سوال:
میں شادی شدہ ہوں بیوی سے کسی بات پر تلخی ہوئی جس پر میں نے شرطیہ طلاق رکھ دی اگر یہ اس طرح یہاں سے گئی تو انہیں طلاق (جانے سے مراد کہ اگر گھر سے گئی) کچھ دیر بعد بیوی کے والدین ہمارے گھر آئے اور مجھ سے کچھ بھی بات کیے بغیر بیوی کو ساتھ لے گئے۔
تقریباً 1 مہینہ بعد بیوی کے حاملہ ہونےکا معلوم ہوا (جس وقت الفاظ طلاق کہے بیوی کے حاملہ ہونے کا معلوم نہیں تھا) بعد ازاں میں نے ایک مستند مفتی صاحب سے فتویٰ لیا جس پر ان کے مطابق طلاق واقع ہوگئی تھی اور انہوں نے کہا کہ اگر میں دو شرعی گواہوں کے درمیان کہہ دوں کہ میں نے بیوی کو واپس اپنے نکاح میں لے لیا ہے تو نکاح دوبارہ قائم ہوجائے گا جس پر عمل کرتے ہوئے میں نے دو یا تین دن بعد عدت کے اندر اپنے بالغ بھائی اور والد صاحب کے سامنے اقرار کیا کہ میں نے اپنی بیوی کو اپنے نکاح میں واپس لیا۔
اب اس مسئلہ کے مطابق بیوی کے والدین کو خدشات کا سامنا ہے جس پر میں تحریری فتویٰ چاہتا ہوں کہ
1. جب طلاق دی گئی تو بیوی حاملہ تھی لیکن ہم اس بات سے ناواقف تھے لہذا عدت کی مدت کیا ہوگی؟
2. دوبارہ دو شرعی گواہان کے درمیان قبول کرنے کے لئے بیوی سے دوبارہ ایجاب ضروری ہے یا نکاح ہوگیا ہے؟
3. بیوی کے گھر کی طرف سے مطالبہ ہے کہ میں اپنے والد کے ہمراہ انکے گھر جاؤں اور معافی تلافی کروں،اس کی کیا شرعی حیثیت ہے؟
4. اب بیوی میری بات کو اہمیت دینے کی پابند ہے یا والدین کی اطاعت کی پابند ہے؟
5. والد صاحب ضعیف المعمر ہیں لہٰذا اگر میں والد صاحب کے بغیر جاؤں تو اس میں شرعی مسئلہ کیا ہے؟
ان چند سوالات پر فتویٰ کی درخواست ہے۔ جزاک اللہ خیرا
جواب: 1: پوچھی گئی صورت میں جب آپ نے کہا کہ "اگر یہ اس طرح یہاں سےگئیں تو انہیں طلاق"، تو اس جملہ سے ایک طلاق ان کے گھر سے جانے کی شرط پر معلق ہوگئی تھی، اس کے بعد جب آپ کی زوجہ وہاں سے چلی گئیں، تو ان پر ایک طلاق رجعی واقع ہوگئی تھی، جس کی عدت حاملہ ہونے کی صورت میں وضع حمل یعنی بچہ کی پیدائش تک ہے۔
2: بعد ازاں وضع حمل سے پہلے جب آپ نے گواہوں کے سامنے رجوع کے الفاظ کہے، تو ان الفاظ سے رجوع ہوگیا ہے، دوبارہ نکاح کرنا ضروری نہیں ہے، اور نیا نکاح کیے بغیر آپ اپنی اہلیہ کے ساتھ رہ سکتے ہیں، لیکن یہ واضح رہے کہ آئندہ کے لیے آپ کے پاس صرف دو طلاقوں کا اختیار باقی ہے۔
3: معافی تلافی کرنے کے لیے والد صاحب کو ساتھ لے کر بیوی کے میکے جانا جائز ہے، اس میں کوئی قباحت کی بات نہیں ہے، بلکہ اگر باہمی صلح کا یہی ایک راستہ ہو، تو ایسا کرنا بہتر ہے، باہمی صلح بڑی اچھی چیز ہے، اس کی بہت فضیلت ہے، اس لیے ہمیشہ صلح کے ساتھ رہنے اور صلح کی طرف پہلے بڑھنے کی فکر ہونی چاہیے۔
4: عام حالات میں تو بیوی کو شوہر کی بات ہی ماننی چاہیے، بشرطیکہ وہ بات معقول ہو اور خلافِ شرع نہ ہو، لیکن لڑائی میں اگر شوہر کی طرف سے زیادتی پائی گئی ہو، اور معافی تلافی کے لیے سسرال جانا پڑے، تو اس میں عار نہیں سمجھنا چاہیے۔
5: اگر والد صاحب کسی عذر کی بنا پر نہ جاسکتے ہوں، تو آپ اکیلے بھی جاسکتے ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
سنن أبي داود: (رقم الحديث: 4919، ط: دار الرسالة العالمية)
عَنْ أُمِّ الدَّرْدَاءِ ، عَنْ أَبِي الدَّرْدَاءِ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «أَلَا أُخْبِرُكُمْ بِأَفْضَلَ مِنْ دَرَجَةِ الصِّيَامِ وَالصَّلَاةِ وَالصَّدَقَةِ؟ قَالُوا: بَلَى يَا رَسُولَ اللهِ، قَالَ: إِصْلَاحُ ذَاتِ الْبَيْنِ. وَفَسَادُ ذَاتِ الْبَيْنِ الْحَالِقَةُ.
الهندية: (420/1، ط: دار الفكر)
وإذا أضافه إلى الشرط وقع عقيب الشرط اتفاقا مثل أن يقول لامرأته: إن دخلت الدار فأنت طالق.
واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی