resize-left-dar mid-dar right-dar

عنوان: سنن الدارمی کى سنگریزوں سے تکبیر، تہلیل اور تسبیح شمار کرنے سے متعلق حدیث نمبر (210) کا ترجمہ اور مختصر تشریح (9798-No)

سوال: سنن الدارمی، رقم الحدیث: 210 کی مندرجہ ذیل حدیث کا ترجمہ اور وضاحت فرمادیں:
أَخْبَرَنَا الْحَكَمُ بْنُ الْمُبَارَكِ، أَنبَأَنَا عَمْرُو بْنُ يَحْيَى، قَالَ: سَمِعْتُ أَبِي، يُحَدِّثُ، عَنْ أَبِيهِ قَالَ: كُنَّا نَجْلِسُ عَلَى بَابِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مَسْعُودٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَبْلَ صَلَاةِ الْغَدَاةِ، فَإِذَا خَرَجَ، مَشَيْنَا مَعَهُ إِلَى الْمَسْجِدِ، فَجَاءَنَا أَبُو مُوسَى الْأَشْعَرِيُّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ فَقَالَ: أَخَرَجَ إِلَيْكُمْ أَبُو عَبْدِ الرَّحْمَنِ قُلْنَا: لَا، بَعْدُ. فَجَلَسَ مَعَنَا حَتَّى خَرَجَ، فَلَمَّا خَرَجَ، قُمْنَا إِلَيْهِ جَمِيعًا، فَقَالَ لَهُ أَبُو مُوسَى: يَا أَبَا عَبْدِ الرَّحْمَنِ، إِنِّي رَأَيْتُ فِي الْمَسْجِدِ آنِفًا أَمْرًا أَنْكَرْتُهُ وَلَمْ أَرَ - وَالْحَمْدُ لِلَّهِ - إِلَّا خَيْرًا. [ص:287] قَالَ: فَمَا هُوَ؟ فَقَالَ: إِنْ عِشْتَ فَسَتَرَاهُ. قَالَ: رَأَيْتُ فِي الْمَسْجِدِ قَوْمًا حِلَقًا جُلُوسًا يَنْتَظِرُونَ الصَّلَاةَ فِي كُلِّ حَلْقَةٍ رَجُلٌ، وَفِي أَيْدِيهِمْ حصًا، فَيَقُولُ: كَبِّرُوا مِائَةً، فَيُكَبِّرُونَ مِائَةً، فَيَقُولُ: هَلِّلُوا مِائَةً، فَيُهَلِّلُونَ مِائَةً، وَيَقُولُ: سَبِّحُوا مِائَةً، فَيُسَبِّحُونَ مِائَةً، قَالَ: فَمَاذَا قُلْتَ لَهُمْ؟ قَالَ: مَا قُلْتُ لَهُمْ شَيْئًا انْتِظَارَ رَأْيِكَ أَوِ انْتظارَ أَمْرِكَ. قَالَ: «أَفَلَا أَمَرْتَهُمْ أَنْ يَعُدُّوا سَيِّئَاتِهِمْ، وَضَمِنْتَ لَهُمْ أَنْ لَا يَضِيعَ مِنْ حَسَنَاتِهِمْ»، ثُمَّ مَضَى وَمَضَيْنَا مَعَهُ حَتَّى أَتَى حَلْقَةً مِنْ تِلْكَ الْحِلَقِ، فَوَقَفَ عَلَيْهِمْ، فَقَالَ: «مَا هَذَا الَّذِي أَرَاكُمْ تَصْنَعُونَ؟» قَالُوا: يَا أَبَا عَبْدِ الرَّحْمَنِ حصًا نَعُدُّ بِهِ التَّكْبِيرَ وَالتَّهْلِيلَ وَالتَّسْبِيحَ. قَالَ: «فَعُدُّوا سَيِّئَاتِكُمْ، فَأَنَا ضَامِنٌ أَنْ لَا يَضِيعَ مِنْ حَسَنَاتِكُمْ شَيْءٌ وَيْحَكُمْ يَا أُمَّةَ مُحَمَّدٍ، مَا أَسْرَعَ هَلَكَتَكُمْ هَؤُلَاءِ صَحَابَةُ نَبِيِّكُمْ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مُتَوَافِرُونَ، وَهَذِهِ ثِيَابُهُ لَمْ تَبْلَ، وَآنِيَتُهُ لَمْ تُكْسَرْ، وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ، إِنَّكُمْ لَعَلَى مِلَّةٍ هِيَ أَهْدَى مِنْ مِلَّةِ مُحَمَّدٍ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أوْ مُفْتَتِحُو بَابِ ضَلَالَةٍ». قَالُوا: وَاللَّهِ يَا أَبَا عَبْدِ الرَّحْمَنِ، مَا أَرَدْنَا إِلَّا الْخَيْرَ. قَالَ: «وَكَمْ مِنْ مُرِيدٍ لِلْخَيْرِ لَنْ يُصِيبَهُ، إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَدَّثَنَا أَنَّ» قَوْمًا يَقْرَءُونَ الْقُرْآنَ لَا يُجَاوِزُ تَرَاقِيَهُمْ "، وَايْمُ اللَّهِ مَا أَدْرِي لَعَلَّ أَكْثَرَهُمْ مِنْكُمْ، ثُمَّ تَوَلَّى عَنْهُمْ. فَقَالَ عَمْرُو بْنُ سَلَمَةَ: رَأَيْنَا عَامَّةَ أُولَئِكَ الْحِلَقِ يُطَاعِنُونَا يَوْمَ النَّهْرَوَانِ مَعَ الْخَوَارِجِ.

جواب: سوال میں دریافت کردہ سنن دارمی کی روایت کا ترجمہ درجِ ذیل ہے:
عُمارۃ بن ابی حسن المازنی فرماتے ہیں کہ ہم نمازِ فجر سے پہلے حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کے (گھر کے) دروازے پر بیٹھتے تھے، جب آپ گھر سے نکلتے تو ہم آپ کے ساتھ مسجد جاتے۔ ایک مرتبہ حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ ہمارے پاس تشریف لائے اور دریافت فرمایا کہ کیا تمہارے پاس اب تک ابو عبدالرحمن (یعنی عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ) نہیں آئے؟ ہم نے عرض کیا: نہیں۔ تو آپ حضرت عبد اللّٰہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کے گھر سے نکلنے تک ہمارے ساتھ تشریف فرما ہو گئے۔ جب آپ نکلے، تو ہم سب آپ کی طرف اٹھے۔ حضرت ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ نے آپ سے فرمایا کہ اے ابو عبدالرحمن! میں نے مسجد میں ابھی ایک بات دیکھی، جس کو میں نے انوکھا محسوس کیا ہے، ویسے تو الحمدللہ خیر ہی کو دیکھا۔ آپ نے دریافت فرمایا کہ وہ کیا ہے؟ ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ اگر زندگی نے وفا کی، تو عنقریب آپ بھی دیکھ لیں گے، اور وہ یہ کہ میں نے مسجد میں کچھ لوگوں کو مختلف حلقوں میں نماز کے انتظار میں بیٹھے ہوئے دیکھا، ہر حلقے میں ایک آدمی ہے، لوگوں کے ہاتھوں میں کنکریاں ہیں، وہ آدمی کہتا ہے: سو مرتبہ ”اللہ اکبر“ پڑھو، تو لوگ سو مرتبہ "اللہ اکبر" پڑھتے ہیں، پھر وہ کہتا ہے: سو مرتبہ ”لا الہ الا اللہ“ پڑھو، تو لوگ سو مرتبہ" لا إله إلا اللہ" پڑھتے ہیں، پھر وہ کہتا ہے کہ سو مرتبہ ”سبحان اللہ“ پڑھو، تو لوگ سو مرتبہ "سبحان اللہ" پڑھتے ہیں۔
حضرت عبد اللّٰہ بن مسعود رضی اللہ عنہ فرمانے لگے کہ پھر آپ نے ان سے کیا کہا؟ حضرت ابو موسیٰ رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ میں نے ان سے آپ کی رائے کے انتظار میں کچھ نہیں کہا، ( یا یوں فرمایا: کہ آپ کے حکم کے انتظار میں کچھ نہیں کہا)۔ عبد اللّٰہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ آپ ان کو یہ حکم دیتے کہ وہ اپنے گناہ شمار کریں اور ان کو ضمانت دیتے کہ ان کی نیکیوں میں سے کچھ ضائع نہیں ہوگا (یعنی ان اذکار کو شمار کرنے کی کیا ضرورت ہے؟ آدمی جو ذکر کرے گا، وہ اللہ تعالیٰ کے علم میں ہے، اس پر وہ اجر دیں گے، وہ ذکر اور نیکی ضائع نہیں ہوگی)۔ پھر حضرت عبد اللّٰہ بن مسعود رضی اللہ عنہ (مسجد کی جانب) چلے گئے، ہم بھی آپ کے ساتھ چل پڑے، یہاں تک کہ ان حلقوں میں سے ایک حلقہ کے پاس آکر کھڑے ہوگئے، اور ان سے دریافت فرمایا کہ یہ کیا چیز ہے، جو میں تم کو کرتے ہوئے پا رہا ہوں؟ انھوں نے جواب دیا کہ اے ابوعبدالرحمن! ہم ان سنگریزوں سے تکبیر، تہلیل اور تسبیح شمار کرتے ہیں۔
آپ نے فرمایا: بجائے اس کے تم اپنے اپنے گناہ شمار کرو، میں ضمانت دیتا ہوں کہ (اگر ان اذکار کو شمار نہ کرو، تو) تمہاری نیکیوں میں سے کچھ ضائع نہیں ہوگا۔ اے امتِ محمد صلی اللہ علیہ وسلم! تم پر افسوس! تمہاری ہلاکت کس قدر جلد آگئی، ابھی یہ اصحابِ نبی صلی اللہ علیہ وسلم تمہارے درمیان بکثرت موجود ہیں، نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے کپڑے بوسیدہ نہیں ہوئے اور آپ کے برتن نہیں ٹوٹے (یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے وصال کو زیادہ عرصہ نہیں ہوا اور تم ابھی سے ایسے کاموں میں مشغول ہوگئے ہو) اس ذات کی قسم جس کے قبضہ میں میری جان ہے، یا تو تم ایک ایسے دین پر ہو، جو حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے دین سے (نعوذ باللہ) زیادہ درستگی پر ہے، یا پھر تم گمراہی کا دروازہ کھولنے والے ہو۔ ان لوگوں نے جواب دیا: اے ابوعبدالرحمن! اللہ کی قسم! ہم اس عمل سے نیکی ہی کا ارادہ رکھتے ہیں۔ حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے فرمایا: بہت سے نیکی کا ارادہ کرنے والے ایسے ہیں کہ انھیں ہرگز نیکی حاصل نہیں ہوتی۔(بطور تمثیل ایک قوم کا ذکر سنو) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہم سے فرمایا کہ "کچھ لوگ قرآن پڑھیں گے، مگر قرآن ان کی ہنسلیوں (گلے کے نیچے) سے تجاوز نہیں کرے گا"۔ اللہ کی قسم! یقینی طور میں نہیں جانتا، ہوسکتا ہے اس حدیث کا مصداق تم لوگوں میں سے اکثر وہی ہوں۔ یہ فرما کر حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ ان کے پاس سے چلے گئے۔ عمرو بن سلمہ کہتے ہیں کہ ان حلقے والوں میں سے اکثر لوگوں کو ہم نے دیکھا کہ وہ جنگِ نہروان میں خوارج کے ساتھ مل کر ہم لوگوں پر برچھے مارتے تھے۔
(سنن الدارمی: باب في کراہیة أخذ الرأي، 1/ 286، رقم الحديث: (210)، ط: دار المغني للنشر والتوزيع)
تشريح:
واضح رہے متعدد احادیث مبارکہ میں مختلف اذکار کى تعداد کے حوالہ سے حد بندی فرماکر فضائل کو ذکر کیا گیا ہے، جس سے خود بخود یہ بات ثابت ہوتى ہے کہ ذکر و تسبیح کرتے ہوئے اسے شمار کرنا نہ صرف جائز ہے، بلکہ آنحضرت صلى اللہ علیہ وسلم کے اپنے عمل سے ایسی تسبیحاتِ اذکار کو انگلیوں کے پوروں پر شمار کرنا بھى ثابت ہے، جسے "عقد ِانامل " کہا جاتا ہے، باقی صحابی رسول حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ کا نکیر فرمانا ، چونکہ دیگر عمومی روایات کے معارض ہے، لہذا محدثین عظام رحمہم اللہ نے اس حوالہ سے چند تاویلات ذکر کرکے ذکر واذکار کا شمار انگلیوں پر اولٰی، جبکہ کنکریوں یا مروجہ تسبیح استعمال کرنے کو جائز لکھا ہے، لہذا اسے بدعت قرارد ینا درست نہیں۔
چنانچہ سنن ابى داود کى روایت ہے کہ حضرت عبداللہ بن عمرو بن العاص رضی اللّٰہ عنہما کہتے ہیں: میں نے رسول اکرم صلی اللّٰہ علیہ وسلم کو دیکھا کہ آپ اپنے دائیں ہاتھ کے پوروں پر تسبیح پڑھ رہے تھے (سنن ابی داود: حدیث نمبر: 1502)۔ اسى طرح آنحضرت صلى اللہ علیہ وسلم کى "تقریر"(یعنی صحابہ کرام نے آپ صلى اللہ علیہ وسلم کے سامنے کوئى عمل کیا ہو اور آپ نے اس پر نکیر نہ فرمائى ہو) سے گٹھلیوں پر تسبیح پڑھنا ثابت ہے، اس سلسلے میں حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ کى روایت قابل ذکر ہے،جس میں وہ نقل کرتے ہیں کہ وہ خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی معیت میں ایک خاتون کے پاس پہنچے، تو دیکھا کہ اس خاتون کے سامنے کھجور کی گٹھلیاں یا کنکریاں تھیں، وہ ان گٹھلیوں یا کنکریوں پر تسبیح پڑھ رہی تھیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میں تم کو وہ نہ بتادوں، جو تمہارے لیے اس سے زیادہ آسان ہے ؟(یا فرمایا : جو اس سے افضل ہے؟)، پھر آپ نے فرمایا: (کہ تم اس طرح کہو:) "سبحان اللّٰہ عدد ما خلق فی السماء ،و سبحان اللّٰہ عدد ما خلق فی الارض ،وسبحان اللّٰہ عدد ما بین ذلک، و سبحان اللّٰہ عدد ما هو خالق"، اس کے بعد "اللہ اکبر" کہہ کر پھر اسی طرح پڑھو، ("اللہ اکبر عدد ما خلق فی السماء واللہ اکبر عدد ما خلق فی الارض ․․․") اس کے بعد "الحمد للہ" پھر "لا الہ الا اللہ"، پھر اسی طرح "لاحول و لاقوة الا باللہ" پڑھو۔ (سنن ابى داود: حدیث نمبر: 1500)
اسى طرح کتبِ سیر وتراجم میں صحابہ کرام اور تابعین رضی اللہ عنہم کے تذکرے میں یہ بات ملتى ہے کہ وہ گٹھلیوں پر تسبیح پڑھا کرتے تھے، جیسا کہ علامہ ہیثمی رحمہ اللہ نے اس پر تصریح فرمائی ہے(مرقاة المفاتیح، باب الذکر بعد الصلاة، 768/2)۔ تاہم اتنی بات ضرور ہے کہ حضرات صحابہ وتابعین رضی اللہ عنہم کے دور میں دھاگے میں پروئے ہوئے دانوں کا رواج نہیں تھا، اس لیے منتشر طور پر گٹھلیوں وغیرہ پر ان حضرات کا تسبیحات پڑھنے کا معمول تھا، لہذا موجودہ دور میں مروجہ دھاگوں میں پروئى ہوئى تسبیح پر ذکر کرنا بلا کراہت جائز ہے۔
علامہ شوکانى رحمہ اللہ نے "نیل الاوطار"( ج 2، ص 316 )میں اس بات کى صراحت فرمائى ہے کہ حضرت سعد بن ابى وقاص رضى اللہ عنہ سے مروی مندرجہ بالا حدیث سے اس بات کا جواز معلوم ہوتا ہے کہ گٹھلیوں پر تسبیح پڑھنا جائز ہے، کیوں کہ اس پر آنحضرت صلى اللہ علیہ وسلم کى تقریر موجود ہے۔
اب چونکہ تسبیح بذاتِ خود مقصود نہیں ہے، بلکہ وہ تو ذکر اللہ اور تسبیح کے کلمات کو شمار کرنے کا ذریعہ ہے، ظاہر ہے کہ ذکر وتسبیح کى تعداد کو گننے کے لیے کوئی تو ذریعہ اختیار کیا جائے گا، خواہ اُنگلیوں پر گنا جائے یا کنکریوں پر یا گٹھلیوں پر یا پھر دھاگے میں پروئی ہوئی تسبیح پر، لہذا جو بھى صورت اختیار کی جائے گی ، وہ مقصود ِشرعى کے حصول کا محض ذریعہ ہوگی، اور جو چیز کسی مطلوبِ شرعی کا ذریعہ ہو، اس پر" بدعت" کا اطلاق درست نہیں۔
حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کی جانب سے نکیر فرمانے کی توجیہ وتاویل:
اب یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے تسبیح وذکر کرنے والوں پر نکیر کیوں فرمائى ؟ اس حوالہ سے عام طور پر دو تاویلات پیش کی جاتی ہیں:
(1) حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ اپنے مزاج ِ خاص کے مطابق مطلقا کلماتِ ذکر کے شمار کیے جانے کو ناپسند فرماتے تھے، اس کراہت کا تعلق کنکری ،گٹھلی یا انگلیوں پر ذکر سے بالکل نہیں ہے، دراصل ان کا یہ ایک عاشقانہ طرز تھا کہ وہ اس عمل کو اللہ تعالی پر اپنی نیکیوں کا احسان جتلانا سمجھتے تھے ، جیسا کہ مصنف ابن ابی شیبہ میں ابراہیم نخعی رحمہ اللہ سے منقول ہے کہ عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ مطلقا کلماتِ ذکر کو شمار کیے جانے کو مکروہ گردانتے تھے،اور فرماتے تھے کہ کیا بھلا خدا ئے بزرگ وبرتر ذات پر نیکیوں کوشمار کرکے احسان جتلایا جاسکتا ہے؟ ۔
(2) حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کی نکیر دراصل مسجد میں حلقہ جما کر اجتماعى شکل میں جہرا تسبیحات و ذکر کرنے والوں پر تھی، تاکہ آئندہ اس عمل میں مزید اضافہ ہو کر کوئى بدعت کى صورت نہ بن جائے۔جیسا کہ علامہ شاطبی رحمہ اللہ نے بدعت حقیقی واضافی کے درمیان فرق بیان کرتے ہوئے ایک اصول کی نشاندہی فرماتے ہوئے لکھا ہے کہ ابن مسعود رضی اللہ عنہ نے مسجد میں اجتماعی شکل میں جہرا ذکر کرنے والوں کو گمراہ اور ایک موقع پر مسجد سے باہر نکالنے کا بھی حکم دیا تھا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:

سنن أبي داؤد، لسلیمان بن أشعث السجستاني، باب تفریع أبواب الوتر، باب التسبیح بالحصی، 81/2، رقم الحدیث: 1502، المحقق: محمد محيي الدين عبد الحميد،الناشر: المكتبة العصرية، صيدا – بيروت:
عن عبد الله بن عمرو، قال: «رأيت رسول الله صلى الله عليه وسلم يعقد التسبيح»

سنن أبي داؤد، لسلیمان بن أشعث السجستاني، باب تفریع أبواب الوتر، باب التسبیح بالحصی، 80/2، رقم الحدیث: 1500، المحقق: محمد محيي الدين عبد الحميد،الناشر: المكتبة العصرية، صيدا – بيروت:
عن سعد بن أبي وقاص، عن أبيها، أنه دخل مع رسول الله صلى الله عليه وسلم على امرأة وبين يديها نوى - أو حصى - تسبح به، فقال: «أخبرك بما هو أيسر عليك من هذا - أو أفضل -»، فقال: «سبحان الله عدد ما خلق في السماء، وسبحان الله عدد ما خلق في الأرض، وسبحان الله عدد ما خلق بين ذلك، وسبحان الله عدد ما هو خالق، والله أكبر مثل ذلك، والحمد لله مثل ذلك، ولا إله إلا الله مثل ذلك، ولا حول ولا قوة إلا بالله مثل ذلك»

مصنف ابن أبي شيبة، باب من كره عقد التسبيح، 219/5، رقم الحديث: 7749، ط: دار القبلة:
عن الأعمش ، عن إبراهيم ، قال : كان عبد الله يكره العدد ويقول : أیُمَنّ على الله حسناته؟

مرقاة المفاتیح، للملا علي القاري، کتاب الصلاة، باب الذکر بعد الصلاة، 768/2، الناشر:دار الفکر، بیروت:
قال ابن حجر: والروايات في التسبيح بالنوى والحصى كثيرة عن الصحابة، وبعض أمهات المؤمنين، بل رآها عليه السلام، وأقر عليها۔

الاعتصام ، لإبراهيم بن موسی الغرناطی المشهور بالشاطبي، الفصل الخامس في أحکام البدع الحقيقية والإضافیة، 338/2،محقق الجزء الثاني: د سعد بن عبد الله آل حميد، دار ابن الجوزي:
واعلموا أنه حيث قلنا: إن العمل الزائد على المشروع يصير وصفا له أو كالوصف فإنما يعتبر بأحد أمور ثلاثة: إما بالقصد، وإما بالعادة، وإما بالشرع. أما بالقصد: فظاهر، بل هو أصل التغيير في المشروعات بالزيادة أو النقصان۔
وأما بالعادة: فكالجهر والاجتماع في الذكر، المشهور بين متصوفة الزمان؛ فإن بينه وبين الذكر المشروع بونا بعيدا؛ إذ هما كالمتضادين عادة. وكالذي حكى ابن وضاح، عن الأعمش، عن بعض أصحابه؛ قال: مر عبد الله برجل يقص في المسجد على أصحابه وهو يقول: سبحوا عشرا، وهللوا عشرا، فقال عبد الله: إنكم لأهدى من أصحاب محمد صلى الله عليه وسلم، أو أضل؛ بل هذه، يعني: أضل ۔

نیل الأوطار، لمحمد بن علي الشوکاني الیمني، کتاب اللباس، باب جواز عقد التسبیح بالید وعدّه بالنوی ونحوه، 365/2، تحقيق: عصام الدين الصبابطي، الناشر: دار الحديث، مصر:
والحديث الأول، يدل على مشروعية عقد الأنامل بالتسبيح. وقد أخرج أبو داود والترمذي وحسنه والنسائي والحاكم وصححه عن ابن عمرو أنه قال: «رأيت رسول الله - صلى الله عليه وسلم - يعقد التسبيح» زاد في رواية لأبي داود وغيره " بيمينه "۔ وقد علل رسول الله - صلى الله عليه وسلم - ذلك في حديث الباب بأن الأنامل مسئولات مستنطقات، يعني أنهن يشهدن بذلك فكان عقدهن بالتسبيح من هذه الحيثية أولى من السبحة والحصى۔ والحديثان الآخران، يدلان على جواز عد التسبيح بالنوى والحصى، وكذا بالسبحة؛ لعدم الفارق لتقريره - صلى الله عليه وسلم - للمرأتين على ذلك.

والله تعالى أعلم بالصواب
دار الإفتاء الإخلاص،كراچى

sunan aldarmi ki sangrezo / sangrezon se / say takbeer,tehleel or tasbeeh shumar karne se / say mutaliq hadis number 210 ka tarjama or mukhtasar tashreeh.

Find here answers of your daily concerns or questions about daily life according to Islam and Sharia. This category covers your asking about the category of Interpretation and research of Ahadees