سوال:
بیوی کے دوسری بیوی کو چھوڑنے پر مجبور کرنے پر شوہر نے پہلی بیوی کو ایسے کہا کہ "تم مجھ پر طلاق ہو طلاق ہو طلاق ہو" اس میں طلاق کی نیت نہیں کی تھی تو کیا پہلی بیوی کو طلاق ہوگئی؟
جواب: واضح رہے کہ لفظِ طلاق چوں کہ طلاق ہی کے لیے مختص ہے اور صریح لفط ہے، لہذا اگر کوئی شخص بیوی کی طرف نسبت کرتے ہوئے کو یہ لفظ کہہ دے تو طلاق واقع ہو جاتی ہے، چاہے طلاق کی نیت ہو یا نہ ہو۔
لہذا پوچھی گئی صورت میں تین طلاقیں واقع ہوگئی ہیں، بیوی شوہر کے لیے حرام ہوگئی ہے، اور اب رجوع کا حق بھی ختم ہو گیا ہے۔
تین طلاقیں دینے کی صورت میں عدت کے دوران رجوع کا حق باقی نہیں رہتا ہے، اور نہ ہی عدت گزرنے کے بعد اس شوہر سے نکاح ہو سکتا ہے، جب تک عورت کسی اور مرد سے نکاح نہ کرے اور اس کے ساتھ حقوق زوجیت ادا نہ کرے، پھر اگر وہ اپنی مرضی سے طلاق دے دے یا اس دوسرے شوہر کاانتقال ہو جائے، تو پھر اس دوسرے شوہر کی عدت گزرنے کے بعد طرفین کی رضامندی سے نئے مہر اور دو گواہوں کی موجودگی میں اسی شخص سے دوبارہ نکاح کیا جا سکتا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
القرآن الکریم: (البقرة، الایة: 230)
فَإِنْ طَلَّقَهَا فَلَا تَحِلُّ لَهُ مِنْ بَعْدُ حَتَّى تَنْكِحَ زَوْجًا غَيْرَهُ....الخ
سنن الترمذي: (کتاب الطلاق، رقم الحدیث: 1184، ط: دار الغرب الاسلامي)
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: ثَلَاثٌ جِدُّهُنَّ جِدٌّ، وَهَزْلُهُنَّ جِدٌّ النِّكَاحُ، وَالطَّلَاقُ، وَالرَّجْعَةُ . قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ، وَالْعَمَلُ عَلَى هَذَا عِنْدَ أَهْلِ الْعِلْمِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَغَيْرِهِمْ. قَالَ أَبُو عِيسَى: وعَبْدُ الرَّحْمَنِ: هُوَ ابْنُ حَبِيبِ بْنِ أَرْدَكَ الْمَدَنِيُّ، وَابْنُ مَاهَكَ هُوَ عِنْدِي يُوسُفُ بْنُ مَاهَكَ.
رد المحتار: (248/3، ط: دار الفکر)
"لو أراد طلاقها تكون الإضافة موجودةً ويكون المعنى فإني حلفت بالطلاق منك أو بطلاقك، ولايلزم كون الإضافة صريحةً في كلامه؛ لما في البحر لو قال: طالق فقيل له: من عنيت؟ فقال: امرأتي، طلقت امرأته، العادة أن من له امرأة إنما يحلف بطلاقها لا بطلاق غيرها، فقوله: إني حلفت بالطلاق ينصرف إليها ما لم يرد غيرها؛ لأنه يحتمله كلامه".
واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی