدائى یا آخرى دس آیات کى تعیین نہیں کى گئى ہے۔
بعض کتبِ احادیث میں دجال سے حفاظت کا ذکر ہے اور جبکہ بعض کتب میں فتنہ دجال سے حفاظت کا ذکر ہے، نیز "سنن الترمذی" کى روایت میں ہے: "جس نے سورۃ الکہف کى ابتدائى تین آیات کى تلاوت کى وہ فتنہ دجال سے محفوظ ہوگا"۔
یہ حدیث مندرجہ ذیل کتبِِ احادیث میں نقل کی گئی ہے:
1-صحيح مسلم، 2- مسند ابن أبي شيبة، 3- مسند أحمد، 4-فضائل القرآن لابن ضریس، 5-سنن أبي داود، 6-سنن الترمذي، 7-سنن نسائى كبرى، 8-مسند أبي عوانة، 9-صحيح ابن حبان، 10-مستدرك حاكم ،11-سنن بيهقي كبرى، 12-شعب الإيمان للبیہقی، 13- عمل الیوم واللیلۃ۔
2-حضرت نواس بن سمعان رضی اللہ عنہ کى حدیث:
حضرت نواس بن سمعان رضي اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ایک صبح رسول اللہ ﷺ نے دجال کا تذکرہ فرمایا، تو اس طرح اس کی ذلت و حقارت اور اس کے فتنے کی ہولناکیوں کو بیان فرمایا کہ ہم نے گمان کیا کہ وہ کھجوروں کے جھنڈ میں ہے۔ چنانچہ جب ہم بعد میں آپ ﷺ کے پاس گئے، تو آپ ﷺ ہمارے اندر موجود اضطراب اور پریشانی کو بھانپ لیا، تو آپ ﷺ نے پوچھا: "تمھارا کیا حال ہے؟" ہم نے عرض کیا: اے اللہ کے رسول ﷺ! صبح آپ نے دجال کے فتنے کا ذکر کیا اور اسے حقیر اور خطرناک کر کے بیان کیا، یہاں تک کہ ہم نے اس کی بابت یہ گمان کیا کہ وہ یہاں کھجوروں کے جھنڈ میں ہی موجود ہے۔ آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا: "دجال کے علاوہ اور چیزوں سے مجھے تمھاری بابت زیادہ شدید اندیشہ ہے، اگر دجال میری موجودگی میں نکلا، تو تمھاری جگہ میں خود اس سے نمٹ لوں گا۔ اور اگر میری زندگی کے بعد نکلا تو ہر آدمی خود اپنے نفس کا دفاع کرے گا۔ اور اللہ تعالیٰ ہر مسلمان پر میرا جانشین ہے میرے بجائے اللہ نگران ہے۔ دجال نوجوان اور گھنگریالے بالوں والا ہوگا۔ اس کى ایک آنکھ ابھری ہوئی ہوگی۔ گویا کہ میں اسے عبد العزی بن قطن سے تشبیہ دیتا ہوں۔ اگر تم میں سے کوئی اسے پائے، تو اس پر سورت کہف کی ابتدائی آیات پڑھے۔(اس کے بعد آپ صلى اللہ علیہ وسلم نے مزید تفصیل بیان فرمائى)۔۔۔الخ"۔
یہ حدیث مذکورہ بالا مضمون کے ساتھ مندرجہ ذیل کتبِ احادیث میں وارد ہوئى ہے:
1-صحیح مسلم، 2- سنن أبى داود، 3- سنن الترمذى، 4- سنن النسائى کبرى، 5- مستدرک للحاکم، 6- الفتن لحنبل بن إسحاق۔
ان میں سے سنن أبى داود کے طریق میں یہ الفاظ ہیں: "تم میں جو بھى اسے (دجال) کو پائے، تو وہ اس پر سورۃ الکہف کى ابتدائى آیات پڑھے، کیونکہ سورۃ الکہف کى ابتدائى آیات دجال کے فتنے سے حفاظت کا ذریعہ ہیں"۔
نیز حنبل بن إسحاق رحمہ اللہ کى کتاب "الفتن" میں یہ الفاظ ہیں: "تم میں سے جو بھى اسے (دجال کو) پائے ،تو وہ اس پر سورۃ الکہف کى آخرى آیات کى تلاوت کرے"۔
نوٹ: حضرت نواس بن سمعان رضی اللہ عنہ کى یہ حدیث اور کتب احادیث میں بھی نقل کی گئی ہے، لیکن یہاں صرف ان کتب کا حوالہ دیا گیا ہے، جن میں یہ مضمون بیان کیا گیا ہو کہ سورۃ الہکف کى تلاوت دجال اور اس کے فتنے سے حفاظت کا باعث ہے۔


3- حضرت ثوبان بن بجدد القرشی رضی اللہ عنہ کى حدیث:
حضرت ثوبان رضی اللہ عنہ آنحضرت صلى اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: "جس نے سورۃ الکہف کى آخرى دس آیات کى تلاوت کى، تو یہ تلاوت دجال سے حفاظت کا ذریعہ ہوگى"۔
مذکورہ بالا حدیث مندرجہ ذیل کتب احادیث میں وارد ہوئى ہے:1-سنن نسائى کبری، 2- عمل الیوم واللیلۃ للنسائى، 3-مسند الرویانى، 4-مسند أبي يعلى (بحوالہ إتحاف الخیرۃ)، 5-الأحادیث مختارۃ للضیاء المقدسي (بحوالہ جمع الجوامع)، 6-تاریخ بغداد للخطیب۔
4- حضرت ابو سعید خدرى رضی اللہ عنہ کى حدیث:
حضرت ابو سعید خدرى رضى اللہ عنہ کى یہ حدیث متعدد کتبِ احادیث میں مختلف طرق سے (مرفوعا و موقوفا) وارد ہوئى ہے، ان سب طرق میں سے تین رواۃ: ہشیم بن بشیر، سفیان ثورى اور شعبۃ بن الحجاج رحمہم اللہ کے طریق بنیادى حیثیت کے حامل ہیں، ان تینوں کا مدار إسناد: "أبوهاشم الواسطي، عن أبي مجلز، عن قیس بن عباد، عن أبي سعید" ہے، ان تین طرق میں سے دو طرق میں سورۃ الکہف کى فضیلت کا پہلا مضمون بیان ہوا ہے، جبکہ ایک طریق میں دوسرا مضمون بیان ہوا ہے، ذیل میں ان دو طرق کو یعنى "طریق سفیان ثورى اور طریق شعبۃ بن الحجاج رحمہما اللہ" بیان کیا جاتا ہے:
(الف) حدیث ابو سعید خدرى رضی اللہ عنہ بروایت سفیان ثورى رحمہ اللہ:
حضرت ابو سعید خدرى رضی اللہ عنہ کى روایت جو سفیان ثورى رحمہ اللّٰہ سے موقوفا آئى ہے، اس کا مضمون یہ ہے کہ "جو شخص سورۃ الکہف کو اسى طرح پڑھے جیسے وہ نازل ہوئى ہے، پھر وہ دجال کو پا لے، تو دجال اس پر مسلط نہیں ہو سکے گا اور اسے (دجال) کو اس شخص تک کوئى رسائى نہیں ہوگى اور جس جگہ وہ شخص سورۃ الکہف کى تلاوت کر رہا ہو گا، اس جگہ سے لے کر مکہ مکرمہ تک اس کے لیے نور بلند کر دیا جائے گا"۔
اسی حدیث کا ایک طریق جو کہ وکیع، عن سفیان ثورى رحمہما اللّٰہ ہے، درج ذیل الفاظ میں موقوفا نقل کیا گیا ہے: "جس شخص نے سورۃ الکہف کى تلاوت اسى طرح کی جیسے وہ نازل کى گئى ہے، تو اس کے اور مکہ مکرمہ کے درمیانى مسافت تک نور روشن کر دیا جائے گا اور جس نے سورۃ الکہف کے آخرى حصے کى تلاوت کى اور پھر دجال کو پالیا، تو دجال اس پر مسلط نہیں ہو سکے گا"۔
حضرت ابو سعید خدرى رضی اللہ عنہ کى یہ حدیث بروایت سفیان ثوری رحمہ اللّٰہ مندرجہ ذیل کتبِ احادیث میں (موقوفا) وارد ہوئى ہے:
1-"المصنف "لعبد الرزاق۔ 2-"کتاب الدعاء "للطبرانی۔ 3-"الفتن "لنعیم بن حماد۔ 4-"السنن الکبرى" للنسائى اور 5-"المستدرک" للحاکم۔
(ب) حدیث ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ بروایت شعبۃ بن الحجاج:
یحیى بن کثیر رحمہ اللہ نے شعبۃ بن الحجاج، عن أبي ہاشم، عن أبي مجلز، عن قیس بن عباد، عن أبي سعید خدرى رضی اللہ عنہ سے مرفوعا نقل کیا ہے آنحضرت صلی اللّٰہ علیہ وسلم کاارشاد گرامی ہے: "جس شخص نے سورۃ الکہف کى اسى طرح تلاوت کے جیسے وہ نازل کى گئى ہے، تو اس کے اور مکہ مکرمہ کے درمیانى مسافت تک نور ہى نور ہوگااور جس نے سورۃ الکہف کى آخرى دس آیات کى تلاوت کى، پھر دجال ظاہر ہو گیا، تو وہ اس پر مسلط نہیں ہو سکے گااور وہ اسے نقصان نہیں پہنچا سکے گا"۔
حضرت ابو سعید خدرى رضی اللہ عنہ کى یہ حدیث مندرجہ بالا طریق سے مندرجہ ذیل کتبِ احادیث میں وارد ہوئى ہے: 1-"السنن الکبرى"للنسائى میں (مرفوعا وموقوفا)، 2-"شعب الإیمان"للبیہقی میں(مرفوعا وموقوفا)، 3-"المعجم الأوسط"للطبرانی اور 4-"المستدرک "للحاکم میں (مرفوعا)۔
نوٹ: حضرت ابو سعید خدرى رضی اللہ عنہ کى روایت کا ایک طریق جو "ہشیم بن بشیر رحمہ اللہ" سے منقول ہے، اس میں جو مضمون بیان ہوا ہے، اس میں "جمعہ کے دن سورۃ الکہف کى تلاوت" پر اس فضیلت کو بیان کیا گیا ہے، چونکہ یہ پہلے مضمون کا بیان چل رہا ہے، اس لیے "ہشیم بن بشیر رحمہ اللہ" کا طریق دوسرے مضمون کے ضمن میں آئے گا۔
5- ام المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہاکى حدیث:
ام المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے مروى ہے کہ آنحضرت صلى اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: "جو شخص سوتے وقت سورۃ الکہف کى دس آیات کى تلاوت کرے گا، تو وہ فتنہ دجال سے محفوظ رہے گا اور جو شخص سورۃ الکہف کى آخرى آیات کى تلاوت کرےگا، تو قیامت کے دن اس کے سر سے لے کر قدموں تک نور ہى نور ہوگا"۔
مذکورہ بالا حدیث مندرجہ ذیل کتبِ احادیث میں نقل کى گئى ہے: 1-ابو عبیدۃ مجاعۃ بن الزبیر العتکی کى احادیث كا"جزء"، 2-ابو العباس جعفر بن محمد المستغفرى کى کتاب "فضائل القرآن" ، ابن مردویہ کى "تفسیرابن مردویہ" بحوالہ جمع الجوامع میں۔
مذکورہ بالا احادیث کى اسنادى حیثیت اور ان کا حکم:
1- حضرت ابوالدرداءرضی اللہ عنہ کى حدیث "صحیح" ہے۔
2- حضرت نواس بن سمعان رضی اللہ عنہ کى حدیث "صحیح" ہے۔
3- حضرت ثوبان بن بجدد القرشی رضی اللہ عنہ کى حدیث کے راوى بھی "صحیح"حدیث کے راوى ہیں، لہذا یہ حدیث بھى"صحیح" ہے، البتہ امام دار قطنی رحمہ اللّٰہ نے "أطراف الغرائب" میں اس حدیث کو ذکر فرما کر اسے "غریب" قرار دیا ہے، (بظاہر اس "غرابت" کى وجہ یہ ہو کہ چونکہ حضرت ثوبان رضی اللہ عنہ کى حدیث کى سند "قتادۃ، عن سالم بن الجعد، عن معدان" ہے، جبکہ یہى سند حضرت ابوالدرداء رضی اللہ عنہ کى بھى ہے)، اس "غرابت "کا جواب حافظ ابن کثیر رحمہ اللہ نے "تفسیر ابن کثیر" میں حدیث ثوبان کو ذکر کرنے کے بعد یوں دیا ہے: "ممکن ہے سالم بن الجعد نے یہ حدیث حضرت ابو الدرداء اور حضرت ثوبان رضی اللہ عنہما دونوں کے حوالے سے سنى ہو (لہذا اس میں غرابت نہیں ہے)۔
4- حضرت ابو سعید خدرى رضی اللہ عنہ کی یہ روایت متعدد کتبِ احادیث میں مختلف طرق سے مرفوع اور موقوف دونوں طرح سے منقول ہے، اس حدیث کو امام حاکم رحمہ اللہ نے "صحیح" قرار دیا ہے، محدثین میں سے اکثر حضرات مثلا: امام نسائى، امام بیہقى، امام دارقطنی اور امام ذہبی رحمہم اللہ نے اس حدیث کے موقوف ہونے کو "أصح" (زیادہ صحیح) قرار دیا ہے، البتہ حافظ ابن حجر عسقلانى رحمہ اللہ نے "نتائج الأفکار" میں اس حدیث کے موقوف طرق کے رواۃ کو مرفوع طرق کے رواۃ کے مقابلے میں زیادہ مضبوط قرار دیا ہے، لیکن حافظ رحمہ اللہ نے اس حدیث کے موقوف ہونے کو صحیح قرار دیتے ہوئے، اس موقوف حدیث کو "موقوف بحکم المرفوع" قرار دیا ہے، کیونکہ سورۃ الکہف کى فضیلت سے متعلق حضرت ابو سعید خدرى رضی اللہ نے جو مضمون بیان فرمایا ہے، وہ مضمون ایسا ہے کہ کوئى شخص اپنى عقل اور رائے کى بنیاد پر نہیں بیان کر سکتا ہے، یقینا حضرت ابو سعید خدرى رضی اللہ عنہ نے یہ مضمون آنحضرت صلى اللہ علیہ وسلم کی زبان حق ترجمان سے سنا ہوگا، اس لیے یہ حدیث موقوف ہونے کے باوجود مرفوع کے حکم میں اور "صحیح" ہے۔ واللّٰہ تعالى أعلم بالصواب۔
5- حدیث عائشہ صدیقہ رضی اللہ کی حدیث کے راوى ابوعبیدۃ الزبیر بن مجاعۃ رحمہ اللہ کے متعلق امام ابن عدى نے "الکامل" میں فرمایا ہے: "یہ ان رواۃِ حدیث میں سے ہیں، جن کى روایت کو نقل کیا جا سکتا ہے، جبکہ حافظ ابن حجر عسقلانى رحمہ اللہ نے "لسان المیزان" میں امام دار قطنی رحمہ اللہ کے حوالے سے نقل کیا کہ انہوں نے ابو عبیدۃ رحمہ اللہ کو ضعیف قرار دیا ہے، لیکن امام ابن حبان رحمہ اللہ نے انہیں ثقات میں شمار كرتے ہوئے "مستقیم الحدیث" قرار دیا ہے۔
دوسرے مضمون کى احادیث:
اس مضمون کى روایات (6) صحابہ کرام رضوا ن اللہ علیہم اجمعین اور (2) تابعین رحمہما اللہ سے مروى ہیں، صحابہ کرام کے اسماء گرامى یہ ہیں: حضرت ابوسعید خدرى رضی اللہ عنہ، حضرت على کرم اللہ وجہہ، حضرت زید بن خالد الجہنی رضی اللہ عنہ، حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما (منفردا)، حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللّٰہ عنہما وحضرت ابو ہریرۃ رضی اللہ عنہ (مجتمعا)، تابعین کے اسماء گرامی یہ ہیں: حضرت ابوعتبہ الحمصى رحمہ اللہ، حضرت اسماعیل بن رافع رحمہ اللہ ہیں، ذیل میں ان سب روایات کو بالترتیب ذکر کیا جاتا ہے:
1- حضرت ابو سعید خدرى رضی اللہ عنہ کى حدیث بروایت قبيصة بن عقبة، عن سفیان ثورى رحمه الله:
حضرت ابو سعید خدرى رضی اللہ عنہ سے موقوفا روایت ہے: "جو شخص جمعہ کے دن سورۃ الکہف کى تلاوت کرے، پھر وہ دجال کو پا لے، تو دجال اس پر مسلط نہیں ہو سکے گا (یا یہ الفاظ کہے گئے) دجال اس شخص کو نقصان نہیں پہنچا سکے گا اور جس شخص نے سورۃ الکہف کے آخرى حصے کى تلاوت کى، تو اس کے مقام سے مکہ مکرمہ تک کى درمیانى مسافت میں اس کے لیے نور روشن کر دیا جائے گا"۔
مذکورہ بالا روایت کو امام بیہقى رحمہ اللہ نے اپنى کتاب "شعب الإیمان" میں بروایت قبيصۃ بن عقبۃ، عن سفيان، عن أبي ہاشم، عن أبي مجلز، عن قیس بن عباد، عن أبي سعید خدرى رضی اللہ عنہ سے موقوفا نقل فرمایا ہے۔
2،3- حضرت على کرم اللہ وجہہ اور حضرت زید بن خالد الجہنی رضی اللہ عنہ کى حدیث:
حضرت على کرم اللہ وجہہ اور حضرت زید بن خالد الجہنی رضی اللہ عنہ سے مرفوعا اور موقوفا (مجتمعا ومنفردا) مروى ہے کہ رسول اکرم صلى اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: "جس شخص نے جمعہ کے دن سورۃ الکہف کى تلاوت کى وہ آٹھ دنوں تک ہر قسم کے فتنے سے محفوظ رہے گا، اگر اس دوران دجال ظاہر ہو گیا تو وہ شخص دجال سے بھى محفوظ رہے گا"۔
اس حدیث کے ایک طریق میں یہ الفاظ ہیں کہ "وہ شخص چھ دنوں تک محفوظ رہے گا"۔
مذکورہ بالا حدیث مندرجہ ذیل کتبِ احادیث میں (مرفوعا وموقوفا، مجتمعا ومنفردا) نقل کى گئى ہے: 1- الأحادیث المختارۃ للضیاء المقدسی،
2- حدیث أبي الفضل الزهري، 3-التفسير الوسيط للواحدي (طريق زيد بن خالد رضي الله عنه)، 4-تفسير ابن مردويه (طريق على كرم الله وجهه)۔
4- حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کى حدیث:
حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے مروى ہے کہ رسول اکرم صلى اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: "جس شخص نے سورۃ الکہف کو جمعہ کے دن پڑھا تو اس کے لیے صنعاء سے لے کر بصرى تک نور پھیل جائے گا اور جو اس سورۃ کو جمعہ کے دن پڑھے گا، چاہے جمعہ سے پہلے پڑھے یا جمعہ کے بعد میں پڑھے، تو وہ شخص اگلے جمعہ تک محفوظ ہوگا، اگر ان دونوں جمعوں کے درمیان دجال ظاہر ہو گیا، تو دجال اس شخص کو نقصان نہیں پہنچا سکے گا"۔
اس حدیث کے ایک طریق میں مذکورہ بالا الفاظ کے شروع میں یہ اضافہ بھی ہے: "جو شخص سورۃ الکہف کى دس آیات کى تلاوت کرے گا تو وہ سر تا پا ایمان سے بھر جائےگا"۔
مندرجہ بالا حدیث کو حافظ ابن حجر عسقلانى رحمہ اللہ نے اپنى کتاب "نتائج الافکار" میں اور امام سیوطی رحمہ اللہ نے اپنى کتاب "جمع الجوامع" میں "کتاب الثواب لأبی الشیخ" کے حوالے سےنقل کیا ہے۔
5،6- حضرت عبد اللہ بن عباس اور حضرت ابو ہریرۃ رضی اللہ عنہم کى حدیث:
حضرت عبداللہ بن عباس اور حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہم سے روایت ہے کہ آنحضرت صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: "جو شخص جمعہ کی رات کو سورۃ الکہف کی تلاوت کرے گا، تو اسے ایسا نور عطا کیا جائے گا جو اس کی جگہ سے لے کر مکہ مکرمہ تک پھیلا ہوا ہوگا اور اگلے جمعہ تک اس کى مغفرت کردی جائے گی اور مزید اس میں تین دن کا اضافہ ہوگا اور ستر ہزار فرشتے صبح تک اس پر رحمت کی دعا بھیجتے رہیں گے اور اسے بیماری سے "دبیلہ" (پیپ کے پھوڑے) سے، "ذات الجنب" پسلى کے درد سے ، "برص" کوڑھ کے مرض سے، "جذام" سے اور جنون سے بچا لیا جائے گا اور اسے فتنہ دجال سے محفوظ کر دیا جائے گا"۔
مذکورہ بالا حدیث کو امام سیوطی رحمہ اللہ نے اپنى کتاب "ذیل اللآلئ" میں "مسند الفردوس للدیلمی" کے حوالے سے اور ابو العباس جعفر بن محمد المستغفرى رحمہ اللہ نے اپنى کتاب "فضائل القرآن" میں نقل کیا ہے۔
7- حضرت ابو عتبہ الحمصى رحمہ اللہ کى حدیث:
حضرت ابو عتبہ الحمصى رحمہ اللہ سے مروى ہے کہ رسول اکرم صلى اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: "جس شخص نے جمعہ کے دن سورۃ الکہف کى تلاوت کى اس کى ایک جمعہ سے دوسرے جمعہ تک مغفرت کر دى جائے گى اور مزید اس میں تین دن کا اضافہ ہوگا اور اسے آسمان تک نور عطا ہوگا اور وہ دجال کے فتنے سے محفوظ ہوگا اور جو شخص سورۃ الکہف کى آخرى پانچ آیات کو رات کو بستر پر جاتے ہوئے (سوتے وقت) پڑھے، تو یہ آیات اس کى محافظ بن جائیں گیں اور یہ شخص رات کے جس پہر کو بھى جاگنا چاہے گا اللہ تعالى اسے اس کى نیت کے مطابق اس وقت نیند سے بیدار فرما دیں گے"۔
مذکورہ بالا حدیث کو یحیى بن الحسین الشجرى رحمہ اللہ نے اپنى کتاب "ترتیب الأمالي الخمیسیة" میں نقل کیا ہے۔
8- حضرت اسماعیل بن رافع رحمہ اللہ کى حدیث:
حضرت اسماعیل بن رافع رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ ہم تک یہ روایت پہنچی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: "کیا میں تمہیں ایسی سورۃ کے بارے میں نہ بتلاؤں جس کى عظمت نے آسمان و زمین کے درمیانى خلا کو پُرکر دیا ہے، اس سورۃ کے نازل ہونے کے وقت ستر ہزار فرشتوں اس کو لے کر آئے؟ وہ سورۃ الکہف ہے، جو شخص جمعہ کے دن اس کو پڑھے گا، تو اللہ تعالی اس کی برکت سے اگلے جمعہ تک اس کی مغفرت فرما دیں گے اور مزید تین دن اس کے بعد بھی اس کی مغفرت ہوگی اور اسے ایسا نور عطا کیا جائے گا جو آسمان تک پہنچ جائے گا اور اسے فتنہ دجال سے محفوظ کر دیا جائے گا اور جو شخص رات کو سوتے ہوئے بستر پر اس سورۃ کی آخرى پانچ آیات کی تلاوت کرے گا، تو اللہ تعالی اس کی حفاظت فرمائیں گے اور یہ شخص رات کے جس پہر کو بھى جاگنا چاہے گا اللہ تعالى اسے اس کى نیت کے مطابق اس وقت نیند سے بیدار فرما دیں گے"۔
مذکورہ بالا حدیث کو ابن ضریس رحمہ اللہ نے "فضائل القرآن" میں نقل کیا ہے۔
مذکورہ بالا روایات کى اسنادى حیثیت:
1- حضرت ابو سعید خدرى رضی اللہ عنہ کی یہ روایت "قبیصۃ بن عقبۃ" نے حضرت سفیان ثورى رحمہ اللہ کےطریق سے موقوفا نقل کى ہے، جبکہ حضرت سفیان ثورى رحمہ اللہ سے حضرت ابو سعید خدرى رضی اللہ عنہ کى روایت جو کہ پہلے مضمون کے ضمن میں آئى ہے، اس کے الفاظ یہ تھے: "جو شخص سورۃ الکہف کو اسى طرح پڑھے جیسے وہ نازل ہوئى ہے، پھر وہ دجال کو پا لے، تو دجال اس پر مسلط نہیں ہو سکے گا اور اسے (دجال) کو اس شخص تک کوئى رسائى نہیں ہوگى اور جس جگہ وہ شخص سورۃ الکہف کى تلاوت کر رہا ہو گا"۔ سابقہ طریق میں جمعہ کے دن کا ذکر نہیں تھا، جبکہ مذکورہ طریق میں جمعہ کے دن کا اضافہ ہے، اس اعتبار سے "قبیصۃ بن عقبۃ" اس اضافے کو روایت کرنے میں منفرد ہیں، حافظ ذہبی رحمہ اللہ نے "میزان الاعتدال" میں ان کے تذکرے میں محدثین کا کلام ذکر کیا ہے، جس کا خلاصہ یہ ہے: "قبیصة" اگرچہ ثقہ اور صدوق ہیں، لیکن وہ "کثیر الغلط والخطأ" ہیں، خاص طور پر ان کى وہ روایت جو حضرت سفیان ثورى رحمہ اللہ سے منقول ہو، لیکن حافظ ابن قطان رحمہ اللہ کے حوالے سے ذکر فرمایا ہے کہ شیخ عبد الحق (المعروف بابن الخراط) رحمہ اللہ اپنى کتاب "الأحکام الوسطى" میں "قبیصة" سے روایت نقل کرتے ہیں اور ان پر کوئى نقد نہیں فرماتےہیں، حالانکہ "قبیصہ" تو محدثین رحمہم اللہ کے نزدیک "کثیر الخطأ" ہیں، اس بحث کے آخر میں نتیجے کے طور پر حافظ ذہبی رحمہ اللہ نے یہ تبصرہ فرمایا ہے: "هو محتج به عندهم موثق مع وجود غلطه"، قبیصۃ بن عقبۃ محدثین رحمہم اللہ کے نزدیک خطا کرنے کے باوجود قابل استدلال اور ثقہ ہیں"۔
لہذا مذکورہ بالا روایت بھی قابل اعتبار ہو گی، اس میں جمعہ کے دن کا اضافہ ایک ثقہ راوی کا اضافہ شمار ہوگا، باقی رہا اس روایت کا موقوف ہونا تو ما قبل میں اس پر تفصیلی بحث گذر چکی ہے۔
2،3- حدیث على وزید بن خالد الجہنی رضی اللہ عنہما کو حافظ ضیاء المقدسی رحمہ اللہ نے اس حدیث کو ابن مردویہ کے طریق سے "الاحادیث المختارۃ" میں نقل فرمایا ہے اور یہ فرمایا ہے کہ اس سند میں کچھ راوى ایسے ہیں جن کا علم نہیں ہو سکا ہے، (یعنى وہ مجہول راوى ہیں)، حافظ ابن حجر عسقلانى رحمہ اللہ نے "نتائج الأفکار" میں حدیث على و زید بن خالد الجہنی رضی اللہ عنہما کى سند کو ضعیف قرار دیا ہے۔
4- حدیث عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کو حافظ ابن حجر عسقلانى رحمہ اللہ نے "نتائج الأفکار" میں اور حافظ سیوطى رحمہ اللہ نے "جمع الجوامع" میں ابو الشیخ کى "کتاب الثواب" کے حوالے سے اس روایت کو "سوار بن مصعب" کے طریق سے نقل فرمایا ہے، حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے "سوار بن مصعب" کو ضعیف قرار دیا ہے۔
5،6 حدیث ابن عباس وابو ہریرۃ رضی اللہ عنہم کو علامہ سوطی رحمہ اللہ نے "ذيل اللآلئ" میں نقل کرنے کے بعد فرمایا ہے: اس حدیث کى سند میں "اسماعیل بن أبي زیاد" کذاب ہے اور "حسین و إبراهیم" مجروح راوى ہیں، نیز ابن عراق الکنانى رحمہ اللہ نے "تنزیہ الشریعۃ" میں اس حدیث کو نقل کر کے فرمایا ہے: "اس حدیث کو امام غزالى رحمہ اللہ نے "إحیاءعلوم الدین" میں عبد اللہ بن عباس وابی ہریرۃ رضی اللہ عنہم کى حدیث کے طور پر نقل فرمایا ہے اور حافظ زین الدین عراقى رحمہ اللہ نے "إحیاء علوم الدین" کى تخریج کبیر میں اس حدیث کو نقل فرما کر اس کى وہى علت بیان کى ہے، جو کہ علامہ سیوطى رحمہ اللہ نے بیان کى ہے"۔
جبکہ حافظ ابن حجر عسقلانى رحمہ اللہ نے اس حدیث کو "نتائج الافکار" میں اس حدیث کو نقل فرمانے کے بعد فرمایا ہے: "إسماعیل" متروک راوى ہے اور محدثین کى ایک جماعت نے اس کى تکذیب کى ہے"۔
نیز شیخ طاہر پٹنى رحمہ اللہ نے اس حدیث کو "تذکرۃ الموضوعات" میں نقل فرما کر فرمایا ہے: "اسماعیل کذاب ہے اور باقى دو راوى مجروح ہیں۔ لہذا یہ حدیث اس سند کے اعتبار سے "موضوع" (من گھڑت) ہے۔
7- حضرت ابو عتبہ الحمصى رحمہ اللہ کى اس حدیث کو یحیى بن الحسین الشجرى رحمہ اللہ نے اپنى کتاب "ترتیب الأمالي الخمیسیة" میں نقل کیا ہے۔ لیکن اس حدیث کے متعلق محدثین کى طرف سے صراحت کے ساتھ کوئى حکم نہیں مل سکا ہے، واللہ تعالى اعلم ۔
8- حضرت إسماعیل بن رافع رحمہ اللہ کى اس حدیث کو حافظ ابن حجر عسقلانى رحمہ اللہ نے "نتائج الأفکار" میں اپنى سند سے اس حدیث کو ذکر کیا ہے اور فرمایا ہے: یہ سند معضل ہے کیونکہ اسماعیل بن رافع تبع تابعین میں سے ہیں اور یہ حدیث حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کى حدیث کى شاہد ہے، کیونکہ اس حدیث کے اکثر الفاظ حدیث عائشہ رضی اللہ عنہا کے موافق ہیں، ممکن ہے جس راوى نے حدیث عائشہ رضی اللہ عنہا روایت کى ہو، اسى نے اس حدیث کو إسماعیل بن رافع تک پہنچایا ہو ۔
جمعہ کے دن سورۃ الکہف کے مزید فضائل:
1- حضرت ابو سعید خدرى رضی اللہ عنہ کى حدیث بروایت ہشیم بن بشیر رحمہ اللہ:
حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ کى یہ حدیث بروایت نعیم بن حماد، عن ہشیم بن بشیر مرفوعا درج ذیل الفاظ کے ساتھ منقول ہے: "جس شخص نے جمعہ کے دن سورۃ الکہف کى تلاوت کى تو اس کے لیے آئندہ جمعہ تک نور روشن کر دیا جائے گا"۔
جبکہ ہشیم بن بشیر رحمہ اللّٰہ کی موقوف روایت: "جس نے جمعہ کے دن سورۃ الکہف کى تلاوت کى تو اس کے اور بیت اللہ شریف کے درمیان نور روشن کر دیا جائے گا"۔
ایک طریق میں "جمعہ کى رات" کو تلاوت کا ذکر ہے۔
مذکورہ بالا حدیث کو مرفوعا مندرجہ ذیل کتبِ احادیث میں نقل کیا گیا ہے: 1-المستدرک للحاکم، 2-شعب الإیمان للبیہقی، 3- علل الدارقطنی۔
اور موقوفا مندرجہ ذیل کتب ِأحادیث میں نقل کیا گیا ہے: 1-فضائل القرآن للقاسم بن سلام۔
2- سنن الدارمی۔
3- فضائل القرآن لابن ضریس۔
4- شعب الإیمان للبیہقی۔
2- حضرت ابو ہریرۃ رضی اللہ عنہ کی حدیث
حضرت ابوہریرۃ رضی اللہ سے مروى ہے کہ آنحضرت صلى اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ہے: "جو شخص جمعہ کے دن یا جمعہ کى رات میں سورۃ الکہف کى تلاوت کرےگا، تو اللہ تعالى اس کے لیے ستر ہزار فرشتے مقرر فرما دیں گے، جو اس کے لیے رحمت کى دعا کریں گے اور اس کے لیے استغفار کریں گے اور جب وہ اس سورۃ کى تلاوت کر رہا ہو گا، تو اس کے لیے مکہ مکرمہ تک نور بلند ہوگا"۔
مذکورہ بالا روایت "فضائل القرآن" للمستغفرى رحمہ اللہ میں نقل کی گئی ہے۔
3- عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کی حدیث:
حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے مروى ہے کہ آنحضرت صلى اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: "جس شخص نے جمعہ کے دن سورۃ الکہف کى تلاوت کى تو اس کے پاؤں کے نیچے سے لے کر آسمان کى بلندیوں تک نور چمکے گا، اس نور کو قیامت کے دن اس کے ذریعہ اس کے لیے روشنى ہوگى اور دونوں جمعوں کے درمیان کے گناہ اس سورۃ کى برکت سے بخش دیے جائیں گے"۔
مذکورہ بالا حدیث "السنن والأحکام" للضیاء المقدسی رحمہ اللہ میں نقل کی گئی ہے۔
4- حضرت جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہما کی حدیث:
حضرت جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہما سے مروى ہے کہ آنحضرت صلى اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: "جس شخص نے جمعہ کى رات میں سورۃ الکہف کى تلاوت کى تو اللہ تعالى اس کے ایک جمعہ سے لے کر دوسرے جمعہ تک کے گناہوں کو بخش دیں گے"۔
مذکورہ بالا روایت ھبة الله السجزي رحمه الله کی کتاب "السبعیات" میں نقل کی گئی ہے۔
5- ام المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کى حدیث:
ام المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے مروى ہے کہ رسول اکرم صلى اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: "کیا میں تمہیں قرآن کریم کى ایسى سورۃ کے بارے میں نہ بتاؤں، ایسى سورۃ کہ جس کى عظمت نے آسمان وزمین کو بھر دیا ہے اور اس سورۃ کے لکھنے والے کو بھى اتنا ہى اجر ملے گا (یعنى آسمان وزمین کے درمیانى خلا جتنا اجر) اور جو شخص اس سورۃ کو جمعہ کے دن پڑھے گا، تو اس کے آئندہ جمعہ تک ہونے والے گناہوں کو معاف کر دیا جائے گا، مزید تین دن کا اور بھى اس میں اضافہ ہوگا اور جو شخص سوتے وقت اس سورۃ کى آخرى پانچ آیات (ایک طریق میں ہے آخرى دس آیات) کى تلاوت کر کے رات کے جس پہر کو بھى جاگنا چاہے گا اللہ تعالى اسے اس کى نیت کے مطابق اس وقت نیند سے بیدار فرما دیں گے؟ (کیا میں تمہیں ایسی سورۃ کے بارے میں نہ بتاؤں؟) صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے عرض کیا: کیوں نہیں اے اللہ کے رسول! (ضرور آپ ہمیں ایسى سورۃ کے بارے میں آگاہ فرمائیں)، تو آنحضرت صلى اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: "وہ سورۃ الکہف ہے"۔
اس حدیث کو امام سیوطی رحمہ اللہ نے ابن مردویہ کے حوالے سے نقل کیا ہے کہ انہوں نے اپنى تفسیر میں اس حدیث کو نقل کیا ہے۔
سورۃ الکہف کے مزید فضائل:
1- سورۃ الکہف کى تلاوت کے وقت سکینہ نازل ہونا۔
حضرت براء بن عازب رضی اللہ عنہ کى حدیث:
حضرت براء بن عازب رضی اللہ عنہ سے مروى ہے کہ ایک شخص نے نماز میں سورۃ الکہف کى تلاوت کى ، گھر میں اس کے قریب گھوڑا بندھا ہوا ، تو وہ بدکنے لگا، جب انہوں نے سلام پھیرا تو دیکھا کہ ایک بدلى ہے جس نے اسے ڈھانپ لیا ہے، اس نے آنحضرت صلى اللہ علیہ وسلم کى خدمت میں حاضر ہوکر یہ واقعہ عرض کیا ، تو آپ صلى اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: "اے فلاں! تو پڑھتا رہ، (اپنى تلاوت جارى رکھ)یہ سکینہ ہےجو قرآن کریم کى سماعت کے لیے نازل ہوئى ہے۔
(صحیح البخارى:رقم الحدیث : 3614)
2- سورۃ الکہف کى تلاوت سے پڑھنے والے کو نورحاصل ہونا۔
حضرت معاذ بن انس الجہنی رضی اللہ عنہ کى حدیث:
حضرت معاذ بن انس الجہنی رضی اللہ عنہ سے مروى ہے کہ آنحضرت صلى اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:"جس نے سورۃ الکہف کےابتدائى اور آخرى حصے کى تلاوت کى تو اس کے سر سے لے کر پاؤں تک نور ہوگا اور جس نے مکمل سورۃ الکہف کى تلاوت کى تو اس کے لیے زمین سے لے کر آسمان تک نور ہوگا۔
(مسند احمد: رقم الحدیث: 15626)
3- سورۃ الکہف کا جہنم کے درمیان رکاوٹ بن جانا۔
حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کى حدیث:
حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے مروى ہے کہ آنحضرت صلى اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:"سورۃ الکہف کو توراۃ میں "الحائلہ" (حائل ہونے والى اور رکاوٹ بننے والى )کہا جاتا ہے، کیونکہ یہ سورۃ بھى اپنے پڑھنے والے اور آگ کے درمیان حائل اور رکاوٹ بن جائے گى۔
(شعب الإیمان للبیہقی: رقم الحدیث: 2223)
4- جس گھر میں سورۃ الکہف کى تلاوت ہو اس رات کو شیطان کا اس گھر میں داخل نہ ہو سکنا۔
حضرت عبد اللہ بن مغفل رضی اللہ عنہ کى حدیث:
آنحضرت صلى اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامى ہے: "جس گھر میں سورۃ الکہف یا سورۃ البقرۃ کى تلاوت کى جائے، تو اس رات کو اس گھر میں شیطان داخل نہیں ہوگا"۔
(طبرانی وابن مردویہ وابو الشیخ بحوالہ جمع الجوامع للسیوطی: رقم الحدیث: 10303)
خلاصہ بحث:
مذکورہ بالا تقریبا 22 احادیث سورۃ الکہف کى تلاوت کے متعدد فضائل پر مشتمل ہیں، ان میں سر فہرست وہ روایات ہیں، جن میں سورۃ الکہف کى تلاوت کو دجال اور فتنہ دجال سے حفاظت کا ذریعہ قرار دیا گیا ہے، ان میں سے وہ 5 روایات جن میں جمعہ کے دن کى تعیین نہیں کى گئى ہے، وہ "صحیح" ہیں، جبکہ وہ روایات جن میں جمعہ کے دن کى تعیین کى گئى ہے، ان میں سے حضرت ابو سعید خدرى رضی اللہ عنہ کى حدیث صحیح ہے، اگرچہ وہ موقوف ہے، لیکن محدثین نے ایسی احادیث کو بحکم مرفوع قرار دیا ہے۔
البتہ باقى 7 روایات پر محدثین نے کلام کیا ہے، اس وجہ سے وہ روایات اگرچہ ضعیف ہیں، لیکن جب ایک ہی مضمون کی ایک زائد روایات ضعیف ہوں، تو وہ روایات ایک دوسرے کی تقویت کا باعث ہوتی ہیں۔ مزید یہ کہ جب متعدد صحیح احادیث میں صرف دس آیات اور تین آیات کی تلاوت ہی کو دجال سے حفاظت کا ذریعہ قرار دیا گیا ہے، جب مکمل سورۃ الکہف کی تلاوت کی جائے گی، تو اس سے بدرجہ اولی دجال اور اس کے فتنے سے حفاظت کی قوی امید ہے۔

لہذا مذکورہ بالا تمام روایات اس بات کو واضح کر رہی ہیں سورۃ الکہف کی تلاوت بے شمار فضائل کے حصول کا ذریعہ ہیں نیز دجال اور اس کے فتنے سے حفاظت کا مؤثر ترین ذریعہ ہے۔
یہى وجہ ہے کہ تمام فقہاء ومحدثین ، علماء اور صوفیاء ومشائخ خاص طور پر جمعہ کے دن سورۃ الکہف کى تلاوت کو مستحب قرار دیتے، تاکہ اس کى تلاوت سے وہ بے شمار فضائل حاصل ہو سکیں جن کا بیان اوپر گذر چکا ہے اور سب سے بڑى فضیلت یہ کہ فتنہ دجال (جو اس کائنات کا سب سے بڑا فتنہ ہوگا اور جس فتنے سے ہر نبى نے پناہ مانگى ہے) اس فتنے حفاظت ہو سکے۔
اللّٰہ تعالیٰ ہم سب کو سورۃ الکہف کی تلاوت کا اہتمام نصیب فرمائے اور اس کے ذریعے دجال اور فتنہ دجال سے حفاظت فرمائیں آمین
ایک مفید مشورہ:
سوال یہ پیدا ہوتا ہےآخر وہ کیا راز ہے جس کى وجہ سے دجال اور فتنہ دجال سے بچاؤ کے لیے متعدد احادیث مبارکہ میں سورۃ الکہف کى تلاوت کى بار بار مختلف انداز میں تاکید کى گئى ہے؟ انہى سوالات کے جوابات کے لیے حضرت مولانا ابو الحسن على ندوى رحمہ اللہ کى مختصر کتاب "معرکہ ایمان ومادیت" تصنیف فرمائی ہے، اس کتاب کو ضرور ملاحظہ فرمائیں، ان شاء اللہ اس کتاب کے مطالعے سے اس سوال کا جواب حاصل ہونے میں مدد ملے گی۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تخريج الأحاديث الواردة في فضل سورة الكهف:

حديث أبي الدرداء رضي الله عنه
تخريج الحديث:

1- أخرجه مسلم في "صحيحه" 1/ 555 (809) باب فضل سورة الكهف وآية الكرسي، ط: دار إحياء التراث العربي، من طريق قَتَادَةَ، عَنْ سَالِمِ بْنِ أَبِي الْجَعْدِ الْغَطَفَانِيِّ، عَنْ مَعْدَانَ بْنِ أَبِي طَلْحَةَ الْيَعْمَرِيِّ، عَنْ أَبِي الدَّرْدَاءِ، أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: «مَنْ حَفِظَ عَشْرَ آيَاتٍ مِنْ أَوَّلِ سُورَةِ الْكَهْفِ عُصِمَ مِنَ الدَّجَّالِ». ومن طريق شُعْبَةَ وهَمَّامٍ، عَنْ قَتَادَةَ، بِهَذَا الْإِسْنَادِ، قَالَ شُعْبَةُ: مِنْ آخِرِ الْكَهْفِ، وقَالَ هَمَّامٌ: مِنْ أَوَّلِ الْكَهْفِ، كَمَا قَالَ هِشَامٌ.

2- وأخرجه الترمذي في "سنن" 5/ 162(2886) أبواب فضائل القرآن/ باب ما جاء في فضل سورة الكهف، ط: دار الغرب الإسلامي، من طريق شُعْبَةَ، عَنْ قَتَادَةَ، به، بلفظ: «مَنْ قَرَأَ ثَلَاثَ آيَاتٍ مِنْ أَوَّلِ الكَهْفِ عُصِمَ مِنْ فِتْنَةِ الدَّجَّالِ». وقال: «هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ».

3- وأخرجه أبو داود في "السنن" 4/ 117(4323) كتاب الملاحم/ باب خروج الدجال، ط: المكتبة العصرية، من طريق قَتَادَةَ، «مَنْ حَفِظَ عَشْرَ آيَاتٍ مِنْ أَوَّلِ سُورَةِ الْكَهْفِ، عُصِمَ مِنْ فِتْنَةِ الدَّجَّالِ» قَالَ أَبُو دَاوُدَ: وَكَذَا قَالَ هِشَامٌ الدَّسْتُوَائِيُّ، عَنْ قَتَادَةَ، إِلَّا أَنَّهُ قَالَ: «مَنْ حَفِظَ مِنْ خَوَاتِيمِ سُورَةِ الْكَهْفِ»، وَقَالَ شُعْبَةُ: عَنْ قَتَادَةَ «مِنْ آخِرِ الْكَهْفِ».

4- وأخرجه ابن أبي شيبة في "المسند" 1/ 50 (38) ط: دار الوطن-الرياض، كلفظ أبي داود في "السنن".

5- وأخرجه أحمد في "المسند" 36/ 43 (21712)، ط: مؤسسة الرسالة، من طريق، يزيد، عن همام، عن قتادة، به، كلفظ مسلم في "صحيحه". و 45/ 526(27540-27541)، من طريق رَوْحٍ، عَنْ سَعِيدٍ، عَنْ قَتَادَةَ، به، ومن طريق حسين في تفسير شيبان، عن قتادة، به، و 45/ 526( 27542 )، من طريق عبد الصمد وعفان، قالا حدثنا همام، عن قتادة، بهذا الإسناد، به
و45/ 508 (27516)، بطريقين، عن محمد بن جعفر، وحجاج، عن شعبة، عن قتادة، به، بلفظ: «مَنْ قَرَأَ عَشْرَ آيَاتٍ مِنْ آخِرِ الْكَهْفِ، عُصِمَ مِنْ فِتْنَةِ الدَّجَّالِ»، قَالَ حَجَّاجٌ: «مَنْ قَرَأَ الْعَشْرَ الْأَوَاخِرَ مِنْ سُورَةِ الْكَهْفِ».

6- وأخرجه حاكم في "المستدرك" 2/ 399 (3391) كتاب التفسير/ تفسير سورة الكهف، ط: دار الكتب العليمة، من طريق يَزِيدُ بْنُ هَارُونَ، عن، هَمَّامُ بْنُ يَحْيَى، عَنْ قَتَادَةَ، به، وقال: هَذَا حَدِيثٌ صَحِيحُ الْإِسْنَادِ وَلَمْ يُخْرِجَاهُ، ووافقه الذهبي في "التلخيص".

7- وأخرجه البيهقي في "شعب الإيمان" 4/ 85 (2219) فصل في فضل السور والآيات/ ذكر سورة الكهف، ط: مكتبة الرشد، بثلاثة طرق، عن أبي العباس محمد بن يعقوب، عن محمد بن إسحاق الصغاني، عن يزيد بن هارون، به.

8- وأخرجه ابن حبان في "صحيح" 3/ 65 (785) كتاب الرقائق/ باب قراءة القرآن/ ذكر الاعتصام من الدجال نعوذ بالله من شره بقراءة عشر آيات من سورة الكهف، ط: مؤسسة الرسالة، من طريق يَزِيدُ بْنُ زُرَيْعٍ، عَنْ سَعِيدٍ، عَنْ قَتَادَةَ، بهذا الإسناد، بلفظ: «مَنْ قَرَأَ عَشْرَ آيَاتٍ مِنْ سُورَةِ الْكَهْفِ عُصِمَ مِنْ فِتْنَةِ الدَّجَّالِ». و3/ 66 (786) كتاب الرقائق/ باب قراءة القرآن/ ذكر البيان بأن الآي التي يعتصم المرء بقراءتها من الدجال هي آخر سورة الكهف، من طريق مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ قَتَادَةَ، بهذا الإسناد، بلفظ: «مَنْ قَرَأَ عَشْرَ آيَاتٍ مِنْ آخِرِ الْكَهْفِ عُصِمَ مِنَ الدَّجَّالِ».

9- وأخرجه النسائي في "السنن الكبرى" 7/ 261 (7971) كتاب فضائل القرآن/ الكهف، ط: مؤسسة الرسالة، من طريق شُعْبَةُ، عَنْ قَتَادَةَ، بهذا الإسناد، بلفظ: «مَنْ قَرَأَ عَشْرَ آيَاتٍ مِنَ الْكَهْفِ عُصِمَ مِنْ فِتْنَةِ الدَّجَّالِ». و9/ 347 (10719)، ما يجير من الدجال وذكر اختلاف الناقلين للخبر في ذلك، به. و9/ 347 (10720) ما يجير من الدجال وذكر اختلاف الناقلين للخبر في ذلك، من طريق إِبْرَاهِيمَ بْنِ الْحَسَنِ، قَالَ: حَدَّثَنَا حَجَّاجٌ، قَالَ: أَخْبَرَنِي شُعْبَةُ، بهذا الإسناد، بلفظ: «مَنْ قَرَأَ الْعَشْرَ الْأَوَاخِرَ مِنَ الْكَهْفِ عُصِمَ مِنْ فِتْنَةِ الدَّجَّالِ».
و9/ 347 (10721) ما يجير من الدجال وذكر اختلاف الناقلين للخبر في ذلك، من طريق هَمَّامٍ، قَالَ: كَانَ قَتَادَةُ يُقَصُّ عَلَيْنَا بِهِ، حَدَّثَنَا سَالِمُ بْنُ أَبِي الْجَعْدِ، عَنْ حَدِيثِ مَعْدَانَ بْنِ أَبِي طَلْحَةَ، عَنْ حَدِيثِ أَبِي الدَّرْدَاءِ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: «مَنْ حَفِظَ عَشْرَ آيَاتٍ مِنْ أَوَّلِ سُورَةِ الْكَهْفِ عُصِمَ مِنْ فِتْنَةِ الدَّجَّالِ».

10- وأخرجه البيهقي في "السنن الكبرى" 3/ 354 (5997) كتاب الجمعة/ باب ما يؤمر به في ليلة الجمعة ويومها من كثرة الصلاة على رسول الله صلى الله عليه وسلم وقراءة سورة الكهف وغيرها، ط: دار الكتب العلمية، من طريق معاذ بن هشام، حدثني أبي، عن قتادة، به، بلفظ: " مَنْ حَفِظَ عَشْرَ آيَاتٍ مِنْ أَوَّلِ سُورَةِ الْكَهْفِ عُصِمَ مِنْ فِتْنَةِ الدَّجَّالِ ". وقال: رَوَاهُ مُسْلِمٌ فِي الصَّحِيحِ عَنْ أَبِي مُوسَى عَنْ مُعَاذٍ.

11- وأخرجه ابن ضريس في "فضائل القرآن" ص98 (209)، ط: دار الفكر-دمشق، باب في فضل سورة الكهف، كلفظ البيهقي في "السنن الكبرى".

12- وأخرجه أبو عوانة في "مستخرجه" 2/ 448 (3784-3780)، مبتدأ فضائل القرآن/ باب بيان ثواب قراءة ثلاث آيات، وتعلم آيتين وثلاث وأكثر...الخ، دار المعرفة-بيروت، بسبعة طرق، كنحو مسلم في صحيحه. وفيه: (مبتدأ فضائل القرآن/ ذكر نزول السكينة عند قراءة سورة الكهف وقراءة القرآن، وثواب قراءة سورة الكهف، 2/ 487، رقم الحديث: (3940)، ط: دار المعرفة-بيروت)
حَدَّثَنَا يُوسُفُ بْنُ مُسْلِمٍ، قَثَنَا حَجَّاجٌ، قَالَ: حَدَّثَنِي شُعْبَةُ، عَنْ قَتَادَةَ قَالَ: سَمِعْتُ سَالِمَ بْنَ أَبِي الْجَعْدِ، عَنْ مَعْدَانَ، عَنْ أَبِي الدَّرْدَاءِ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: «مَنْ قَرَأَ الْعَشْرَ الْأَوَاخِرَ مِنَ الْكَهْفِ عُصِمَ مِنْ فِتْنَةِ الدَّجَّالِ». و2/ 487 (3941) مبتدأ فضائل القرآن/ ذكر نزول السكينة عند قراءة سورة الكهف وقراءة القرآن، وثواب قراءة سورة الكهف، بلفظ: «مَنْ قَرَأَ عَشْرَ آيَاتٍ مِنْ أَوَّلِ سُورَةِ الْكَهْفِ عُصِمَ مِنْ فِتْنَةِ الدَّجَّالِ» وَقَالَ شُعْبَةُ: «مِنْ فِتْنَةِ الدَّجَّالِ، أَوْ مِنَ الدَّجَّالِ» قَالَ أَبُو عَوَانَةَ: هَؤُلَاءِ قَالُوا أَوَّلَ الْكَهْفِ، وَقَالَ شُعْبَةُ: آخِرَ الْكَهْفِ، وَاللَّهُ أَعْلَمُ.

13- وأخرجه ابن السني في "عمل اليوم والليلة" ص 625 (676) باب ما يستحب أن يقرأ في الليوم والليلة، ط: دار القبلة للثقافة- جدة/ بيروت، كنحو مسلم في صحيحه.

حكم الحديث:
الحدیث صحيح.


حديث ثوبان بن بجدد القرشي رضي الله عنه:
تخريج الحديث:

1- أخرجه النسائي في "السنن الكبرى" 9/ 347 (10718) ما يجير من الدجال، ط: مؤسسة الرسالة، من طريق شعبة، عن قَتَادَةَ، عَنْ سَالِمِ بْنِ أَبِي الْجَعْدِ، عَنْ مَعْدَانَ، عَنْ ثَوْبَانَ عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: «مَنْ قَرَأَ الْعَشْرَ الْأَوَاخِرَ مِنْ سُورَةِ الْكَهْفِ فَإِنَّهُ عِصْمَةٌ لَهُ مِنَ الدَّجَّالِ».

2- وأخرجه في "عمل اليوم والليلة" ص527 (948) ذكر اخْتِلَاف أَلْفَاظ الناقلين لخَبر ثَوْبَان فِيمَا يجير من الدَّجَّال، ط: دار القبلة للثقافة- جدة/ بيروت،.
والحديث ذكره الدارقطني في "أطراف الغرائب والأفراد" 1/293، رقم الحديث: (1544)، ط: دار الكتب العلمية-بيروت)، وقال: غريب من حديث عمرو بن مرة عن سالم بن أبي الجعد عنه، وغريب من حديث شعبة عن عمرو. وذكره ابن كثير في "التفسير" 9/ 100، سورة الكهف، ط: مؤسسة قرطبة، معزوا للنسائي في "الْيَوْم وَاللَّيْلَة"، وقال: فيحتمل أن سالما سمعه من ثوبان ومن أبي الدرداء. وذكره التويجري في "إتحاف الجماعة" 2/ 420، أبواب ما جاء في الدجال/ باب فيما يعصم من الدجال، وقال: رواه النسائي في "اليوم والليلة"، ورواته رواة الصحيح.

3- وأخرجه الروياني في "المسند" 1/ 404 (613)، ط: مؤسسة قرطبة، كلفظ النسائي.
ورواه أبو يعلى كما في "إتحاف الخيرة للبوصيري" 6/ 231 (5755 /1)، كتاب التفسير/ سورة الكهف وفضلها، ط: دار الوطن للنشر-الرياض، بلفظ: "مَنْ قَرَأَ بِعَشْرِ آيَاتٍ مِنْ آخِرِ سُورَةِ الْكَهْفِ عُصِمَ مِنَ الدَّجَّالِ".
وأخرجه الضياء المقدسي في "الأحاديث المختارة" للضياء المقدسي كما في جمع الجوامع للسيوطي 9/ 789 (22780)، ط: الأزهر الشريف- القاهرة، بلفط: "من قرأ العشر الأواخر من سورة الكهف عصم من فتنة الدجال".
ورمز السيوطي: أبو عبيد في فضائله، حم، م، ن، ص، حب عن أبي الدرداء بن الضريس، ن، ع، والروياني، ض عن ثوبان.

حكم الحديث: الحدیث صحيح.

حديث النواس بن سمعان الكلابي رضي الله عنه:
تخريج الحديث:

1- أخرجه مسلم في "صحيحه" 4/ 2250 (2937) كتاب الفتن وأشراط الساعة/ باب ذكر الدجال وصفته وما معه، ط: دار إحياء التراث العربي، من طريق عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنُ جُبَيْرٍ، عَنْ أَبِيهِ جُبَيْرِ بْنِ نُفَيْرٍ الْحَضْرَمِيِّ، أَنَّهُ سَمِعَ النَّوَّاسَ بْنَ سَمْعَانَ الْكِلَابِيَّ، ح وحَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ مِهْرَانَ الرَّازِيُّ - وَاللَّفْظُ لَهُ - حَدَّثَنَا الْوَلِيدُ بْنُ مُسْلِمٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ يَزِيدَ بْنِ جَابِرٍ، عَنْ يَحْيَى بْنِ جَابِرٍ الطَّائِيِّ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ جُبَيْرِ بْنِ نُفَيْرٍ، عَنْ أَبِيهِ جُبَيْرِ بْنِ نُفَيْرٍ، عَنِ النَّوَّاسِ بْنِ سَمْعَانَ، قَالَ: ذَكَرَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الدَّجَّالَ ذَاتَ غَدَاةٍ، فَخَفَّضَ فِيهِ وَرَفَّعَ، حَتَّى ظَنَنَّاهُ فِي طَائِفَةِ النَّخْلِ، فَلَمَّا رُحْنَا إِلَيْهِ عَرَفَ ذَلِكَ فِينَا، فَقَالَ: «مَا شَأْنُكُمْ؟» قُلْنَا: يَا رَسُولَ اللهِ ذَكَرْتَ الدَّجَّالَ غَدَاةً، فَخَفَّضْتَ فِيهِ وَرَفَّعْتَ، حَتَّى ظَنَنَّاهُ فِي طَائِفَةِ النَّخْلِ، فَقَالَ: «غَيْرُ الدَّجَّالِ أَخْوَفُنِي عَلَيْكُمْ، إِنْ يَخْرُجْ وَأَنَا فِيكُمْ، فَأَنَا حَجِيجُهُ دُونَكُمْ، وَإِنْ يَخْرُجْ وَلَسْتُ فِيكُمْ، فَامْرُؤٌ حَجِيجُ نَفْسِهِ وَاللهُ خَلِيفَتِي عَلَى كُلِّ مُسْلِمٍ، إِنَّهُ شَابٌّ قَطَطٌ، عَيْنُهُ طَافِئَةٌ، كَأَنِّي أُشَبِّهُهُ بِعَبْدِ الْعُزَّى بْنِ قَطَنٍ، فَمَنْ أَدْرَكَهُ مِنْكُمْ، فَلْيَقْرَأْ عَلَيْهِ فَوَاتِحَ سُورَةِ الْكَهْفِ...وذكر حديث طويلا.

2- وأخرجه أبو داود في "السنن" 4/ 117 (4321) كتاب الملاحم/ باب خروج الدجال، ط: المكتبة العصرية، من طريق الْوَلِيدِ، عن ابْنِ جَابِرٍ، به: بلفظ: قَالَ: ذَكَرَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الدَّجَّالَ، فَقَالَ:"...فَمَنْ أَدْرَكَهُ مِنْكُمْ فَلْيَقْرَأْ عَلَيْهِ فَوَاتِحَ سُورَةِ الْكَهْفِ، فَإِنَّهَا جِوَارُكُمْ مِنْ فِتْنَتِهِ»...إلى آخر الحديث.
وأخرجه الترمذي في "السنن" 4/ 510 (2240)، أبواب الفتن/ باب ما جاء في فتنة الدجال، ط: دار الغرب الإسلامي، وفيه: «فَمَنْ رَآهُ مِنْكُمْ فَلْيَقْرَأْ فَوَاتِحَ سُورَةِ أَصْحَابِ الكَهْفِ».

3- وأخرجه النسائى في "السنن الكبرى" 7/ 261 (7970) كتاب فضائل القرآن/ الكهف، ط: مؤسسة الرسالة، مختصرا، بلفظ: «مَنْ رَآهُ مِنْكُمْ فَلْيَقْرَأْ فَوَاتِحَ سُورَةِ الْكَهْفِ».

4- وأخرجه الحاكم في "المستدرك" 4/ 537(8508)، كتاب الفتن والملاحم/ أما حديث أبي عوانة، ط: دار الكتب العلمية، من طريق بِشْرِ بْنِ بَكْرٍ التِّنِّيسِيِّ،، بهذا الإسناد، حديثا طويلا، وقال الحاكم: هَذَا حَدِيثٌ صَحِيحٌ عَلَى شَرْطِ الشَّيْخَيْنِ، وَلَمْ يُخْرِجَاهُ، ووافقه الذهبي في "التلخيص".

5- وأخرجه حنبل بن إسحاق في "الفتن": (ص: 127، رقم الحديث: (29)، ط: دار البشائر الإسلامية) حدثنا الهيثم بن خارجة أبو أحمد المروزي، حدثنا عبد الله بن عبد الرحمن بن يزيد بن جابر، به ، وفيه: "فمن رآه منكم فليقرأ خواتم أصحاب الكهف».

حكم الحديث: الحدیث صحيح.

حديث أبي سعيد الخدري رضي الله عنه
تخريج الحديث:

حديث أبي سعيد الخدري رضي الله عنه قد روي بأسانيد مختلف في كثير من المصادر الحديثية، ومدار جميع الأسانيد على أبي هاشم الرماني، عن أبي مِجْلَز، عن قيس بن عباد، عن أبي سعيد. وقد وقع فيه على أبي هاشم اختلاف في إسناده، إذ روي عنه موقوفاً ومرفوعاً، واختلاف آخر في متنه، وتفصيل ذلك فيما يلي:
قد روى عن أبي هاشم الرماني ثلاثة من هشيم بن بشير، وسفيان الثوري، وشعبة بن الحجاج.

أما طريق هشيم بن بشير رحمه الله:
أخرجه: أبو عبيد القاسم بن سلام في "الفضائل" ص 244، من طريق هشيم، عن أبي هاشم، عن أبي مجلز، عن قيس بن عباد، عن أبي سعيد الخدري، قال: "من قرأ سورة الكهف يوم الجمعة، أضاء له من النور ما بينه وبين البيت العتيق". والدارمي في "السنن" 4/ 2143، (3450)، عن أبي النعمان السدوسي، عن هشيم، به، وفيه: "ليلة الجمعة" بدل "يوم الجمعة"، وابن الضريس، في "الفضائل" ص 99 (211)، عن أحمد بن خلف البغدادي، عن هشيم، بلفظ أبي عبيد، والبيهقي في "شعب الإيمان" 4/ 84 (2220)، من طريق سعيد بن منصور، عن هشيم، به. وقال: وهذا هو المحفوظ موقوف. وأخرجه الحاكم في "المستدرك" 2/ 399 (3392)، من طريق نُعَيْمِ بْنُ حَمَّادٍ، عن هُشَيْمٍ، به، مرفوعا، بلفط: "إِنَّ مَنْ قَرَأَ سُورَةَ الكَهْفِ يَوْمَ الجُمُعَةِ، أَضَاءَ لَهُ مِنَ النُّورِ مَا بَيْنَ الجُمُعَتَيْنِ". والبيهقي في "شعب الإيمان" 4/ 86 (2220)، من طريق يزيد بن خالد بن يزيد، عن هشيم، به، والدارقطني في "العلل" 11/ 308 (2301)، من طريق الحكم بن موسى، عن هشيم، به. وقال الحاكم: هذا حديث صحيح الإسناد ولم يخرجاه. وقال الذهبي في «التلخيص»: نعيم ذو مناكير. وقال ابن الملقن في «تحفة المحتاج» ١/ ٥٢٢: رواه الحاكم في مستدركه ثم قال: حديث صحيح، قلتُ: وفيه نُعيم بن حماد، وقد أخرج له البخاري، ووثَّقه أحمد وجماعة، وتكلَّم فيه غيرُهم.

وأما طريق سفيان الثوري رحمه الله:
أخرجه عبد الرزاق في "المصنف" 1/ 186، رقم الحديث: (730)، من طريق الثوري، عن أَبِي هَاشِمٍ الْوَاسِطِيِّ، عَنْ أَبِي مِجْلَزٍ، عَنْ قَيْسِ بْنِ عَبَّادٍ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ قَالَ: " مَنْ تَوَضَّأَ، ثُمَّ فَرَغَ مِنْ وُضُوئِهِ فَقَالَ: سُبْحَانَكَ اللَّهُمَّ وَبِحَمْدِكَ، أَشْهَدُ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ، أَسْتَغْفِرُكَ وَأَتُوبُ إِلَيْكَ، خُتِمَ عَلَيْهَا بِخَاتَمٍ ثُمَّ وُضِعَتْ تَحْتَ الْعَرْشِ، فَلَمْ تُكْسَرْ إِلَى يَوْمِ الْقِيَامَةِ، وَمَنْ قَرَأَ سُورَةَ الْكَهْفِ كَمَا أُنْزِلَتْ، ثُمَّ أَدْرَكَ الدَّجَّالَ لَمْ يُسَلَّطْ عَلَيْهِ وَلَمْ يَكُنْ لَهُ عَلَيْهِ سَبِيلٌ وَرُفِعَ لَهُ نُورٌ مِنْ حَيْثُ يَقْرَأُهَا إِلَى مَكَّةَ ". وأخرجه الطبراني في "الدعاء" 2/ 975 (391)، من طريق عبد الرزاق، عن الثوري، به، مقتصرا على الشطر الأول. وابن أبي شيبة في "المصنف" 1/ 231 (19)، من طريق وكيع، عن سفيان، به، مقتصرا على الشطر الأول، وأخرجه نعيم بن حماد في "الفتن" 2/ 563 (1579) من طريق وكيع، عن سفيان، به موقوفا، مقتصرا على الشطر الأخير، بلفظ: «من قرأ سورة الكهف كما أنزلت أضاء له ما بينه وبين مكة، ومن قرأ آخرها ثم أدرك الدجال لم يسلط عليه». وأخرجه نعيم بن حماد في "الفتن" 2/ 564 (1582)، والنسائي في "السنن الكبرى" من طريق عبد الرحمن بن مهدي، عن سفيان، به، والحاكم في "المستدرك"1/ 753 (2073)، و4/ 557 (8562)، من طريق عبد الرحمن بن مهدي، عن الثوري، به موقوفا، بلفظ: "من قرأ سورة الكهف كما أنزلت ثم أدرك الدجال لم يسلط عليه، ولم يكن له عليه سبيل، ومن قرأ سورة الكهف كان له نوراً من حيث قرأها ما بينه وبين مكة". وأخرجه البيهقي في "شعب الإيمان" 4/ 436 (2776)، من طريق قبيصة بن عقبة، حدثنا سفيان، عن أبي هاشم، عن أبي مجلز، عن قيس بن عباد، عن أبي سعيد الخدري، قال: "من قرأ سورة الكهف يوم الجمعة فأدرك الدجال لم يسلط عليه، أو قال: لم يضره ومن قرأ خاتمة سورة الكهف أضاء له نورا من حيث كان بينه وبين مكة " قال البيهقي رحمه الله: " وقد روينا في كتاب فضائل القرآن من حديث هشيم، عن أبي هاشم موقوفا ومرفوعا. وقال الحاكم: هذا حديث صحيح الإسناد، ولم يخرجاه.
قال الذهبي في "الميزان"5/ 465 (6867): "قبيصة بن عقبة ع الكوفي صاحب سفيان الثوري صدوق جليل قال ابن معين هو ثقة إلا في حديث الثوري وقال أحمد كثير الغلط وكان ثقة صالحا لا بأس به وقال ابن معين ليس بذاك القوي وقال ثقة في كل شيء إلا في سفيان وسئل أبو زرعة عن أبي نعيم وقبيصة فقال قبيصة أفضل الرجلين وأبو نعيم أوثقهما وقال أبو حاتم لم أر من المحدثين من يحفظ ويأتي بالحديث على لفظه لا يغيره سوى قبيصة وأبي نعيم في حديث سفيان وسوى يحيى الحماني في حديث شريك وعلى بن الجعد في حديثه وقال إسحاق بن سيار ما رأيت شيخا أحفظ من قبيصة وقال ابن القطان يروي عبد الحق في أحكامه لقبيصة ولا يعرض له وهو عندهم كثير الخطأ قلت بل هو محتج به عندهم موثق مع وجود غلطه".
وقال السيوطي في "تدريب الراوي" 1/ 286: ط(ومذهب الجمهور من الفقهاء والمحدثين قبولها مطلقا) ، سواء وقعت ممن رواه أولا ناقصا أم من غيره، وسواء تعلق بها حكم شرعي أم لا، وسواء غيرت الحكم الثابت أم لا، وسواء أوجبت نقض أحكام ثبتت بخبر ليست هي فيه أم لا، وقد ادعى ابن طاهر الاتفاق على هذا القول".

وأما طريق شعبة بن الحجاج رحمه الله:
أخرجه النسائي في "السنن الكبرى" 9/ 348 (10723)، من طريق محمد، عن شبعة، عَنْ أَبِي هَاشِمِ، قَالَ: سَمِعْتُ أَبَا مِجْلَزٍ يُحَدِّثُ عَنْ قَيْسِ بْنِ عُبَادٍ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ، نَحْوَهُ (مَنْ قَرَأَ سُورَةَ الْكَهْفِ كَمَا أُنْزِلَتْ كَانَتْ لَهُ نُورًا مِنْ مَقَامِهِ إِلَى مَكَّةَ) وَلَمْ يَرْفَعْهُ، وَقَالَ: "مِنْ حَيْثُ يَقْرَؤُهُ إِلَى مَكَّةَ" وَقَالَ: "مَنْ قَرَأَ آخِرَ الْكَهْفِ". وأخرجه الطبراني في "الدعاء" 2/ 975 (391) من طريق عمرو بن مرزوق، عن شعبة، به، موقوفا، بلفظ: "من قال إذا توضأ: بسم الله، وإذا فرغ قال: سبحانك اللهم وبحمدك أشهد أن لا إله إلا أنت أستغفرك وأتوب إليك، طبع عليها بطابع، ثم وضعت تحت العرش، فلم تكسر إلى يوم القيامة". وأخرجه البيهقي في "شعب الإيمان" 4/ 269 (2499)، معلقا، من طريق معاذ بن معاذ، عن شعبة، به موقوفا بلفظ: "من قرأ سورة الكهف كما أنزلت كانت له نورا من حيث قرأها إلى مكة، ومن قال إذا توضأ سبحانك اللهم وبحمدك، أشهد أن لا إله إلا أنت أستغفرك وأتوب إليك، طبع بطابع، ثم جعلت تحت العرش حتى يؤتى بصاحبها يوم القيامة". وأخرجه النسائى في "السنن الكبرى" 9/ 348 (10722)، من طريق يَحْيَى بْنُ كَثِيرٍ أَبي غَسَّانَ، قَالَ: حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، قَالَ: حَدَّثَنَا أَبُو هَاشِمٍ، عَنْ أَبِي مِجْلَزٍ، عَنْ قَيْسِ بْنِ عُبَادٍ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ، أَنَّ نَبِيَّ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: "مَنْ قَرَأَ سُورَةَ الْكَهْفِ كَمَا أُنْزِلَتْ كَانَتْ لَهُ نُورًا مِنْ مَقَامِهِ إِلَى مَكَّةَ، وَمَنْ قَرَأَ بِعَشْرِ آيَاتٍ مِنْ آخِرِهَا فَخَرَجَ الدَّجَّالُ لَمْ يُسَلَّطْ عَلَيْهِ". وأخرجه الطبراني في "المعجم الأوسط" 2/ 123 (1455) من طريق يحيى بن كثير، عن شعبة، به، مرفوعا بلفظ: «مَنْ قَرَأَ سُورَةَ الْكَهْفِ كَانَتْ لَهُ نُورًا يَوْمَ الْقِيَامَةِ مِنْ مَقَامِهِ إِلَى مَكَّةَ، وَمَنْ قَرَأَ بِعَشْرِ آيَاتٍ مِنْ آخِرِهَا، ثُمَّ خَرَجَ الدَّجَّالُ لَمْ يَضُرَّهُ، وَمَنْ تَوَضَّأَ، فَقَالَ: سُبْحَانَكَ اللَّهُمَّ وَبِحَمْدِكَ، لَا إِلَهَ إِلَّا أَنْتَ، أَسْتَغْفِرُكَ وَأَتُوبُ إِلَيْكَ، كُتِبَ فِي رَقٍّ، ثُمَّ جُعِلَتْ فِي طَابَعٍ، فَلَمْ يُكْسَرْ إِلَى يَوْمِ الْقِيَامَةِ». وقال الطبراني: لَمْ يَرْوِ هَذَا الْحَدِيثَ مَرْفُوعًا عَنْ شُعْبَةَ إِلَّا يَحْيَى بْنُ كَثِيرٍ. وأخرجه الحاكم في "المستدرك" 1/ 752 (2072)، من طريق يَحْيَى بْنُ كَثِيرٍ، عن شعبة، به. كلفظ الطبراني، وأخرجه البيهقي في "شعب الإيمان" 4/ 86 (2221)، من طريق يحيى بن كثير، عن شعبة، به، مرفوعا، بلفظ: "من قرأ سورة الكهف كما أنزلت كانت له نورا يوم القيامة". و 4/ 268 (2499)، من طريق حدثنا يحيى بن كثير وعبد الصمد، عن شعبة، به، مرفوعا بلفظ: "من قرأ سورة الكهف كما أنزلت كانت له نورا من حيث قرأها إلى مكة، ومن قال إذا توضأ سبحانك اللهم وبحمدك، أشهد أن لا إله إلا أنت أستغفرك وأتوب إليك، طبع بطابع، ثم جعلت تحت العرش حتى يؤتى بصاحبها يوم القيامة". وقال الحاكم: هَذَا حَدِيثٌ صَحِيحٌ عَلَى شَرْطِ مُسْلِمٍ وَلَمْ يُخَرِّجَاهُ ". وَرَوَاهُ سُفْيَانُ الثَّوْرِيُّ، عَنْ أَبِي هَاشِمٍ فَأَوْقَفَهُ.

حكم الحديث:
هذا الحديث قد روي مرفوعا وموقوفا، والمحفوظ وقفه، وقال الذهبي في "المهذب في اختصار السنن" 3/ 1180، وقفه أصح. وقال الحافظ في "نتائج الأفكار" 5/ 37: أما قراءة سورة الكهف فأقوى ما ورد فيها حديث أبي سعيد. ثم ذكر الحديث بإسناده، عن يزيد بن مخلد، وعن نعيم بن حماد، عن هشيم، عن أبي هاشم، به، مرفوعا، بلفظ: "من قرأ سورة الكهف يوم الجمعة أضاء له ما بينه وبين البيت العتيق"، وقال هذا لفظ يزيد، وفي رواية نعيم: "أضاء له من النور ما بين الجمعتين". وقال: واختلف على هشيم في رفعه ووقفه، والذين وقفوه عنه أكثر وأحفظ، لكن له مع ذلك حكم المرفوع، إذ لا مجال للرأي فيه. ثم ذكر رواية شعبة، به، وقال في آخره: ورجال الموقوف في هذه الطرق كلها أتقن من رجال المرفوع. فالحاصل: أن المحفوظ في الحديث وقفه على أبي سعيد رضي الله عنه بدون ذكر الجمعة فيه، وزيادة يوم الجمعة في طريق قبيصة شاذة. والله تعالى أعلم بالصواب. والحديث أخرجه النسائي في "السنن الكبرى" ٩/ ٣٦ (٩٨٢٩) كتاب عمل اليوم والليلة/ ما يقول إذا فرغ من وضوئه، من طريق شُعْبَةَ، قَالَ: حَدَّثَنَا أَبُو هَاشِمٍ، عَنْ أَبِي مِجْلَزٍ، عَنْ قَيْسِ بْنِ عُبَادٍ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ، عَنِ النَّبِيِّ ﷺ قَالَ: «مَنْ تَوَضَّأَ فَقَالَ: سُبْحَانَكَ اللَّهُمَّ وَبِحَمْدِكَ، أَشْهَدُ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا أَنْتَ، أَسْتَغْفِرُكَ وَأَتُوبُ إِلَيْكَ، كُتِبَ فِي رَقٍّ، ثُمَّ طُبِعَ بِطَابِعٍ، فَلَمْ يُكْسَرْ إِلَى يَوْمِ الْقِيَامَةِ». وقال: هذا خطأ، والصواب موقوفٌ، خالفه محمد بن جعفر فوقفه.وأخرجه الحافظ في «نتائج الأفكار» ١/ ٢٤٤ ونقل كلام النسائي هذا، ثم نقل عن الطبراني قوله: «لم يروه عن شعبة مرفوعا إلا يحيى بن كثير». وقال: «قلتُ: وهو ثقة من رجال الصحيحين، وكذا من فوقه إلى الصحابي، وأما شيخ النسائي فهو ثقة أيضاً من شيوخ البخاري، ولم يَنْفَرد به، فقد أخرجه الحاكم من وجه آخر عن يحيى بن كثير، فالسند صحيح بلا ريب. وإنما اختلف في رفع المتن ووقفه، فالنسائي جرى على طريقته في الترجيح بالأكثر والأحفظ، فلذلك حكم عليه بالخطأ. وأمَّا على طريقة المصنف تبعاً لابن الصلاح وغيره فالرفع عندهم مقدم، لما مع الرافع من زيادة العلم. وعلى تقدير العمل بالطريقة الأخرى فهذا مما لا مجال للرأي فيه، فله حكم الرفع، والله أعلم». وقال الشيخ الألباني في "السلسلة الصحيحة" 6/ 312، رقم الحديث: (2651): خلاصة القول: إن الحديث صحيح، لأنه وإن كان الأرجح سندا الوقف، فلا يخفى أن مثله لا يقال بالرأي، فله حكم الرفع. والله أعلم.

شاهده حدیث أبي سعيد رضي الله عنه من حديث أبي هريرة رضي الله عنه:
1- أخرجه المستغفري في "فضائل القرآن" 2/ 561 (815) باب ما جاء في فضل سورة الكهف، ط: دار ابن حزم، من طريق محمد بن جحادة، عن أبي صالح، عن أبي هريرة رضي الله عنه قال: قَالَ رَسُولُ اللهِ ﷺ: «مَنْ قَرَأَ سُورَةَ الكَهْفِ يَوْمَ الجُمُعَةِ أَوْ لَيْلَةَ الجُمُعَةِ، وَكَّلَ اللهُ تَعَالَى بِهِ سَبْعِينَ أَلْفَ مَلَكٍ يُصَلُّونَ عَلَيْهِ، وَيَسْتَغْفِرُونَ لَهُ، وَكَانَتْ لَهُ نُورًا سَاطِعًا مِنْ حِينِ يَتْلُوهَا إِلَى مَكَّةَ».

وشاهده من حديث عبد الله بن عمر رضي الله عنهما:
1- أخرجه الضياء المقدسي في "السنن والأحكام" 2/ 389 (٢٣٠٣)كتاب الجمعة/ باب في فضل قراءة سورة الكهف يوم الجمعة، ط: دار ماجد عسيري، من طريق أبي بكر أحمد بن موسى بن مردويه، بإسناده إلى محمد بن خالد البصري، ثنا خالد بن سعيد بن أبي مريم، عن نافع، عن ابن عمر، قال: قال: رسول الله ﷺ: «مَنْ قَرَأَ سُورَةَ الكَهْفِ فِي يَوْمِ الجُمُعَةِ، سُطِعَ لَهُ نُورٌ مِنْ تَحْتِ قَدَمِهِ إِلَى عَنَانِ السَّمَاءِ، يُضِيءُ بِهِ يَوْمَ القِيَامَةِ، وَغُفِرَ لَهُ مَا بَيْنَ الجُمُعَتَيْنِ»، وقال الحافظ في «نتائج الأفكار» ٥/ ٤١ بعد أن أورد الحديث: هكذا أخرجه الضياء في «المختارة»، ومقتضاه أنه عنده حسن، وفيه نظر، وكذا ذكر المنذري في «الترغيب» أنه لا بأس بإسناده، فإما خفي عليهما حال خالد بن محمد، فقد تكلم فيه ابن منده، وإما مشياه لشواهده.
كذا عزاه الحافظ إلى الضياء في «المختارة» ولم نجده إلا في كتابه: «السنن والأحكام». ويؤيدنا قول ابن الملقن في «تحفة المحتاج» ١/ ٥٢٣ (٦٥٩): «رواه الضياء في «أحكامه» من حديث ابن مردويه أحمد بن موسى بسند فيه من لا أعرفه»، انتهى. قال ابن كثير في «تفسيره» ٩/ ١٠٠: وروى الحافظ أبو بكر بن مردويه بإسناد له غريب، عن خالد بن سعيد بن أبي مريم ... الحديث، ثم قال: وهذا الحديث في رفعه نظر، وأحسن أحواله الوقف.

وشاهده من حديث جابر بن عبد الله رضي الله عنه:
1- أخرجه السجزي في "السبعيات" كما في جوامع الكلم ص١٤(١٨) الجزء الثاني، من طريق علي بن محمد المخزومي، عن سفيان بن عيينة، عن محمد بن المنكدر، عن جابر بن عبد الله، وفي آخره: «وَمَنْ قَرَأَ لَيْلَةَ الجُمُعَةِ الكَهْفَ غَفَرَ اللهُ لَهُ مِنَ الجُمُعَةِ إِلَى الجُمُعَةِ»، وقال: علي بن محمد المخزومي لا يعرف.

حديث أم المؤمنين عائشة رضي الله تعالى عنها:
تخريج الحديث:


1- أخرجه أبو عبيد مجاعة بن الزبير في "الجزء" ص 54 (20،21،22)، ط: دار البشائر الإسلامية، من طريق قَتَادَةَ، عَنْ زُرَارَةَ بْنِ أَوْفَى، عَنْ سَعْدِ بْنِ هِشَامٍ، قَالَ: عَبْدُ اللَّهِ بْنُ رُشَيْدٍ أَظُنُّهُ عَنْ عَائِشَةَ، قَالَتْ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "مَنْ قَرَأَ مِنْ سُورَةِ الْكَهْفِ عَشْرَ آيَاتٍ عِنْدَ مَنَامِهِ عُصِمَ مِنْ فِتْنَةِ الدَّجَّالِ وَمَنْ قَرَأَ خَاتِمَتَهَا عِنْدَ رُقَادِهِ كَانَ لَهُ نُورًا مِنْ لَدُنِ قَرْنِهِ إِلَى قَدَمِهِ يَوْمَ الْقِيَامَةِ".

2- وأخرجه المستغفري في "فضائل القرآن" 2/ 566(827-828) باب ما جاء في خواتيم سورة الكهف، ط: دار ابن حزم، من طريق أبي عبيدة عن قتادة، به.

3- وأخرجه ابن مردويه عن عائشة كما في "جمع الجوامع للسيوطي" 9/ 791 (22782)، بلفظ: "مَنْ قَرَأَ مِنْ سُورَةِ الكَهْفِ عَشْرَ آيَاتٍ عِنْدَ مَنَامِهِ، عُصِمَ مِنْ فِتْنَةِ الدَّجَّالِ، وَمَنْ قَرَأَ خَاتِمَتَهَا عِنْدَ رُقَادِهِ، كَانَ لَهُ نُورًا مِنْ لَدُنْ قَرْنِهِ إِلَى قَدَمِهِ يَوْمَ القِيَامَةِ". ورمز السيوطي: ابن مردويه عن عائشة.

4- وأخرجه الشجري في "ترتيب الأمالي الخميسية" 1/ 138 (496) سورة الكهف، ط: دار الكتب العلمية، من طريق مُحَمَّدِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ هِشَامِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عِكْرِمَةَ الْمَخْزُومِيِّ، قَالَ: حَدَّثَنِي أَبِي، عَنْ هِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَائِشَةَ، قَالَتْ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَآلِهِ وَسَلَّمَ: «أَلَا أُحَدِّثُكُمْ بِسُورَةٍ مَلَأَ عَظَمَتُهَا مَا بَيْنَ السَّمَاءِ وَالْأَرْضِ وَلِكَاتِبِهَا مِنَ الْأَجْرِ مِثْلُ ذَلِكَ، وَمَنْ قَرَأَهَا يَوْمَ الْجُمُعَةِ غُفِرَ لَهُ مَا بَيْنَهُ وَبَيْنَ الْجُمُعَةِ الْأُخْرَى وَزِيَادَةُ ثَلَاثَةِ أَيَّامٍ، وَمَنْ قَرَأَ الْخَمْسَ الْأَوَاخِرَ مِنْهَا عِنْدَ نَوْمِهِ بَعَثَهُ اللَّهُ أَيَّ اللَّيْلَ شَاءَ؟» ، قَالُوا: بَلَى يَا رَسُولَ اللَّهِ، قَالَ: «سُورَةُ أَصْحَابِ الْكَهْفِ».

5- وأخرجه ابن مردويه في "التفسير" كما في الدر المنثور للسيوطي: 9/ 477، ط: مركز هجر للبحوث، عن عائشة قالت : قال رسول الله صلى الله عليه وسلم : "ألا أخبركم بسورة ملأ عظمتها ما بين السماء والأرض ولكاتبها من الأجر مثل ذلك ومن قرأها يوم الجمعة غفر له ما بينه وبين الجمعة الأخرى وزيادة ثلاثة أيام ومن قرأ العشر الأواخر منها عند نومه بعثه الله أي الليل شاء؟" قالوا : بلى يا رسول الله ، قال : "سورة أصحاب الكهف".

حكم الحديث:
قال ابن عدي في "الكامل" 10/ 26، (1909) في ترجمة مجاعة بن الزبير الأزدي البصري: ومجاعة بن الزبير هذا يروي عنه من ذكرت من الرواة...وهو ممن يحتمل ويكتب حديثه.
قال الحافظ في "لسان الميزان" 6/ 463، رقم (6308): مُجَّاعَة بن الزبير. عن محمد بن سيرين وقتادة. قال أحمد: لم يكن به بأس في نفسه. وضعفه الدارقطني. وقال ابن عَدِي: هو ممن يحتمل ويكتب حديثه. قلت: روى عنه شعبة وعبد الصمد التنوري وعبد الله بن رشيد. وقال شعبة: كان صواما قواما. انتهى. وذكره العقيلي في الضعفاء ونقل قول شعبة: أنه كان صواما قواما ثم نقل، عَن عَبد الصمد بن عبد الوارث أن مُجَّاعَة كان جار شعبة وكان من العرب فكان شعبة لا يجترىء عليه فإذا سئل عنه قال: كثير الصوم والصلاة. وقال ابن خراش: ليس مما يعتبر به. وذكره ابن حبان في "الثقات" 7/ 517، رقم (11255)، ط: دائرة المعارف العثمانية حيدر آباد-الدكن الهند: مجاعة بن الزبير العتكي أبو عبيدة من أهل جندى سابور يروي عن الحسن وابن سيرين وقتادة روى عنه عبد الله بن رشيد وأهل بلده مستقيم الحديث عن الثقات.

والحديث الثانی ذكره ابن عراق الكناني في "تنزيه الشريعة" 1/ 302 (69)، كتاب فضائل القرآن/ الفصل الثالث، عن عائشة معزوا لابن مردويه في "تفسيره" وقال: أخرجه ابن مردويه في تفسيره بسند ضعيف.

حديث علي بن أبي طالب و زيد بن خالد الجهني رضي الله عنهما:
تخريج الحديث:

1- أخرجه الضياء المقدسي في "الأحاديث المختارة" 2/ 49، (430)، ط: دار خضر للطباعة، من طريق أَحْمَدَ بْنِ مُوسَى بْنِ مَرْدَوَيْهِ الْحَافِظِ، قال: ثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ أَحْمَدَ بْنِ الْحَسَنِ بن إِسْحَاق ثَنَا إِبْرَاهِيم بن عبد الله بْنِ أَيُّوبَ ثَنَا سَعِيدُ بْنُ مُحَمَّدٍ الْجَرْمِيُّ ثَنَا عبد الله بْنُ مُصْعَبِ بْنِ مَنْظُورِ بْنِ زَيْدِ بْنِ خَالِدٍ الْجُهَنِيُّ أَبُو ذُؤَيْبٍ عَنْ أَبِيهِ عَنْ جَدِّهِ عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّه عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَحَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ الْحُسَيْنِ عَنْ أَبِيهِ عَنْ عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "مَنْ قَرَأَ سُورَةَ الْكَهْفِ يَوْمَ الْجُمُعَةِ فَهُوَ مَعْصُومٌ إِلَى ثَمَانِيَةِ أَيَّامٍ مِنْ كُلِّ فِتْنَةٍ تكون فَإِن خرج الدَّجَّال عصم مِنْهُ". قال الضياء المقدسي: عبد الله بْنُ مُصْعَبٍ لَمْ يَذْكُرْهُ الْبُخَارِيُّ وَلا ابْنُ أَبِي حَاتِمٍ فِي كِتَابَيْهِمَا.

2- وأخرجه أبو الفضل الزهري في "حديث أبي الفضل الزهري" ص 174 (127)، ط: أضواء السلف- الرياض، من طريق إِبْرَاهِيمَ، قال: نا سَعِيدُ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ سَعِيدٍ الْجَرْمِيُّ أَبُو مُحَمَّدٍ الْكُوفِيُّ، بهذا الإسناد، به.

3- وأخرجه الواحدي في "الوسيط" 3/ 135(562) سورة الكهف، ط: دار الكتب العلمية، مقتصرا على طريق زيد بن خالد الجهني رضي الله عنه، من طريق أبي الفضل الزهري، بهذا الإسناد، مرفوعا، كلفظه السابق، وفيه "ستة أيام" بدل "ثمانية أيام".

4- وأخرجه ابن مردويه والضياء المقدسي في "الأحاديث المختارة" كما في الدر المنثور للسيوطي: 9/ 475 سورة الكهف، ط: مركز هجر للبحوث، مرفوعا كلفظ الضياء المقدسي في (430) مقتصرا على طريق علي رضي الله عنه.

5- وأخرجه الضياء المقدسي في "الأحاديث المختارة" 2/ 49 (429)، ط: دار خضر، موقوفا، مقتصرا على طريق علي رضي الله عنه، من طريق أبي الفضل عبيد الله بن عبد الرَّحْمَن الزُّهْرِيِّ، بهذا الإسناد. وقال المقدسي: فِي إِسْنَاده من لم أَقف لَهُ على تَرْجَمَة.

حكم الحديث:
الحدیث ضعيف بإسناده. قال الحافظ في "نتائج الأفكار" 5/ 40: وفي الباب عن علي بن أبي طالب وزيد بن خالد أخرجهما ابن مردويه بسند ضعيف.

حديث عبد الله بن عباس رضي الله عنهما:
تخريج الحديث:

1- أخرجه أبو الشيخ في "الثواب" في نتائج الأفكار: 5/ 41، ط: دار ابن كثير، من طريق سوار، عن سعيد بن جبير، عن ابن عباس رضي الله عنهما، عن النبي صلى الله عليه وسلم قال: "مَنْ قَرَأَهَا فِي لَيْلَةِ الْجُمُعَةِ كَانَ لَهُ نُورٌ كَمَا بَيْنَ صَنْعَاءَ وَبُصْرَى، وَمَنْ قَرَأَهَا فِي يَوْمِ الجُمُعَةِ قَدَّمَ أَوْ أَخَّرَ حُفِظَ إِلَى الجُمُعَةِ الأُخْرَى، فَإِنْ خَرَجَ الدَّجَّالُ فِيمَا بَيْنَهُمَا لَمْ يَضُرَّهُ".

ومن رواية أبي الشيخ في "كتاب الثواب" ذكره السيوطي في "جمع الجوامع" 9 /789 (22778)، ط: الأزهر الشريف- القاهرة، بلفظ: "مَنْ قَرَأَ عَشْرَ آيَاتٍ مِنْ سُورَةِ الكَهْفِ مُلِئَ مِنْ قَرْنِهِ إِلَى قَدَمِهِ إِيمَانًا، وَمَنْ قَرَأَهَا فِي لَيلَةِ جُمُعَةٍ ... الخ".

حكم الحديث:
الحدیث ضعيف بإسناده. قال الحافظ في "النتائج": وسوار ضعيف جدا.

حديث عبد الله بن عباس وأبي هريرة رضي الله عنهم:
تخريج الحديث:

1- أخرجه الديلمي في "مسند الفردوس" كما في ذيل اللآلئ للسيوطي 1/ 131 (149) كتاب فضائل القرآن، من طريق إِسْمَاعِيْلَ بْنُ أَبِيْ زِياَدٍ، عَنِ ابْنِ جُرَيْجٍ، عَنْ عَطَاءٍ، عَنْ أَبِيْ هُرَيْرَةَ وَعَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ مَرْفُوْعًا: «مَنْ قَرَأَ سُوْرَةَ الْكَهْفِ لَيْلَةَ الْجُمُعَةِ أُعْطِيَ نُوْرًا مِنْ حَيْثُ قَرَأَهَا إِلَى مَكَّةَ، وَغُفِرَ لَهُ إِلَى الْجُمُعَةِ الأُخْرَى وَفَضْلِ ثَلَاثَةِ أَيَّامٍ، وَصَلَّى عَلَيْهِ سَبْعُوْنَ أَلْفَ مَلَكٍ حَتَّى يُصْبَحَ، وَعُوْفِيَ مِنَ الدَّاءِ وَالدُّبَيْلَةِ وَذَاتِ الْجَنْبِ وَالْبَرَصِ وَالْجُذَامِ وَالْجُنُونِ وَفِتْنَةِ الدَّجَّالِ».

2- وأخرجه المستغفري في "فضائل القرآن" 2/ 562 (818) السادس عشر من فضائل القرآن/ باب ما جاء في فضل سورة الكهف، ط: دار ابن حزم، من طريق إسماعيل، به.

حكم الحديث:
الحدیث موضوع. قال السيوطي: إسماعيل كذاب، والحسين وإبراهيم مجروحان. وذكره الكناني في «تنزيه الشريعة» 1/ 302 ، وقال: أورده الغزالي في الإحياء من حديث ابن عباس وأبي هريرة، وعزاه العراقي في «تخريجه الكبير» إلى الديلمي من حديث ابن عباس، وأعله بمن ذكر، وأما في الصغير فقال: لم أجده من حديثهما. وأورده ابن حجر في «نتائج الأفكار» 5/ 44 معزوا إلى إسماعيل بن أبي زياد في «تفسيره» وقال: وأخرجه الديلمي في «مسند الفردوس» من هذا الوجه، وإسماعيل متروك، وقد كذبه جماعة منهم الدارقطني. وذكره طاهر الفتني في "تذكرة الموضوعات" ص: 78، وقال: فيه إسماعيل كذاب وآخران مجروحان.

حديث أبي عتبة الحمصي رحمه الله:
تخريج الحديث:

1- أخرجه الشجري في "ترتيب الأمالي الخميسية"1/ 94، في القرآن الكريم وفضله وما يتصل بذلك/ سورة الكهف، ط: دار الكتب العلمية، من طريق مُحَمَّدِ بْنِ عَلِيٍّ، قَالَ: حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ، قَالَ: أَخْبَرَنَا يُوسُفُ، عَنْ شَيْبَانَ، قَالَ: حَدَّثَنِي مُسْلِمُ بْنُ مَالِكٍ، عَنْ أَبِي عُتْبَةَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَآلِهِ وَسَلَّمَ: "مَنْ قَرَأَ سُورَةَ الْكَهْفِ يَوْمَ الْجُمُعَةِ، غُفِرَ لَهُ مِنَ الْجُمُعَةِ إِلَى الْجُمُعَةِ وَزِيَادَةُ ثَلَاثَةِ أَيَّامٍ، وَأُعْطِيَ نُورًا يَبْلُغُ إِلَى السَّمَاءِ وَوُقِيَ فِتْنَةَ الدَّجَّالِ. وَمَنْ قَرَأَ خَمْسَ آيَاتٍ مِنْ آخِرِ سُورَةِ الْكَهْفِ حِينَ يَأْخُذُ مَضْجَعَهُ مِنْ فِرَاشِهِ تَحْفَظُهُ وَيَبْعَثَهُ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ أَيَّ اللَّيْلِ شَاءَ".

حكم الحديث:
لم يتكلم على هذا الحديث أحد من المحدثين. ولا نقول فيه إلا ما قال ابن عراق الكناني في "تنزيه الشريعة" 1/ 301 (69) كتاب فضائل القرآن/ الفصل الثالث: وقد صح الحديث في العصمة من الدجال بحفظ بعض سورة الكهف من غير تقييد بيوم الجمعة. رواه مسلم من حديث أبي الدرداء فالمستنكر من الحديث ما سوى ذلك والله تعالى أعلم.

حديث إسماعيل بن رافع رحمه الله
تخريج الحديث:

1- أخرجه ابن ضريس في "فضائل القرآن " ص 96 (203) باب في فضل سورة الكهف، ط: دار الفكر، دمشق – سورية، من طريق يَزِيدَ بْنِ عَبْدِ الْعَزِيزِ الطَّيَالِسِيِّ، عن إِسْمَاعِيلَ بْنِ عَيَّاشٍ، عَنِ إِسْمَاعِيلَ بْنِ رَافِعٍ، قَالَ: " بَلَغَنَا أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: "أَلَا أُخْبِرُكُمْ بِسُورَةٍ مَلَأَ عَظَمَتُهَا مَا بَيْنَ السَّمَاءِ وَالْأَرْضِ، شَيَّعَهَا سَبْعُونَ أَلْفِ مَلَكٍ؟ . سُورَةُ الْكَهْفِ مَنْ قَرَأَهَا يَوْمَ الْجُمُعَةِ غَفَرَ اللَّهُ لَهُ بِهَا إِلَى الْجُمُعَةِ الْأُخْرَى، وَزِيَادَةٌ ثَلَاثَةُ أَيَّامٍ بَعْدَهَا، وَأُعْطِيَ نُورًا يَبْلُغُ إِلَى السَّمَاءِ، وَوُقِيَ مِنْ فِتْنَةِ الدَّجَّالِ، وَمَنْ قَرَأَ الْخَمْسَ آيَاتٍ مِنْ خَاتِمَتِهَا حِينَ يَأْخُذُ مَضْجَعَهُ مِنْ فِرَاشِهِ، حَفِظَهُ وَبُعِثَ مِنْ أَيِّ اللَّيْلِ شَاءَ".

حكم الحديث:
أخرجه الحافظ في «نتائج الأفكار» 5/ 42 كتاب الأذكار في صلوات مخصوصة، وقال: هذا سند معضل، لأن إسماعيل بن رافع من أتباع التابعين. وخبره هذا شاهد لحديث عائشة، لأنه يوافقه في أكثر ألفاظه، فلعل راويه هو الذي بلغ إسماعيل.
وقال الحافظ في "التقريب" ص: 107 طبعة دار الرشيد-سوريا: إسماعيل بن رافع بن عويمر الأنصاري، المدني، القاص، نزيل البصرة، يكنى أبا رافع، ضعيف الحفظ، من السابعة مات في حدود الخمسين بخ ت ق.

الأحاديث الأخرى في فضل سورة الكهف:
حديث البراء بن عازب رضي الله عنه:

أخرجه البخاري في "صحيحه" 4/ 201 (3614) كتاب المناقب/ باب علامات النبوة في الإسلام، دار طوق النجاة، من طريق شُعْبَةَ، عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ، سَمِعْتُ البَرَاءَ بْنَ عَازِبٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، قَرَأَ رَجُلٌ الكَهْفَ، وَفِي الدَّارِ الدَّابَّةُ، فَجَعَلَتْ تَنْفِرُ، فَسَلَّمَ، فَإِذَا ضَبَابَةٌ، أَوْ سَحَابَةٌ غَشِيَتْهُ، فَذَكَرَهُ لِلنَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ: «اقْرَأْ فُلاَنُ، فَإِنَّهَا السَّكِينَةُ نَزَلَتْ لِلْقُرْآنِ، أَوْ تَنَزَّلَتْ لِلْقُرْآنِ».

حديث معاذ بن أنس الجهني رضي الله عنه:
أخرجه أحمد في "المسند" 24/ 390 (15626)، ط: مؤسسة الرسالة، من طريق ابْنِ لَهِيعَةَ، حَدَّثَنَا زَبَّانُ، عَنْ سَهْلِ بْنِ مُعَاذٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنَّهُ قَالَ: " مَنْ قَرَأَ أَوَّلَ سُورَةِ الْكَهْفِ وَآخِرَهَا، كَانَتْ لَهُ نُورًا مِنْ قَدَمِهِ إِلَى رَأْسِهِ، وَمَنْ قَرَأَهَا كُلَّهَا كَانَتْ لَهُ نُورًا مَا بَيْنَ السَّمَاءِ إِلَى الْأَرْضِ".

حديث عبد الله بن عباس رضي الله عنهما:
أخرجه البيهقي في "شعب الإيمان" 4/ 87 (2223)، ط: مكتبة الرشد، من طريق مُحَمَّدِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ الْجَدْعَانِيِّ، عَنْ سُلَيْمَانَ بْنِ مِرْقَاعٍ، عَنْ عَمْرِو بْنِ شُعَيْبٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: " سُورَةُ الْكَهْفِ الَّتِي تُدْعَى فِي التَّوْرَاةِ الْحَائِلَةَ، تَحُولُ بَيْنَ قَارِئِهَا وَبَيْنَ النَّارِ ". وقال: تَفَرَّدَ بِهِ مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ هَذَا، وَهُوَ مُنْكَرٌ

حديث عبد الله بن مغفل رضي الله عنه:
أخرجه الطبراني وابن مردويه وأبو الشيخ عن عبد الله بن مغفل كما في "جمع الجوامع للسيوطي 3/ 592 (10303)، ط: الأزهر الشريف- القاهرة، بلفظ: "الْبَيتُ الَّذِي تُقْرَأُ فِيهِ سُورَةُ الْكَهْفِ (أَو الْبَقَرَةِ) لَا يَدْخُلُهُ شَيطَانٌ تِلكَ اللَّيلَةَ".
طب، وابن مردوبه، وأَبو الشيخ عن عبد الله بن معقل.

أقوال الفقهاء في قراءة سورة الكهف بيوم الجمعة:
الأم للشافعي: (كتاب الصلا/ ما جاء في فضل الجمعة/ ما يؤمر به في ليلة الجمعة ويومها، 1/ 239، ط: دار المعرفة)

"(قال الشافعي) : وبلغنا أن من قرأ سورة الكهف وقي فتنة الدجال (قال الشافعي) : وأحب كثرة الصلاة على النبي - صلى الله عليه وسلم - في كل حال، وأنا في يوم الجمعة، وليلتها أشد استحبابا، وأحب قراءة الكهف ليلة الجمعة، ويومها لما جاء فيها".

الحاوي الكبير: (كتاب الجمعة/ فصل، 2/ 457، ط: دار الكتب العلمية)
"وَيُسْتَحَبُّ قِرَاءَةُ سُورَةِ الْكَهْفِ لَيْلَةَ الْجُمْعَةِ وَيَوْمَ الْجُمْعَةِ لِمَا رُوِيَ عَنِ النَّبِيِّ - صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّم َ - أَنَّهُ قَالَ: مَنْ قَرَأَهَا وُقِيَ فِتْنَةَ الدَّجَّالِ".

المغني لابن قدامة: (كتاب الصلاة/ فصل قراءة الكهف يوم الجمعة، 2/ 262، ط: مكتبة القاهرة)
"فصل: ويستحب قراءة الكهف يوم الجمعة؛ لما روي عن علي - رضي الله عنه - قال: قال رسول الله - صلى الله عليه وسلم -: «من قرأ الكهف يوم الجمعة فهو معصوم إلى ثمانية أيام من كل فتنة، فإن خرج الدجال عصم منه» . رواه زيدون بن علي في كتابه بإسناده.
وعن أبي سعيد الخدري، أنه قال: من قرأ سورة الكهف يوم الجمعة أضاء له من النور ما بينه وبين البيت العتيق. وقال خالد بن معدان: من قرأ سورة الكهف يوم الجمعة قبل أن يخرج الإمام كانت له كفارة ما بينه وبين الجمعة، وبلغ نورها البيت العتيق".

مطالب أولي النهى في شرح غاية المنتهى: (كتاب الصلاة/ باب صلاة الجمعة، 1/ 782، ط: المكتب الإسلامي)
"(وَسُنَّ قِرَاءَةُ) سُورَةِ (الْكَهْفِ بِيَوْمِهَا) ، أَيْ: الْجُمُعَةِ، لِحَدِيثِ أَبِي سَعِيدٍ مَرْفُوعًا: «مَنْ قَرَأَ سُورَةَ الْكَهْفِ فِي يَوْمِ الْجُمُعَةِ أَضَاءَ لَهُ مِنْ النُّورِ مَا بَيْنَ الْجُمُعَتَيْنِ» رَوَاهُ الْبَيْهَقِيُّ بِإِسْنَادٍ حَسَنٍ. (وَ) سُنَّ قِرَاءَتُهَا أَيْضًا فِي (لَيْلَتِهَا) ، لِحَدِيثِ «مَنْ قَرَأَ سُورَةَ الْكَهْفِ فِي يَوْمِ الْجُمُعَةِ أَوْ لَيْلَتِهَا وُقِيَ فِتْنَةَ الدَّجَّالِ».

الدر المختار مع رد المحتار: (كتاب الصلاة/ باب الجمعة، 2/ 164، ط: دار الفكر)
الدر المختار: "سئل بعض المشايخ ليلة الجمعة أفضل أم يومها؟ فقال: يومها ذكر في إحكامات الأشباه مما اختص به يومها قراءة الكهف فيه".
رد المحتار: "(قوله قراءة الكهف) أي يومها وليلتها، والأفضل في أولهما مبادرة للخير وحذرا من الإهمال وأن يكثر منها فيهما للخبر الصحيح أن الأول يضيء له من النور ما بين الجمعتين ولخبر الدارمي أن الثاني يضيء له من النور ما بينه وبين البيت العتيق. ابن حجر".

واللہ تعالى اعلم بالصواب
دار الافتاء الاخلاص،کراچى

Print Full Screen Views: 2077 Aug 24, 2022
fitna dajjal / dajal se /say hifazat k liye sora kahaf ki tilawat se / say mutaliq ahadeed ka tehqeqi jaiza or sora kahaf k tamam fazail ka bayan

Find here answers of your daily concerns or questions about daily life according to Islam and Sharia. This category covers your asking about the category of Interpretation and research of Ahadees

Managed by: Hamariweb.com / Islamuna.com

Copyright © Al-Ikhalsonline 2024.