سوال:
نکاح میں مھر فاطمی رکھنے کی صورت میں اگر اسکی ادائیگی اسی وقت نا کی جائے تو کیا وقت کے ساتھ ساتھ اس میں اضافہ ہوتا رہتا ہے مثلا تین ماہ پہلے نکاح ہوا تو پیسوں میں ایک لاکھ ستر ہزار بنتے تھے اور اب وہ دو لاکھ بن گئے ہیں تو کتنے ادا کرنے پڑیں گے؟ کیونکہ اب بیوی کو طلاق ہوگئی ہے اور اب لڑکی والے دو لاکھ روپے کا مطالبہ کر رہے ہیں۔
جواب: یاد رہے کہ احادیث کی روشنی میں "مہر فاطمی" کی مقدار ایک سو اکتیس تولہ اور تین ماشہ چاندی بنتی ہے، اور گرام کے حساب سے "مہر فاطمی" ایک کلو پانچ سو تیس (530) گرام اور نو سو (900) ملی گرام چاندی ہے۔
مہر فاطمی مقرر کرنے سے شوہر کے ذمہ چاندی کی مذکورہ مقدار لازم ہو جاتی ہے، پھر اگر شوہر اسکی قیمت ادا کرنا چاہے، تو ادائیگی کے دن کی قیمت کا اعتبار ہوگا۔
لہذا سوال میں پوچھی گئی صورت میں شوہر کے ذمہ چاندی کی موجودہ قیمت کے حساب سے رقم ادا کرنا لازم ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
صحیح مسلم: (باب الصداق و جواز کونه تعلیم قران، رقم الحدیث: 1426، 1042/2، ط: دار احياء التراث العربي)
عَنْ أَبِي سَلَمَةَ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ أَنَّهُ قَالَ سَأَلْتُ عَائِشَةَ زَوْجَ النَّبِيِّ کَمْ کَانَ صَدَاقُ رَسُولِ اﷲِ؟ قَالَتْ کَانَ صَدَاقُهُ لِأَزْوَاجِهِ ثِنْتَيْ عَشْرَةَ أُوقِيَةً وَنَشًّا قَالَتْ أَتَدْرِي مَا النَّشُّ؟ قَالَ قُلْتُ لَا قَالَتْ نِصْفُ أُوقِيَةٍ فَتِلْکَ خَمْسُ مِائَةِ دِرْهَمٍ فَهَذَا صَدَاقُ رَسُولِ اﷲِ لِأَزْوَاجِهِ.
مصنف ابن ابي شیبة: (رقم الحدیث: 16373، 493/3، ط: مکتبة الرشد)
عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ اِبْرَاهِيْمَ قَالَ صَدَاقُ بَنَاتٍ النَّبِيِّ وَصَدَاقُ نِسَائِهِ خَمْسُ مِائَةِ دِرْهَمٍ.
الطبقات الکبري: (22/8، ط: دار صادر)
اِثْنَيْ عَشَرَ أَوْقِيَةَ وَنِصْفًا.
واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی