resize-left-dar mid-dar right-dar

عنوان: "حج ادا کرنے کے بعد حاجی کی دعائے مغفرت ربیع الاول تک قبول ہوتی ہے" احادیث کی تحقیق وتخریج(9819-No)

سوال: سنا ہے کہ حدیث شریف میں آیا ہے کہ حاجی کی دعا ربیع الاول تک قبول ہوتی ہے، کیا یہ بات صحیح ہے؟

جواب: حج کی ادائیگی کے بعد کتنی مدت تک حاجی کی دعا قبول ہوتی ہے، اس حوالہ سے دو طرح کی روایات ملتی ہیں:
(1)مرفوع روایت (جس میں نبی ﷺ کی جانب روایت کومنسوب کیا گیا ہو)،اس میں ماہ محرم کے گزرنے تک قبولیتِ دعا کی تحدید ہے۔
(2)موقوف روایت(جس میں صحابی رضی اللہ عنہ کی جانب اس قول کی نسبت کی گئی ہو)، اس قسم کی روایات میں دس یا بیس ربیع الاول تک کی صراحت ہے۔
تاہم تمام روایات انقطاع وضعف سے خالی نہیں ہیں، لیکن تعدد ِ روایات اور بعض مطلق شواہد (جن میں کسی قسم کی تحدید وتعیین نہیں) کی بناء پر مذکورہ تمام روایات کی روشنی میں دریافت کردہ روایت کی اصل ہونا معلوم ہوتی ہے، لہذا روایت کے مضمون کو آگے بیان کرنے میں حرج نہیں۔
مرفوع روایات کی تخریج :
(1)علامہ فاکہی رحمہ اللہ نے اپنی سند سے معاویة سے نقل کیا ہے کہ رسول اللہﷺ نے ارشاد فرمایا:"حاجی، اورجس کے لیے حاجی مغفرت کی دعا کرے، ماہ محرم کے گزرنے تک بخشش کی دعا قبول کی جاتی ہے۔" (أخبار مكة في قديم الدهر وحديثه، للفاکهي، 425/1، المحقق: د. عبد الملك عبد الله دهيش، الناشر: دار خضر – بيروت)
(2) حضرت علقمہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبیﷺنے ارشاد فرمایا:"حاجی، اورجس کے لیے حاجی مغفرت کی دعا کرے، ماہ محرم کے گزرنے تک بخشش کی دعا قبول کی جاتی ہے"۔( مسند أبي حنيفة رواية الحصكفي، کتاب الحج، تحقيق: عبد الرحمن حسن محمود، الناشر: الآداب – مصر)
موقوف روایات کی تخریج:
(1)علامہ دینوری رحمہ اللہ نے اپنی سند سے یاسین بن زیات سے نقل کیا ہے، وہ فرماتے ہیں کہ حاجی، اور جس کے لیے حاجی مغفرت کى دعا کرے، دونوں کی مغفرت کردی جاتی ہے،جس کی مدت ذی الحجہ کے بقیہ ایام، محرم، صفر اور ماہ ربیع الاول کے ابتدائی بیس دن تک ہے۔(المجالسة وجواهر العلم، 147/6، رقم الحدیث :2476، جمعیة التربیة الإسلامیة)
(2) حضرت مہاجر سے روایت ہے کہ حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے ارشاد فرمایا: حاجی اور جس کے لیے حاجی مغفرت کی دعا مانگے دونوں کی مغفرت کردی جاتی ہے، (اس قبولیت ِ دعا کی تحدید) ذی الحجہ کے بقیہ ایام، محرم، صفر اور ربیع الاول کے دس دن ہیں۔
مضمون کی تائید کے لیے مطلق شواہد:
مندرجہ بالا مضمون کی تائید کے لئے مطلق شواہد درج ِ ذیل ہیں، جن میں مدت کی تعیین نہیں ہے:
(1) حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا : حاجی اور جس کے لئے حاجی مغفرت کی دعا کرے، دونوں کی مغفرت کردی جاتی ہے۔ (صحیح ابن خزیمة، لأبي بکر محمد بن إسحاق السلمي النیسابوري، کتاب المناسک، باب استحباب دعاء الحاج، 132/4، رقم الحدیث:2516، المحقق: د. محمد مصطفى الأعظمي، الناشر: المكتب الإسلامي – بيروت)
(2) حضرت ابو موسی اشعری رضی اللہ عنہ سے مرفوعا روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺنے ارشادفرمایا: حاجی اپنے خاندان میں چار سو افراد کے لیے سفارش کرے گا، اور اپنے گناہوں سے اس طرح بخش دیا جاتا ہے گویا کہ اس کی ماں نے آج ہی جنا ہو۔ (مسند البزار المنشور باسم البحر الزخار، لأبي بکر أحمد بن عمرو المعروف ب"البزار"، مسند أبي حمزة أنس بن مالک، 135/17، رقم الحدیث:9726، محقق الأجزاء من 10 إلى 17: عادل بن سعد، مکتبة العلوم الحکم)
(3) حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ جب حاجی سے ملاقات کرو تو اسے سلام کرکے مصافحہ کرو، اور اس کو گھر میں داخلہ سے قبل اپنے لیے دعاء مغفرت کی درخواست کرو، چونکہ حق تعالی کی جانب سے اس کی بخشش کردی گئی ہوتی ہے۔(مسند أحمد، لأبي عبدالله أحمد بن حنبل الشیباني، مسند المکثرین من الصحابة، مسند عبدالله بن عمر رضي الله عنهما، 272/9، رقم الحدیث: 5371، المحقق: شعيب الأرنؤوط - عادل مرشد، وآخرون، إشراف: د عبد الله بن عبد المحسن التركي، الناشر: مؤسسة الرسالة)

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:

أخبار مكة في قديم الدهر وحديثه، لأبي عبدالله محمد بن إسحاق الفاکهي، 425/1، المحقق: د. عبد الملك عبد الله دهيش، الناشر: دار خضر – بيروت:
عن معاوية بن إسحاق، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " الحاج يغفر له، ولمن استغفر له الحاج إلى انسلاخ المحرم "۔

مسند أبي حنيفة رواية الحصكفي، کتاب الحج، تحقيق: عبد الرحمن حسن محمود، الناشر: الآداب – مصر:
عن علقمة، عن النبي صلى الله عليه وسلم، قال: «الحاج مغفور له، ولمن استغفر له إلى انسلاخ المحرم»۔

المجالسة وجواهر العلم، للدینوري، الجزء الثامن عشر، 147/6، رقم الحدیث :2476، جمعیة التربیة الإسلامیة:
أخرج الدینوري بسنده عن ياسين الزيات، قال: يغفر للحاج ولمن استغفر [له] الحاج ذا الحجة والمحرم وصفر وعشرين من شهر ربيع الأول.

إتحاف الخيرة المهرة بزوائد المسانيد العشرة،لأبي العباس شهاب الدین البوصیري، کتاب الحج، باب البشیر بخبر الحاج، 265/3، رقم الحدیث: 2713، المحقق: دار المشكاة للبحث العلمي بإشراف أبو تميم ياسر بن إبراهيم، دار النشر: دار الوطن للنشر، الرياض:
عن المهاجر قال: قال عمر بن الخطاب- رضي الله عنه-: "يغفر للحاج ولمن يستغفر له الحاج بقية ذي الحجة والمحرم وصفر وعشرا من ربيع ". رواه مسدد، وفي سنده ليث بن أبي سليم، والجمهور على تضعيفه.

صحیح ابن خزیمة، لأبي بکر محمد بن إسحاق السلمي النیسابوري، کتاب المناسک، باب استحباب دعاء الحاج، 132/4، رقم الحدیث:2516، المحقق: د. محمد مصطفى الأعظمي، الناشر: المكتب الإسلامي – بيروت:
عن أبي هريرة رضي الله عنه ، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: "يغفر للحاج ولمن استغفر له الحاج".

مسند البزار المنشور باسم البحر الزخار، لأبي بکر أحمد بن عمرو المعروف ب"البزار"، مسند أبي حمزة أنس بن مالک، 135/17، رقم الحدیث:9726، محقق الأجزاء من 10 إلى 17: عادل بن سعد، مکتبة العلوم الحکم:
عن أبي موسى الأشعري، رفعه إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: «الحاج يشفع في أربع مائة أهل بيت، أو قال من أهل بيته، ويخرج من ذنوبه كيوم ولدته أمه»

مسند أحمد، لأبي عبدالله أحمد بن حنبل الشیباني، مسند المکثرین من الصحابة، مسند عبدالله بن عمر رضي الله عنهما، 272/9، رقم الحدیث: 5371، المحقق: شعيب الأرنؤوط - عادل مرشد، وآخرون، إشراف: د عبد الله بن عبد المحسن التركي، الناشر: مؤسسة الرسالة:
"إذا لقیت الحاج فسلم علیه وصافحه، ومره أن یستغفرلک قبل أن یدخل بیته؛ فإنه مغفور له"۔

واللہ تعالیٰ اعلم بالصواب
دارالإفتاء الاخلاص،کراچی

hajj karne k bad haji ki dua e maghfirat rabi ul awal tak qabol hoti hay. is bare mein ahadees ki tehqeeq wa takhreej.

Find here answers of your daily concerns or questions about daily life according to Islam and Sharia. This category covers your asking about the category of Interpretation and research of Ahadees