سوال:
السلام علیکم ! بعض اوقات امام اور مقتدی میں ایک مقیم اور ایک مسافر ہوتا ہے، اگر مقتدی کو نیت کرتے وقت امام کی نیت کا فرق پتہ نہ ہو تو کیا حکم ہے؟
معروف یہ ہے کہ اگر مقتدی مقیم ہو اور بغیر علم کے اس نے چار رکعت کی نیت کی جبکہ امام کی نیت دو رکعت کی تھی تو کوئی حرج نہیں ہوگا بشرطیکہ مقتدی سلام کے بعد رکعتیں پوری کرلے۔
دوسری صورت یہ کہ مقتدی مسافر تھا اور اس نے (گمان یا قرائن) سے امام کو مسافر خیال کرکے دو رکعت کی نیت کی جبکہ امام مقیم نکلا اور چار رکعت پوری کیں اور مقتدی نے بھی پوری کیں اب کیا مقتدی کی نیت کی وجہ سے کوئی فرق پڑے گا؟
جواب: یاد رہے کہ فرض نمازوں کی نیت کرتے ہوئے اس بات کی تعیین ضروری ہے کہ کون سے وقت کی نماز پڑھ رہا ہے، البتہ رکعتوں کی تعداد متعین کرنا ضروری نہیں ہے، لہذا اگر کسی سے رکعتوں کی تعداد متعین کرنے میں غلطی واقع ہوجائے، تو اس سے اس کی نماز پر کوئی فرق نہیں پڑے گا۔
پوچھی گئی صورت میں اگر مقیم مقتدی نے چار رکعت کی نیت کی اور امام نے دوسری رکعت پر سلام پھیردیا، اور مقیم مقتدی کو معلوم ہوگیا کہ امام مسافر ہے، تو وہ لاحق کی طرح بغیر قراءت کیے اپنی بقیہ نماز پوری کریگا، اور اس کی نماز درست ہو جائے گی۔
اسی طرح اگر کسی مسافر نے دو رکعت کی اقتداء کی نیت کی، لیکن بعد میں معلوم ہوا کہ امام مقیم ہے، اور اس نے چار رکعتیں پڑھا دیں، تو اس صورت میں بھی مسافر مقتدی کی نماز درست ہو جائے گی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
الدر المختار: (128/2، ط: دار الفکر)
وأطلقه فشمل ما إذا نوي أربعا أو ركعتين خلافا لما أفاده في الدرر من اشتراط النية ركعتين لما في الشرنبلالية من أنه لا يشترط نية عدد الركعات ولما صرح به الزيلعي في باب السهو من أن الساهي لو سلم للقطع يسجد لأنه نوى تغيير المشروع فتلغو، كما لو نوى الظهر ستا أو نوى مسافر الظهر أربعا أفاده أبو السعود عن شيخه. قلت: لكن ذكر في الجوهرة أنه يصح عند أبي يوسف ولا يصح عند محمد.
غنیة المستملي: (ص: 249، ط: سھیل اکیدمي)
و لا یشترط نیة اعداد الرکعات اجماعا لعدم الاحتیاج الیھا لکون العدد متعینا بتعیین الصلاۃ۔
الھدایة: (175/1، ط: رحمانیة)
و ان اقتدی المسافر بالمقیم فی الوقت اتم أربعاً، لانه یتغیر فرضه الی اربع للتبعیة۔۔۔۔و ان صلی المسافر بالمقیمین رکعتین سلم واتم المقیمون صلاتهم لان المقتدي التزم الموافقة فی الرکعتین فینفرد فی الباقی کالمسبوق، الا انه لا یقرأ فی الاصح ۔۔۔ و یستحب للامام اذا سلم ان یقول اتموا صلاتکم فانا قوم سفر۔
غنیة المستملي: (ص: 543، ط: سهیل اکیدمي)
و لو اقتدی المقیم بالمسافر صح، سواء کان فی الوقت او خارجه لعدم المانع، فاذا صلی المسافر رکعتین سلم و یقوم المقیم فیتم صلوته بغیر قراءۃ فی الاصح۔
واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی