resize-left-dar mid-dar right-dar

عنوان: جناب رسول اللہ ﷺ اور حضرت یوسف علیہ السلام دونوں میں سب سے زیادہ حسین اور خوب صورت کون ہیں؟(9806-No)

سوال: ایک حديث میں ہے کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم سب سے خوبصورت تھے اور دوسری حديث میں ہے کہ یوسف علیہ السلام سب سے خوبصورت تھے اور ان کو اللہ نے نصف خوبصورتی دی تھی، مفتی صاحب! ان دونوں حدیثوں کی وضاحت فرمادیں۔

جواب: ہمارے پیارے رسول حضرت محمد مصطفی ﷺ اللہ تعالیٰ کی مخلوق میں سب سے زیادہ حسین وجمیل اور نہایت خوب صورت ہیں، یعنی آپ ﷺ کے اعضائے مبارکہ اور جسم مبارک کا ہر ہر جزو، بدنِ اطہر کی ساخت وپرداخت وغیرہ سب سے زیادہ معتدل تھا۔
جیسا کہ حدیث شریف میں ہے، حضرت قتادہ رحمۃ اللّٰہ علیہ فرماتے ہیں: اللہ تعالی نے ہر نبی کو خوب صورت چہرے اور بہترین آواز والا بنا کر مبعوث فرمایا اور تمہارا نبی ان سب میں سب سے زیادہ خوب صورت چہرے اور سب سے اچھی آواز والا ہے۔(شمائل ترمذی: حدیث نمبر: 303)
اسی طرح حضرت یوسف علیہ السلام کے بارے میں حدیث میں آتا ہے کہ انھیں (سارے انسانوں کی خوبصورتی اور حسن و جمال میں سے) آدھا حسن عطا کیا گیا تھا۔(صحیح مسلم، حدیث نمبر:162)
اس روایت سے یہ شبہ پیدا ہوتا ہے کہ حضرت یوسف علیہ السلام جناب رسول اللہ ﷺ سے زیادہ حسین تھے اور بظاہر دونوں روایات میں تعارض نظر آتا ہے۔
علمائے کرام نے اس تعارض کے کئی جوابات دیے ہیں:
1- حدیث میں کہا گیا ہے کہ ’’حضرت یوسف علیہ السلام کو نصف حسن سے نوازا گیا تھا ‘‘ اس کا مطلب یہ ہے کہ جناب رسول اللہﷺ کو جو حسن دیا گیا تھا، اس حسن کا نصف حضرت یوسف علیہ السلام کو دیا گیا تھا۔
2- عربی کا اصول ہے کہ متکلم (بات کرنے والا) خود عمومِ کلام میں داخل نہیں ہوتا ہے، اس لیے ’’حضرت یوسف علیہ السلام کو نصف حسن سے نوازا گیا تھا ‘‘ کا مطلب یہ ہے کہ جناب رسول اللہ ﷺ کے علاوہ دیگر انسانوں میں حضرت یوسف علی نبینا وعلیہ الصلاة والسلام کو نصف حسن دیا گیا تھا۔
اس کی تائید حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے اس شعر سے بھی ہوتی ہے، جس کا ترجمہ یہ ہے: حضرت یوسف علیہ السلام کا حسن دیکھ کر عورتوں نے اپنی انگلیاں کاٹ لی تھیں، اگر وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا حسن وجمال دیکھ لیتیں تو اپنے دل کاٹ لیتیں۔
3- حکیم الامت حضرت مولانا اشرف علی تھانوی(م 1362ھ) رحمہ اللہ نے بڑی اچھی توجیہ ذکر فرمائی ہے کہ حسن کی مختلف قسمیں ہیں:
ایک قسم یہ ہے کہ جو دیکھنے والے کو فورا متحیر کردے اور اس کے دقائق (باریکی) تامل اور غور و فکر کرنے سے متناہی (ختم) ہوجائیں، اس کا لقب حسنِ صباحت مناسب ہے۔
اور دوسری قسم وہ ہے کہ جو دیکھنے والے کو فورا تو متحیر نہ کرے، مگر جوں جوں اس کو دیکھا جائے، توں توں تحمل سے باہر ہوتا جائے اور غور وفکر کرنے سے حسن مزید دل میں گھستا چلاجائے، اس کا لقب حسنِ ملاحت مناسب ہے۔
پہلی قسم کے اعتبار سے حضرت یوسف علیہ السلام زیادہ حسین ہوں اور دوسری قسم میں حضور ﷺ زیادہ حسین ہوں، یعنی حضرت یوسف علیہ السلام کا حسن ظاہری طور پر بہت زیادہ ہو اور ایک حد تک ہو۔ اور حضور ﷺ کا حسن معنوی طور پر بہت لطیف اور نازک ہو اور بے انتہا ہو۔ پہلی قسم کا نام حسن صباحت (یعنی صاف رنگ کی خوبصورتی) اور دوسری قسم کا نام حسن ملاحت (یعنی چہرے کی کشش کی خوبصورتی) ہو۔
مولانا خلیل احمد سہارنپوری ؒ (م1346ھ)نے لکھا ہے کہ حسن اور جمال میں فرق ہے ۔ کسی چیز کا حسن دیکھنے والوں کی نسبت سے ہوتا ہے اور جمال جو کسی چیز میں ذاتی طور پر موجود ہوتا ہے تو حسین وہ ہوتا ہے جس کو لوگ اس کےصاف رنگ کی وجہ سے خوبصورت سمجھیں اور جمیل وہ ہوتا ہے جس کے جسم کے اعضاء متناسب اور معتدل ہو ،لہذا حضرت یوسف علیہ السلام تمام لوگوں میں سب سے زیادہ حسین تھے اور جناب رسول اللہ ﷺ تمام لوگوں میں سب سے زیادہ جمیل تھے او یعنی آپ ﷺ کے اعضائے مبارکہ اور جسم مبارک کا ہر ہر جزو، بدنِ اطہر کی ساخت وپرداخت وغیرہ سب سے زیادہ معتدل تھا۔
علامہ قرطبی ؒ نے لکھا ہے کہ ہمارے سامنے جناب رسول اللہ ﷺ کا پورا حسن اللہ تعالٰی نے ظاہر نہیں فرمایا، اگر اللہ تعالیٰ آپ ﷺ کا پورا حسن ظاہر فرما دیتے تو ہماری آنکھیں آپ ﷺ کو دیکھنے کی طاقت نہ رکھتی۔


۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:

الشمائل للترمذي:(183)،(303)،ط:داراحیاء التراث العربي)
عن قتادة قال:«ما بعث الله نبيا إلّا حسن الوجه حسن الصوت، وكان نبيّكم صلى الله عليه وسلم حسن الوجه حسن الصوت وكان لا يرجّع
کذا في مستدرك الحاكم: (2/623)( 4087، ط: دار الکتب العلمیة)

الصحيح لمسلم: (1/145)( 162)، ط: دار احياء التراث العربي)
ففي حديث طويل أخرجه الإمام مسلم في صحيحه"فإذا أنا بيوسف صلى الله عليه وسلم، إذا هو قد اعطي شطر الحسن، فرحب ودعا لي بخير".

فیض القدیر للمناوي: (2/3، ط: دار الکتب العلمیة)
في حديث: أعطي يوسف شطر الحسن يتبادر إلى إفهام بعض الناس أن الناس يشتركون في الشطر الثاني وليس كذلك بل المراد أنه أعطي شطر الحسن الذي أوتيه نبينا فإنه بلغ النهاية ويوسف بلغ شطرها.

فتح الباري لابن حجر العسقلاني: (7/210، ط: دار المعرفة)
زاد مسلم في رواية ثابت عن أنس فإذا هو قد أعطي شطر الحسن وفي حديث أبي سعيد عند البيهقي وأبي هريرة عند بن عائذ والطبراني فإذا أنا برجل أحسن ما خلق الله قد فضل الناس بالحسن كالقمر ليلة البدر على سائر الكواكب وهذا ظاهره أن يوسف عليه السلام كان أحسن من جميع الناس لكن روى الترمذي من حديث أنس ما بعث الله نبيا إلا حسن الوجه حسن الصوت وكان نبيكم أحسنهم وجها وأحسنهم صوتا فعلى هذا فيحمل حديث المعراج على أن المراد غير النبي صلى الله عليه وسلم ويؤيده قول من قال إن المتكلم لايدخل في عموم خطابه وأما حديث الباب فقد حمله بن المنير على أن المراد أن يوسف أعطي شطر الحسن الذي أوتيه نبينا صلى الله عليه وسلم والله أعلم.
کذا في فیض القدیر للمناوي: (2/4، ط: دار الکتب العلمیة)
کذا في جمع الوسائل فی شرح الشمائل: (2/143، ط: المطبعة الأدبية الكائنة)

اشرف الجواب للتھانوي: (495، ط: مکتبہ عمر فاروق) کذا فی نشر الطیب للتھانوي: (64، ط: مشتاق بك كارنر، لاہور)

فتح الملھم شرح الصحیح لمسلم: (2/250، ط: دار احیاء التراث العربی)
قال العبد الضعيف عفا الله عنه: فرق شيخ شيخنا قدس اللہ روحھما بین مفھومي الحسن و الجمال بأن حسن الشيء بالنسبة إلى الرائين، و جماله في حد ذاته، فالحَسِين من استحسنه الناظرون لصفاء منظره و وضوح رونقه و بهائه، والجمیل من کان متناسب الأعضاء أي: کل عضو منہ مناسب لمقابلہ وملاصقة في صفاتہ المستحسنة ووصفہ کالطول والقصر والصغر مع صفاء لونہ واعتدال قدرہ.لعل إلى هذا الجمال الذي ينبغي أن يسمى بالحسن النظري أشار القائل بقوله:
يزيدك وجهه حسناً إذا ما زدته نظراً
وادعی شیخ شیخنا نور اللہ مرقدہ أن نبینا کان أجمل خلق اللہ کما أن یوسف علیہ الصلاة والسلام کان أحسنه .....قال علي القاري: وقد قال بعض الحفاظ من المتأخرین وھو من مشایخنا المعتبرین: إنه کان أحسن من یوسف علیه السلام إذ لم ینقل أن صورته کان یقع من ضوئھا علی الجدران ما یصیر کالمرآة یحکي ما یقابله، وقد حکی ذلک عن صورة نبینا صلی اللہ علیہ وسلم لکن اللہ تعالی ستر عن أصحابه کثیراً من ذلک الجمال الباھر فإنہ لو برز لھم لم یطیقوا النظر إلیه کما قاله بعض المحققین، أما جمال یوسف علیه السلام فلم یستر منه شیٴ.

سبل الهدى والرشاد للشامي الصالحي: (2/7، ط: دار الكتب العلمية)
وقال القرطبي رحمه اللَّه تعالى: قال بعضهم، لم يظهر لنا تمام حسنه صلى الله عليه وسلم لأنه لو ظهر لنا تمام حسنه لما طاقت أعيننا رؤيته صلى الله عليه وسلم. ويرحم اللَّه تعالى الشرف البوصيري حيث قال:
فهو الذي تم معناه وصورته ... ثم اصطفاه حبيبا بارى النسم.

واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص، کراچی

hazrat muhammad sallalaho alihe wasala or hazrat yousuf alihe salam done me say zyada khobsorat or haseen kon hain?

Find here answers of your daily concerns or questions about daily life according to Islam and Sharia. This category covers your asking about the category of Interpretation and research of Ahadees