عنوان: حضرت ابو دجانہؓ سے منسوب ایک واقعے (کھجور کی فصل پک رہی ہے میرے پڑوسی کے گھر میں لگے کھجور کے درخت کی کچھ شاخیں میرے گھر کے اوپر ہیں) کی تحقیق (9848-No)

سوال: مندرجہ ذیل حدیث کی تحقیق و تشریح درکار ہے:
"نمازِ فجر کی جماعت میں جیسے ہی نبی رحمت محمد مصطفٰی ﷺ سلام پھیرتے، حضرت ابو دجانہؓ اٹھ کر جلدی جلدی چل دیتے، باقی صحابہ کرامؓ محفل نبوی میں کچھ دیر بیٹھے رہتے، جب تواتر سے یہ ہوا تو نبی رحمت ﷺ کی توجہ کچھ صحابہ کرامؓ نے ابو دجانہؓ کی طرف کرائی، اگلے دن سلام پھیرنے کے بعد محمد عربی ﷺ نے ابو دجانہؓ کو آواز دی ابو دجانہ! ابو دجانہؓ نے کہا: لبیک یا رسول اللہ! نبی رحمت ﷺ نے دریافت کیا: کیا بات ہے آج کل سلام پھیرتے ہی مسجد سے نکل جاتے ہو؟
ابو دجانہؓ نے کہا اے اللہ کے نبی! کھجور کی فصل پک رہی ہے میرے پڑوسی کے گھر میں لگے کھجور کے درخت کی کچھ شاخیں میرے گھر کے اوپر ہیں، رات میں پرندوں کی وجہ سے کچھ پکی کھجوریں میرے گھر کے صحن میں گر جاتی ہیں، میں اس لئے نماز کے بعد جلدی کرتا ہوں کہ بچوں کے جاگنے سے پہلے وہ کھجوریں سمیٹ کر پڑوسی کے صحن میں رکھ دوں کہ کہیں میرے بچے بچپن کی لاعلمی میں وہ مال نہ کھا لیں جو ان کیلئے جائز نہیں۔ نبی رحمت محمد مصطفیٰ ﷺ نے کہا: ابودجانہ تمہیں بشارت ہو، اللہ رب العزت تمہاری اس ادا سے اتنا خوش ہوا کہ تمہارے لئے جنت کی بشارت ہے (بخاری)

جواب: سوال میں حضرت ابو دجانہ رضی اللّٰہ عنہ سے منسوب واقعہ حدیث کی کسی مستند کتاب اور کسی معتبر سند سے ثابت نہیں ہے، بلکہ یہ واقعہ امام عبد الرحمن بن عبد السلام الصفوری رحمہ اللہ متوفی 894ھ نے اپنی کتاب "نزہۃ المجالس ومنتخب النفائس" ص 238 میں بلا سند ایک حکایت کے طور پر نقل کیا ہے۔
چونکہ مذکورہ بالا کتاب میں بغیر سند کے بہت سی من گھڑت احادیث اور اسرائیلی روایات بیان کی گئی ہیں، اس لیے یہ کتاب حدیث و سنت کے حوالہ سے معتبر و مستند نہیں ہے، لہذا اس میں بیان کی گئی کسی بھی حدیث اور آنحضرت صلی اللّٰہ علیہ وسلم کی طرف منسوب واقعے کی جب تک دوسری کتبِ احادیث سے تصدیق اور تائید نہ ہو جائے، اس وقت تک محض اس کتاب (نزهة المجالس) پر اعتماد کرتے ہوئے آنحضرت صلی اللّٰہ علیہ وسلم سے منسوب کوئی بھی حدیث بیان کرنا درست نہیں ہے، لہذا اس واقعہ کو بطورِ حدیث بیان کرنا درست نہیں ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:

نزهة المجالس ومنتخب النفائس: (باب الكرم والفتوة ورد السلام، 238، ط: المکتب الثقافی- القاھرۃ)
"حكاية: كان فى زمن النبى صلى اللّٰه عليه وسلم رجل يقال له ابو دجانة فإذا صلى الصبح خرج من المسجد سريعا ولم يحضر الدعاء ، فساله النبى صلى اللّٰه عليه وسلم عن ذالك، فقال: جاري له نخلة يسقط رطبها فى داري ليلا من الهواء فاسبق اولادي قبل ان يستيقظوا فاطرحه فى داره فقال النبيﷺلصاحبها:بعني نخلتك بعشر نخلات فى الجنة عروقها من ذهب احمر وزبرجد اخضر واغصانها من اللولو الابيض فقال:لا ابيع حاضرا بغائب، فقال ابو بكر:قد اشتريتها منه بعشر نخلات فى مكان كذا، فرح المنافق ووهب النخلة التى فى داره لابي دجانة وقال لزوجته:قد بعت هذه النخلة لابي بكر بعشر نخلات فى مكان كذا وهى داري فلا ندفع لصاحبها إلا القليل، فلما نام تلك الليلة واصبح وجد النخلة قد تحولت من داره إلى دار ابي دجانة".

کذا فی فتاویٰ دارالافتاء جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری تاؤن، رقم الفتوی: 144107201024

واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالإفتاء الاخلاص،کراچی

Print Full Screen Views: 1839 Oct 04, 2022
hazrat abu dujana razi Allaho anho se mansob aik waqa / waqe ki tehqeeq

Find here answers of your daily concerns or questions about daily life according to Islam and Sharia. This category covers your asking about the category of Interpretation and research of Ahadees

Managed by: Hamariweb.com / Islamuna.com

Copyright © Al-Ikhalsonline 2024.