عنوان: ایکسیڈنٹ کی صورت میں گاڑی کے نقصان کا تاوان (Claim) وصول کرنا(9846-No)

سوال: پچھلے پندرہ دن پہلے میرے گھر کے گیٹ پر پارک کی گئی بالکل نئی گاڑی (ٹویوٹا فارچیونر) کو ایک موٹر سائیکل سوار مزدور نے ٹکر مار دی، اس شخص کے ٹھیکیدار نے مرمت کا خرچہ ادا کرنے پر رضامندی ظاہر کی، ٹویوٹا موٹرز کی جانب سے گاڑی کا معائنہ کیا گیا اور اس پیش آنے والے نقصان کی قیمت کا تخمینہ صرف ایک لاکھ دو ہزار روپے لگایا گیا۔
ٹھیکیدار نے یہ رقم بھی مجھے ادا کر دی، تاہم میری گاڑی خریداری کے وقت مکمل (جوبلی انشورنس سے) بیمہ شدہ ہے جس کے میں نے جون 2022 میں 2 لاکھ روپے ادا کیے ہیں انشورنس کمپنی نے میرا کلیم قبول کر لیا اور اب تک مجھ سے کوئی چارج نہیں لیا گیا، اس حادثے کی وجہ سے گاڑی کی باڈی پر کچھ معمولی ڈینٹ اور نشانات بھی آئے ہیں، جن کو برقرار رکھنے کی وجہ سے میں نے مرمت نہیں کی، لیکن میں ان عوامل سے ری سیل ویلیو کے اثرات کو جانتا ہوں، جو کہ ری سیل قیمت پر 3 سے 4 لاکھ کمی کی صورت میں ظاہر ہوں گے۔ اس لیے میں صرف یہ جاننا چاہتا ہوں کہ جرمانے کی رقم (صرف ایک لاکھ دو ہزار روپے) اس پس منظر میں میرے لیے استعمال کرنا حلال ہے یا نہیں؟

جواب: واضح رہے کہ مروجہ انشورنس سود، قمار اور غرر پر مشتمل ہونے کی وجہ سے شرعا ناجائز اور حرام ہے، جس سے اجتناب لازم ہے، لہٰذا انشورنس کمپنی سے قسطوں کی مد میں اپنی جمع کرائی ہوئی اصل رقم کی حد تک رقم واپس لے سکتے ہیں، اس سے زائد رقم وصول ہو تو اس کا استعمال آپ کے لیے جائز نہیں ہے، اسے بلا نیتِ ثواب صدقہ کرنا واجب ہے، البتہ اس سلسلہ میں انشورنس کے بجائے مستند علمائے کرام کی زیرِ نگرانی چلنے والی کسی تکافل کمپنی سے معاملہ کیا جاسکتا ہے۔
جہاں تک مذکورہ تاوان کا تعلق ہے تو اگر یہ ثابت ہوجائے کہ موٹر سائیکل سوار اس حادثے میں مکمل طور پر قصوروار تھا، اور گاڑی پارک کرنے میں آپ کی بالکل بھی کوئی غلطی نہیں تھی تو ایسی صورت میں حقیقی نقصان کی حد تک جرمانہ وصول کرنا آپ کے لیے جائز ہے، ليكن اگر گھر سے باہر گاڑی پارک کرنے میں آپ کی کوئی غلطی ہو تو ایسی صورت میں آپ کے لیے جرمانہ وصول کرنا جائز نہیں ہوگا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:

المبسوط للسرخسي: (3/27، ط: دار المعرفة)
وإذا أقاد الرجل ‌قطارا في طريق المسلمين فما وطئ أول القطار وآخره فالقائد ‌ضامن له.

الهداية في شرح بداية المبتدي: (481/4، ط: دار إحياء التراث العربي)
قال: "ومن قاد ‌قطارا فهو ‌ضامن لما أوطأ"، فإن وطئ بعير إنسانا ضمن به القائد والدية على العاقلة لأن القائد عليه حفظ القطار كالسائق وقد أمكنه ذلك وقد صار متعديا بالتقصير فيه، والتسبب بوصف التعدي سبب للضمان، إلا أن ضمان النفس على العاقلة فيه وضمان المال في ماله".

البحر الرائق شرح كنز الدقائق: (406/8، ط: دار الكتاب الإسلامي)
قال - رحمه الله - (ضمن الراكب ما أوطأت دابته بيد ورجل أو رأس أو كدمت أو خبطت أو صدمت لا ما نفحت برجل أو ذنب إلا إذا أوقفها في الطريق) والأصل في هذا الباب أن المرور في ‌طريق ‌المسلمين مباح بشرط السلامة؛ لأنه تصرف في حقه وفي حق غيره من وجه لكونه مشتركا بين كل الناس إذ الإباحة مقيدة بالسلامة، والاحتراز عن الإيطاء والكدم والصدم والخبط ممكن؛ لأنه ليس من ضرورة السير وقيدناه بشرط السلامة وفي العيني على الهداية الكدم بمقدم الإنسان والخبط باليد والصدم هو أن تطلب الشيء بجسدك، ولا يمكن الاحتراز عن النفحة أيضا؛ لأنه يمكن الاحتراز عن الإيقاف وهو المراد بقوله إلا إذا أوقفها في الطريق أطلق فيما ذكره وهو ‌مقيد بأن يكون في غير ملكه.

مجمع الضمانات: (ص: 185، ط: دار الكتاب الإسلامي)
(الْفَصْلُ الْخَامِسُ: فِي جِنَايَةِ الْبَهِيمَةِ وَالْجِنَايَةِ عَلَيْهَا) الرَّاكِبُ ضَامِنٌ لِمَا وَطِئَتْ الدَّابَّةُ وَلِمَا أَصَابَتْ بِيَدِهَا، أَوْ رِجْلِهَا، أَوْ رَأْسِهَا، أَوْ كَدَمَتْ، أَوْ خَبَطَتْ، وَكَذَا إذَا صَدَمَتْ وَلَا يَضْمَنُ مَا نَفَحَتْ بِرِجْلِهَا، أَوْ ذَنَبِهَا، وَإِنْ أَوْقَفَهَا فِي الطَّرِيقِ ضَمِنَ النَّفْحَةَ أَيْضًا؛ لِأَنَّهُ مُتَعَدٍّ بِالْإِيقَافِ.

و فیه أيضا: (ص: 187، ط: دار الكتاب الإسلامي)
ومن قاد قطارا فهو ضامن لما أوطأ فإن وطئ بعير إنسانا ضمن به الدية على العاقلة، وإن أتلف مالا فعليه الضمان من ماله.

و فیه أيضا: (ص: 188، ط: دار الكتاب الإسلامي)
ولو ربط دابة في الطريق ثم باعها فقال للمشتري خليتك وإياها فاقبضها كان قبضا له فإن جنت الدابة في رباطها فالضمان على البائع، وإن جالت في رباطها في موضعها لا يبرأ البائع عن ضمانها ما لم تحل الرباط وتنتقل عن موضعها فقبل ذلك ما تلف بها كان ضمان ذلك على البائع.

و فیه أيضا: (ص: 177، ط: دار الكتاب الإسلامي)
وعن أبي حنيفة - رحمه الله - إذا كان الطريق غير نافذ فلكل واحد من أصحاب الطريق أن يضع فيه خشبه ويربط فيه الدابة ويتوضأ فيه، وإن عطب بذلك إنسان لا يضمن. وكذا لو ألقى فيه طينا، أو ترابا لا يضمن فإن بنى فيه بيتا، أو حفر بئرا فعطب به إنسان كان ضامنا ولكل من صاحب الدار الانتفاع بفناء داره من إلقاء الطين والحطب وربط الدابة وبناء الدكان والتنور بشرط السلامة وذكر الشيخ خواهر زاده إذا أحدث في سكة غير نافذة ينظر إن أحدث ما لا يكون من جملة السكنى فتلف به إنسان وجب الضمان ويسقط من ذلك قدر حصة نفسه ويضمن حصة شركائه، وإن أحدث ما هو من جملة السكنى كوضع المتاع وربط الدابة لا يكون ضامنا؛ لأن له أن يفعل ذلك.

واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی

Print Full Screen Views: 1268 Oct 03, 2022
accident ki sorat me / mein gari / car k nuqsan ka tawan/ claim wasol karna

Find here answers of your daily concerns or questions about daily life according to Islam and Sharia. This category covers your asking about the category of Loan, Interest, Gambling & Insurance

Managed by: Hamariweb.com / Islamuna.com

Copyright © Al-Ikhalsonline 2024.