سوال:
السلام علیکم، جاز کیش سے مختلف کیش بیک کے میسج موصول ہوتے ہیں مہربانی فرماکر علیحدہ علیحدہ جواب دے دیں کہ ان میں سود کون سا ہے اور کون سا نہیں ہے؟
1) کسی کو ایک روپیہ بھیجیں اور 50 روپے حاصل کریں۔
2) کسی سے ایک روپیہ وصول کریں اور 50 حاصل کریں اس میں یہ وضاحت کردیں کہ میں کسی سے ایک روپیہ وصول کروں اور اس پر مجھے 50 ملے یہ تو شاید سود ہو لیکن اگر 50 ملنے کے بعد میں ایک واپس بھیج دوں تو کیا پھر بھی سود ہوگا؟
3) کسی نمبر پر پر لوڈ کریں تو 50 ملے گا کیا یہ سود ہے اور اگر اپنے نمپر پر لوڈ کروں اور 50 ملے تو کیا یہ بھی سود ہوگا؟
جواب: جاز کیش اکاؤنٹ میں جمع شدہ رقم کی حیثیت قرض کی ہے٬ البتہ اس سے حاصل ہونے والی سہولیات سے فائدہ اٹھانے سے متعلق تفصیل یہ ہے کہ :
1... جس سہولت کو حاصل کرنے کیلئے اکاؤنٹ میں متعین رقم رکھنا مشروط نہ ہو٬ بلکہ جاز کیش اکاؤنٹ کے ذریعے محض کسی بھی طرح رقم استعمال کرنے پر کسٹمر کو کمپنی کی طرف سے کوئی سہولت دی جائے٬ جیسے: کیش بیک وغیرہ٬ تو اس صورت میں حاصل ہونے والی سہولت سے فائدہ اٹھانا جائز ہے٬ کیونکہ یہ کمپنی کی طرف سے سروس استعمال کرنے پر "حط ثمن" (قیمت میں کمی) یا انعام ہے۔
2... جن سہولیات کو حاصل کرنے کیلئے اکاؤنٹ میں متعین رقم رکھنا مشروط ہو٬ تو اس صورت میں کمپنی کی طرف سے حاصل ہونے والی سہولیات مثلا: فری منٹس٬ فری میسج یا رقم منتقل کرنے کی سہولت وغیرہ استعمال کرنا جائز نہیں ہے٬ کیونکہ ایزی پیسہ اکاؤنٹ میں جمع شدہ رقم کی حیثیت چونکہ قرض کی ہے٬ اور اس پر ملنے والی سہولیات قرض کے ساتھ مشروط ہیں٬ جبکہ قرض دیکر اس پر مشروط نفع حاصل کرنا سود ہونے کی وجہ سے ناجائز اور حرام ہے٬ لہذا اس طرح کی سہولیات سے (جو اکاؤنٹ میں متعین رقم رکھنے کے ساتھ مشروط ہوں) استعمال کرنے سے اجتناب لازم ہے۔
اس تمہید کے بعد آپ کے سوال کا جواب یہ ہے کہ سوال میں ذکر کردہ تینوں صورتیں سود کے حکم میں داخل نہیں ہیں، کیونکہ ان صورتوں میں کسی سے رقم وصول کرنے، کسی کو رقم بھیجنے اور کسی کے نمبر پر لوڈ کرنے پر 50 روپیہ ملنے کیلئے اکاؤنٹ میں مخصوص رقم رکھنے کی شرط نہیں ہے، (جیسا کہ سوال سے معلوم ہوتا ہے)، بلکہ یہ کمپنی کے ساتھ معاملہ کرنے کی وجہ سے کمپنی کی طرف سے انعام کے طور پر رقم دی جارہی ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
مسند الحارث: (500/1، ط: مرکز خدمة السنة، المدینة المنورة)
عن عمارة الهمداني قال: سمعت عليا يقول: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: كل قرض جر منفعة فهو ربا۔
فقه البیوع: (803/1، ط: معارف القرآن)
"یجوز للمتعاقدین ان ینعقدا علی الزیادۃ او الحط فی الثمن بعد انجاز العقد٬ کما یجوز ان یتفقا علی الزیادۃ فی المبیع٬ وان الزیادۃ والحط یلحقان باصل العقد عند الحنفیة٬ کان البیع وقع علی قدر الحاصل بعد الزیادة والحط
المرقاۃ شرح المشکاۃ: (2438/6، ط: دار الفکر)
هو [ای الربا] في الشرع فضل خال عن عوض شرط لأحد العاقدين في المعاوضة۔
بحوث فی قضایا فقھیة معاصرة: (155/2، ط: دار القلم)
وبما ان حقیقة الجائزۃ انھا ھبة بدون مقابل فانھا لیست من عقود المعاوضة، وانما ھي من قبیل التبرعات، فمن شروط جوازھا ان تکون تبرعا من المجیز بدون ان یلتزم المجاز بدفع عوض مالی مقابل الجائزۃ۔
کذا فی تبویب فتاوي جامعة دار العلوم کراتشي: رقم الفتوي: 41/2061
واللہ تعالیٰ أعلم بالصواب
دار الافتاء الاخلاص،کراچی