عنوان: قرآن کریم سے نزولِ عیسٰی علیہ السلام کا ثبوت (9793-No)

سوال: ایک صاحب مجھ سے بارہا یہ سوال کر چکے ہیں اور وہ یہ جاننے کو بضد ہیں کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا قرب قیامت سے پہلے دنیا میں ظہور کا ذکر قرآن مجید کی کس سورت میں آیا ہے؟ برائے مہربانی آپ رہنمائی فرما دیجیے۔

جواب: واضح رہے کہ قرب قیامت میں حضرت عیسی علیہ السلام کا آسمان سے نازل ہونا قرآن کریم کی بعض آیات سے دلالتاً اور کئی احادیث متواترہ سے صراحتاً ثابت ہے اور اس پر امت کا اجماع ہے اور یہ مسلمانوں کا قطعی اور اجماعی عقیدہ ہے، جس کا منکر بلاشبہ کافر ہے۔
قرآن وسنت سے بطورِ مثال نزولِ عیسی کا ثبوت ملاحظہ فرمائیں:
۱) قرآن مجید میں اللہ تعالی کا ارشاد ہے:"وان من أهل الكتاب الا ليؤمنن به قبل موته"(النساء:159)
ترجمہ: اور اہل کتاب میں سے کوئی ایسا نہیں ہے جو اپنی موت سے پہلے ضرور بالضرور عیسی (علیہ السلام) پر ایمان نہ لائے۔
اس آیت کی تفسیر میں حافظ ابن کثیر ؒنے علامہ ابنِ جریر ؒ کے حوالے سے مختلف اقوال نقل کرنے کے بعد فرمایا: علامہ ابنِ جریر ؒ فرماتے ہیں: ان سب اقوال میں زیادہ تر صحیح قول پہلا ہے کہ حضرت عیسیٰ آسمان سے قیامت کے قریب اتریں گے، اس وقت کوئی اہل کتاب آپ پر ایمان لائے بغیر نہ رہے گا اور بلاشبہ علامہ ابن جریر نے جو کہا ہے، وہی صحیح ہے، کیونکہ ان آیات کے سیاق وسباق سے صاف ظاہر ہے کہ اصل مقصود یہود اور ان کے دعوی کو تسلیم کرنے والے جاہل عیسائیوں کے اس دعوے کو غلط ثابت کرنا ہے کہ"ہم نے جناب مسیح کو قتل کیا اور سولی دی" تو اللہ تعالی نے خبر دی کہ معاملہ اس طرح نہیں ہے (عیسی علیہ السلام نہ ہی قتل کیے گئے اور نہ سولی پر لٹکائے گئے) بلکہ حقیقت یہ ہے کہ انہیں اشتباہ ہوگیا تھا اور انہوں نے حضرت عیسیٰ جیسے ایک شخص کو قتل کیا،لیکن خود انہیں اس حقیقت کا علم نہ ہوسکا، بلکہ اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی کو تو اپنے پاس اٹھالیا، وہ زندہ ہیں، اب تک باقی ہیں، قیامت کے قریب اتریں گے، اور یہی بات صحیح متواتر احادیث میں بھی ہے۔
جناب رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: "اس ذات کی قسم جس کے قبضے میں میری جان ہے، وہ زمانہ قریب ہے کہ عیسیٰ ابن مریم علیہما السلام تمہارے درمیان ایک عادل حاکم کی حیثیت سے نازل ہوں گے،وہ صلیب کو توڑ دیں گے، سور کو مار ڈالیں گے اور جزیہ موقوف کر دیں گے۔ اس وقت مال کی اتنی کثرت ہو جائے گی کہ کوئی اسے لینے والا نہیں ملے گا،اس وقت کا ایک سجدہ «دنيا وما فيها» (دنیا اور جو کچھ دنیا میں ہے) سے بڑھ کر ہو گا، پھر حضرت ابوہریرہ ؓ نے کہا کہ اگر تمہارا جی چاہے تو یہ آیت پڑھ لو ’’وإن من أهل الكتاب إلا ليؤمنن به قبل موته ويوم القيامة يكون عليهم شهيدا‏‘‘’’ اور اہل کتاب میں سے کوئی ایسا نہین ہے جو اپنی موت سے پہلے ضرور بالضرور عیسیٰ (علیہ السلام) پر ایمان نہ لائے اور قیامت کے دن وہ ان لوگوں کے خلاف گوہ ہوں گے "۔(صحیح بخاری ،حدیث نمبر: 3448)
اس حدیث سے ثابت ہوا کہ ’’قبل موتہ‘‘ میں ضمیر کا مرجع ’’حضرت عیسیٰ علیہ السلام ‘‘ہیں، جیسا کہ’’ لیؤمنن بہ‘‘ میں ضمیر کا مرجع ’’حضرت عیسیٰ علیہ السلام‘‘ ہیں۔
چنانچہ ’’ارشاد الساری‘‘ شرح بخاری میں ہے: اہل کتاب میں سے کوئی بھی نہ ہوگا، مگر حضرت عیسیٰ علیہ السلام پر عیسیٰ کی موت سے پہلے ایمان لے آئے گا اور وہ اہل کتاب ہوں گے،جو ان (حضرت عیسیٰ علیہ السلام) کے زمانہ (نزول) میں ہوں گے، پس صرف ایک ہی ملت اسلام ہوجائے گی اور حضرت ابن عباسؓ نے اس پر جزم کیا ہے۔ اس روایت کے مطابق جو ابن جریر نے ان سے سعید ابن جبیر کے طریق سے صحیح اسناد کے ساتھ روایت کی۔‘‘
۲)وإنه لعلم للساعة فلا تمترن بها واتبعون هذا صراط مستقيم(سورۃ الزخرف: 61)
ترجمہ:اور یقین رکھو کہ وہ (یعنی عیسیٰ علیہ السلام) قیامت کی ایک نشانی ہیں، اس لیے تم اس میں شک نہ کرو، اور میری بات مانو، یہی سیدھا راستہ ہے۔
رئیس المفسرین حافظ ابن کثیرؒ اس آیت کی تفسیر میں لکھتے ہیں:اس آیت میں ’’انہ‘‘ کی ضمیر کا مرجع حضرت عیسیٰ علیہ السلام ہیں، یعنی حضرت عیسیٰ بن مریم (علیہ السلام) بے شک قیامت کی ایک علامت ہیں، اور اس سے مراد ان کا آسمان سے نزول فرمانا اور زمین پر آنا ہے تو ان کا یہ آنا من جملہ علاماتِ قیامت کی ایک عظیم نشانی بنایا گیا، ترجمان ِقرآن حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ، حضرت ابوہریرہ ؓ، حضرت ابوالعالیہ، حضرت ابومالک، حضرت عکرمہ، حضرت حسن بصری، حضرت قتادہ، حضرت ضحاک، حضرت مجاہد رحمہم اللہ اور جملہ ائمہ مفسرین کا اسی پر اتفاق ہے کہ (آیت ) “ انہ ”کی ضمیر عیسیٰ علیہ السلام کی طرف راجع ہے اور جناب رسول اللہ ﷺ سے اس مضمون کی متواتر احادیث وارد ہیں کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام قیامت سے پہلے ایک عادل حاکم کی حیثیت سے نازل ہوں گے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:

صحیح البخاري: (رقم الحدیث: 3448، ط: دار طوق النجاۃ)
حدثنا إسحاق، أخبرنا يعقوب بن إبراهيم، حدثنا أبي، عن صالح، عن ابن شهاب أن سعيد بن المسيب، سمع أبا هريرة رضي الله عنه، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «والذي نفسي بيده، ليوشكن أن ينزل فيكم ابن مريم حكما عدلا، فيكسر الصليب، ويقتل الخنزير، ويضع الجزية، ويفيض المال حتى لا يقبله أحد، حتى تكون السجدة الواحدة خيرا من الدنيا وما فيها»، ثم يقول أبو هريرة: " واقرءوا إن شئتم: {وإن من أهل الكتاب إلا ليؤمنن به قبل موته، ويوم القيامة يكون عليهم شهيدا} [النساء: 159] ".

تفسیر ابن کثیر: (454/2، ط: دار طيبة)
قال ابن جرير: وأولى هذه الأقوال بالصحة القول الأول، وهو أنه لا يبقى أحد من أهل الكتاب بعد نزول عيسى، عليه السلام، إلا آمن به قبل موته، أي قبل موت عيسى، عليه السلام، ولا شك أن هذا الذي قاله ابن جرير، رحمه [الله] هو الصحيح؛ لأنه المقصود من سياق الآي في تقرير بطلان ما ادعته اليهود من قتل عيسى وصلبه، وتسليم من سلم لهم من النصارى الجهلة ذلك، فأخبر الله أنه لم يكن الأمر كذلك، وإنما شبه لهم فقتلوا الشبيه وهم لا يتبينون ذلك، ثم إنه رفعه إليه، وإنه باق حي، وإنه سينزل قبل يوم القيامة، كما دلت عليه الأحاديث المتواترة.

و فیه أیضاً: (236/7)
بل الصحيح أنه عائد على عيسى [عليه السلام] ، فإن السياق في ذكره، ثم المراد بذلك نزوله قبل يوم القيامة، كما قال تبارك وتعالى: {وإن من أهل الكتاب إلا ليؤمنن به قبل موته} أي: قبل موت عيسى، عليه الصلاة والسلام، ثم {ويوم القيامة يكون عليهم شهيدا} [النساء: 159] ، ويؤيد هذا المعنى القراءة الأخرى: "وإنه لعلم للساعة" أي: أمارة ودليل على وقوع الساعة، قال مجاهد: {وإنه لعلم للساعة} أي: آية للساعة خروج عيسى ابن مريم قبل يوم القيامة. وهكذا روي عن أبي هريرة [رضي الله عنه] ، وابن عباس، وأبي العالية، وأبي مالك، وعكرمة، والحسنن وقتادة، والضحاك، وغيرهم.
وقد تواترت الأحاديث عن رسول الله صلى الله عليه وسلم أنه أخبر بنزول عيسى [ابن مريم] عليه السلام قبل يوم القيامة إماما عادلا وحكما مقسطا.

ارشاد الساری: (419/5، ط: المطبعة الكبري الأميرية)
(ثم يقول أبو هريرة) بالإسناد السابق، مستدلا على نزول عيسى في آخر الزمان تصديقا للحديث: (واقرؤوا إن شئتم: {وإن من أهل الكتاب إلا ليؤمنن به}) بعيسى (قبل موته) أي وإن من أهل الكتاب أحد إلا ليؤمنن بعيسى قبل موت عيسى وهم أهل الكتاب الذين يكونون في زمانه فتكون الملة واحدة وهي ملة الإسلام. وبهذا جزم ابن عباس فيما رواه ابن جرير من طريق سعيد بن جبير عنه بإسناد صحيح.

المحرر الوجيز لابن عطية: (444/1، ط: دار الكتب العلمية)
قال القاضي أبو محمد: وأجمعت الأمة على ما تضمنه الحديث المتواتر من أن عيسى عليه السلام في السماء حي، وأنه ينزل في آخر الزمان فيقتل الخنزير ويكسر الصليب ويقتل الدجال ويفيض العدل ويظهر هذه الملة ملة محمد ويحج البيت ويعتمر، ويبقى في الأرض أربعا وعشرين سنة، وقيل أربعين سنة، ثم يميته الله تعالى.

واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی

Print Full Screen Views: 1330 Aug 24, 2022

Find here answers of your daily concerns or questions about daily life according to Islam and Sharia. This category covers your asking about the category of Beliefs

Managed by: Hamariweb.com / Islamuna.com

Copyright © Al-Ikhalsonline 2024.