سوال:
السلام علیکم،
مفتی صاحب ! درج ذیل مسئلہ کے بارے میں کیا خیال ہے کہ ایک ڈاکٹر نے ایک عورت کو علاج کرنے سے پہلے یہ شرط رکھی کہ میں اس شرط کے ساتھ علاج کرونگا کہ آپ نے نماز نہیں پڑھنی ہے۔ رہنمائی فرمائیں کیا اس ڈاکٹر سے علاج کرانا صحیح ہوگا؟
جواب: بظاہر ایسا معلوم ہوتاہے کہ اس ڈاکٹر کو علاج کی وجہ سے نماز میں شریعت کی طرف سے ملنے والی سہولیات کا علم نہیں ہوگا، اس لیے اس نے علاج کے دوران پرہیز کی خاطر نماز ترک کرنے کا کہا ہوگا۔
حالانکہ جب تک ہوش و حواس صحیح سالم ہوں، نماز ترک کرنا جائز نہیں ہے، تاہم مجبوری کی وجہ سے بیٹھ کر یا لیٹ کر اور اگر یہ بھی ممکن نہ ہو، تو سر کے اشاروں سے نماز پڑھنے کی گنجائش ہے۔
لہذا مریضہ کو چاہیے کہ اگر وہ کھڑے ہوکر نماز نہ پڑھ سکے تو بیٹھ کر پڑھ لے، اگر بیٹھ کر بھی نہ پڑھ سکے تو لیٹ کر، ورنہ سر کے اشاروں سے نماز پڑھنا ضروری ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
القرآن الکریم: (البقرۃ، الایة: 238)
حٰفِظُوۡا عَلَی الصَّلَوٰتِ وَ الصَّلٰوۃِ الۡوُسۡطٰی وَ قُوۡمُوۡا لِلّٰہِ قٰنِتِیۡنَo
الموسوعۃ الفقھیۃ الکویتیة: (186/7، ط: دار السلاسل)
لا يعلم خلاف بين الفقهاء في أن تأخير الصلاة عن وقتها بدون عذر ذنب عظيم، لا يرفع إلا بالتوبة والندم على ما فرط من العبد، وقد سمى النبي صلى الله عليه وسلم من فعل ذلك بأنه مفرط أي مقصر، حيث قال: ليس التفريط في النوم، إنما التفريط في اليقظة
الھندیۃ: (136/1، ط: دار الفکر)
إذا عجز المريض عن القيام صلى قاعدا يركع ويسجد، هكذا في الهداية۔۔۔۔۔۔وإن عجز عن القيام والركوع والسجود وقدر على القعود يصلي قاعدا بإيماء ويجعل السجود أخفض من الركوع، كذا في فتاوى قاضي خان۔۔۔۔۔وكذا لو عجز عن الركوع والسجود وقدر على القيام فالمستحب أن يصلي قاعدا بإيماء وإن صلى قائما بإيماء جاز عندنا، هكذا في فتاوى قاضي خان۔۔۔۔۔وإن تعذر القعود أومأ بالركوع والسجود مستلقيا على ظهره وجعل رجليه إلى القبلة وينبغي أن يوضع تحت رأسه وسادة حتى يكون شبيه القاعد ليتمكن من الإيماء بالركوع والسجود وإن اضطجع على جنبه ووجهه إلى القبلة وأومأ جاز والأول أولى، كذا في الكافي وإن لم يستطع على جنبه الأيمن فعلى الأيسر، كذا في السراج الوهاج، ووجهه إلى القبلة، كذا في القنية.
واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی