عنوان: اذان میں "حی علی الصلوۃ" اور "حی علی الفلاح" پر مد کرنا، سابقہ فتویٰ پر ہونے والے اشکالات کی مکمل اور مفصل تحقیق (9854-No)

سوال: محترم مفتی صاحب! دار الافتاء الاخلاص کے درج ذیل مسئلے پر علمی طور پر ایک شبہ ہے، وہ مسئلہ اس لنک پر موجود ہے:
https://alikhlasonline.com/detail.aspx?id=2756
سوال یہ ہے کہ کیا یہ فتویٰ درست ہے؟ ہمارے خیال میں اس فتوی میں پانچ الف کی مقدار کی صراحت ہونی چاہیے۔ میری رائے یہ ہے کہ تجوید کے قواعد اس پر جاری ہوں گے، اور تجوید کی رو سے یہاں وقف کی جو مقدار ہے، اس کی وضاحت کرنی چاہیے، اس سے زائد کو ممنوع قرار دینا چاہیے، یعنی یہاں یہ تحقیق ہوجائے کہ یہاں کون سا مد بنتا ہے، اس کا نام کیا ہے اور اس کی کتنی مقدار ہے، چونکہ ہمارے ہاں عموما اس سے تجاوز ہی کیا جاتا ہے، اس لیے اس پر تحقیق ہونی چاہیے۔

جواب: واضح رہے کہ علم تجوید کے قواعد بنیادی طور پر قرآن شریف کی تلاوت و قراءت کے لیے ہیں، اذان میں بھی ان قواعد کے جاری ہونے کے لیے مستقل دلیل کی ضرورت ہے، حضورﷺ کی احادیث اور حضراتِ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے کلام میں قرآن شریف کو تجوید کے قواعد کے ساتھ پڑھنے اور پڑھانے کی صراحتیں موجود ہیں، اور قراءت و تلاوت میں ان قواعد کی پیروی نہ کرنے والے پر نکیر بھی کی گئی ہے، جیسے "إنما الصدقات للفقراء والمساكين" والی آیت ایک صاحب نے پڑھی تو حضرت عبد اللہ بن مسعودؒ نے اسے ٹوکا اور فرمایا کہ حضورﷺ نے ہمیں اس طرح نہیں پڑھایا، اور پھر انہوں نے یہ آیت پڑھی، جس میں انہوں "للفقرآء" پر مد کیا۔
لیکن اذان میں بھی تجوید کے قواعد کی پیروی کرنے کی ہمیں کوئی صراحت نہیں ملی، اور نہ ہی کوئی ایسا حوالہ ملا جس میں یہ ثابت ہو کہ کبھی حضراتِ صحابہ، فقہاء یا مقری حضرات نے اس کا حکم دیا ہے۔ البتہ اذان میں تحسینِ صوت اور تطریب کا حکم دیا گیا ہے، یعنی اچھی اور خوبصورت آواز میں اذان دینا تاکہ لوگوں کو نماز کی طرف کشش پیدا ہو، چنانچہ المحیط البرھاني میں ہے:
ولا بأس بالتطريب في الأذان، وهو تحسين الصوت من غير أن يتغير، فإن تغير بلحنه أو ما أشبه ذلك كره، قال شمس الأئمة الحلواني؛ إنما يكره ذلك فيما كان من الأذكار، أما قوله حيّ على الصلاة حيّ على الفلاح لا بأس بإدخال المد فيه. (1/ 351، ط: دار الكتب العلمية)
ترجمہ:
"اذان میں آواز اور لہجے میں خوبصورتی پیدا کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے، جب تک کہ الفاظ و معانی میں تغیر پیدا نہ ہو، اگر کسی لہجے یا ترنم کی وجہ سے تغیر پیدا ہوجائے تو یہ مکروہ ہے۔
شمس الائمہ حلوانیؒ کہتے ہیں کہ ترنم تو صرف اذکار وغیرہ میں ممنوع ہے، جہاں تک حی علی الصلوۃ اور حی علی الفلاح کا تعلق ہے تو ان دونوں میں "مد" کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔"
تاہم اس طرح کے لہجے سے اذان دینا کہ جس سے حروف میں تغیر پیدا ہوجائے منع کیا گیا ہے، نیز اذان میں آواز کو توڑ توڑ کر کلمات کو ادا کرنا یا تکلف کرکے ایسی گڑگڑاہٹ پیدا کرنا جس سے سننے والوں پر غم یا فرح و سرور کی کیفیت طاری ہونے لگے یا اس طریقے سے ترنم میں تکلف کرنا کہ خشوع اور وقار کے خلاف محسوس ہو یا وہ گانے کی طرح محسوس ہو تو ایسا کرنا درست نہیں ہے۔
حضرت عبد اللہ بن عمرؓ نے ایک ایسے ہی شخص کے بارے میں کہا تھا کہ اگر یہ حضرت عمرؓ کے زمانے میں ہوتا تو وہ اس کے جبڑے نکال لیتے۔
حاصل یہ ہے کہ تحسینِ صورت اور لہجہ کی خوبصورتی کو مد نظر رکھتے ہوئے اتنی مقدار تک ان کلمات کو کھینچنا جائز ہے، جس سے آواز میں قباحت، الفاظ میں تغیر اور معنیٰ میں کوئی تبدیلی نہ ہو، البتہ اتنی مقدار کھینچنا کہ جس سے مد میں مبالغہ پیدا ہوجائے یا آواز میں قباحت پیدا ہوجائے کہ وہ وقار کے خلاف محسوس ہو تو اس کی اجازت نہیں ہے، اور اگر علمِ تجوید کے قواعد کو مد نظر بھی رکھ لیا جائے کہ پانچ الف سے زیادہ مقدار نہ مد کی جائے تو یہ زیادہ مناسب اور بہتر ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:

المعجم الكبير للطبراني: (رقم الحدیث: 8677، ط: ط إحياء التراث)
حدثنا محمد بن علي الصائغ ، حدثنا سعيد بن منصور ، حدثنا شهاب بن خراش ، حدثني موسى بن يزيد الكندي ، قال : كان ابن مسعود يقرئ القرآن رجلا فقرأ الرجل : {إنما الصدقات للفقراء والمساكين} مرسلة ، فقال ابن مسعود : ما هكذا أقرأنيها رسول الله صلى الله عليه وسلم قال : أقرأنيها : {إنما الصدقات للفقراء والمساكين} فمددها.

المحيط البرهاني في الفقه النعماني: (351/1، دار الكتب العلمية)
ولا بأس بالتطريب في الأذان، وهو تحسين الصوت من غير أن يتغير، فإن تغير بلحنه أو ما أشبه ذلك كره، قال شمس الأئمة الحلواني؛ إنما يكره ذلك فيما كان من الأذكار، أما قوله حيّ على الصلاة حيّ على الفلاح لا بأس بإدخال المد فيه.

درر الحكام شرح غرر الأحكام: (55/1، ط: دار إحياء الكتب العربية)
وَقَالَ فِي الْفَتْحِ لَا يُلَحَّنُ الْأَذَانُ؛ لِأَنَّهُ لَا يَحِلُّ، وَتَحْسِينُ الصَّوْتِ مَطْلُوبٌ وَلَا تَلَازُمَ بَيْنَهُمَا وَقَيَّدَهُ الْحَلْوَانِيُّ بِمَا هُوَ ذِكْرٌ فَلَا بَأْسَ بِإِدْخَالِ الْمَدِّ فِي الْحَيْعَلَتَيْنِ.

مواهب الجليل في شرح مختصر خليل: (437/1، ط: دار الفكر)
(فرع) قال في المدونة: ويكره التطريب في الأذان، قال في الطراز والتطريب تقطيع الصوت وترعيده، وأصله خفة تصيب المرء من شدة الفرح أو من شدة التحزين، وهو من الاضطراب أو الطربة، قال في العتبية: التطريب في الأذان منكر، قال ابن حبيب: وكذلك التحزين من غير تطريب ولا ينبغي إمالة حروفه والتغني فيه والسنة فيه أن يكون محدرا معلنا يرفع به الصوت انتهى. وقال ابن فرحون والتطريب: مد المقصور، وقصر الممدود، وسمع عبد الله بن عمر رجلا يطرب في أذانه، فقال لو كان عمر حيا فك لحييك انتهى. وقال ابن ناجي: يكره التطريب؛ لأنه ينافي الخشوع والوقار، وينحو إلى الغناء والكراهة في التطريب على بابها إن لم تتفاحش وإلا فالتحريم، وألحق ابن حبيب التحزين بالتطريب، نقله أبو محمد وأما الحسن الصوت فحسن كالقراءة والذكر، قال ابن رشد: رأيت المؤذنين بالقاهرة يستعملون التطريب وأظن الشافعي وأبا حنيفة يريان ذلك؛ لأن النفوس تخشع عند سماع ذلك، وتميل إليه، قال بعض العلماء النفوس تخشع للصوت الحسن كما تخشع للوجه الحسن. ابن ناجي فرق بين الصوت الحسن والتطريب انتهى. وقال في المدخل: يكره التطريب في الأذان، وكذلك التحزين ويكره إمالة حروفه وإفراط المد فيه وغير ذلك مما ذكره الفقهاء، ثم قال: وليحذر أن يؤذن بالألحان مما يشبه الغناء حتى لا يعلم ما يقوله من ألفاظ الأذان، وهي بدعة مستهجنة قريبة الحدوث أحدثها بعض الأمراء بمدرسة بناها ثم سرى ذلك منها إلى غيرها، قال الإمام أبو طالب المكي: ومما أحدثوه: التلحين في الأذان، وهو من البغي والاعتداء، قال رجل من المؤذنين لابن عمر: إني لأحبك في الله، فقال له ابن عمر: إني لأبغضك في الله؛ لأنك تغني في أذانك، وتأخذ عليه أجرا انتهى. وقال الشيخ زروق: والتطريب والتحزين مكروه والمغير للمعنى أو القادح فيه ممنوع انتهى. فتحصل من هذا أنه يستحب في المؤذن أن يكون حسن الصوت، ومرتفع الصوت، وأن يرجع صوته، ويكره الصوت الغليظ الفظيع، والتطريب والتحزين إن لم يتفاحش وإلا حرم.

أحكام المد و القصر عند القراء السبعة لمحيى الدين محمد عطية: (ص: 21)
المد العارض للسكون: المد العارض للسكون هو المد الناشئ من وقوع السكون العارض بعد حرف المد في كلمة. فالسكون العارض هو الذي يأتي في الكلمة وقفا ويزول وصلا، مثل قول الله تعالى {الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ * الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ} فالنون في العالمين محركة بالفتح ويظهر ذلك عند الوصل ولكنك إذا وقفت عليها سكنت النون، وكان السكون بسبب الوقف عليها، ولذا يسمى ذلك السكون عارضاً أي غير أصلى في الكلمة، ولهذا السكون ينشأ المد العارض للسكون....وللقراء السبعة في المد العارض للسكون ثلاثة مذاهب:-
المذهب الأول: الإشباع كاللازم لاجتماع الساكنين اعتداداً بالعارض.
المذهب الثاني: التوسط لمراعاة اجتماع الساكنين مع ملاحظة كونه عارضاً فحطه عن الأصل.
المذهب الثالث: القصر لعروض السكون فلا يعتد به لأن الوقف يجوز فيه التقاء الساكنين مطلقاً.
وهذه المذاهب الثلاثة لجميع القراء السبعة لعموم قاعدة الاعتداد بالعارض وعدمه عند الجميع.
ولذا فهو مد جائز وعند الوصل لا يمد إلا بمقدار حركتين عند جميع القراء السبعة لأنه في هذه الحالة لا يكون إلا مد طبيعي، وليس لهذا النوع من المد رمز في المصحف.

و فيها: (ص: 4)
أحكام المد ثلاثة هي: الوجوب والجواز واللزوم.
فالوجوب: فله نوع واحد وهو المد المتصل.
والجواز: فيكون في ثمانية أنواع، المد المنفصل، والمد العارض للإدغام، والمد العارض للوقف، وما نقلت فيه حركة الهمزة إلى الساكن قبلها عند من أجاز ذلك، ومد البدل، ومد اللين، ومد الصلة، ومد الروم.
أما اللزوم:... إلخ

کذا في فتاويٰ بنوری تاون: رقم الفتویٰ: 144206201020

واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی

Print Full Screen Views: 742 Oct 05, 2022
azan me / mein " hayya alasalah" or "hayya allal falah" per mad karna, sabqa fatwa per hone wale ashkalat ki mukamal or mufasal tehqeeq

Find here answers of your daily concerns or questions about daily life according to Islam and Sharia. This category covers your asking about the category of Salath (Prayer)

Managed by: Hamariweb.com / Islamuna.com

Copyright © Al-Ikhalsonline 2024.