سوال:
مجھے بہت وسوسے آتے ہیں، ان وسوسوں سے بچنے کے لیے میں نے قسم کھائی کہ "اگر میں نے فلاں کام کیا یا اگر میں نے شیطانی وسواس کا جواب دیا تو میں کافر ہو جاؤں گا" بعد میں جلد ہی مجھے اپنی غلطی کا احساس ہو گیا اور میں نے اللہ تعالی سے معافی مانگ لی تو کیا میں اب بھی اس جواب دینے سے کافر ہوجاؤں گا؟
جواب: واضح رہے کہ اگر کوئی شخص قسم کھائے کہ "اگر فلاں کام کروں تو کافر ہوجاؤں"، ان الفاظ سے قسم منعقد ہوجاتی ہے اور مذکورہ کام سے رکنا ضروری ہوجاتا ہے اور اگر قسم ٹوٹ جائے تو اس شخص پر قسم توڑنے کا کفارہ لازم ہوجاتا ہے، البتہ مذکورہ بالا قسم کھانے یا توڑنے سے آدمی کافر نہیں ہوتا ہے، لیکن آئندہ اس قسم کے الفاظ کہنے سے اجتناب کرنا چاہیے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
الدر المختار: (717/3، ط: سعید)
القسم أيضا بقوله (إن فعل كذا فهو) يهودي أو نصراني أو فاشهدوا علي بالنصرانية أو شريك للكفار أو (كافر) فيكفر بحنثه لو في المستقبل، أما الماضي عالما بخلافه فغموس.
واختلف في كفره (و) الأصح أن الحالف (لم يكفر) سواء (علقه بماض أو آت) إن كان عنده في اعتقاده أنه (يمين وإن كان) جاهلا۔
و فیه ایضاً: (كتاب الأيمان، 736/3، ط: دار الفکر)
(ولم يلزم) الناذر (ما ليس من جنسه فرض كعيادة مريض وتشييع جنازة ودخول مسجد) ولو مسجد الرسول - صلى الله عليه وسلم - أو الأقصى لأنه ليس من جنسها فرض مقصود وهذا هو الضابط كما في الدرر.
الھندیة: (الباب السادس في النذر، 208/1، ط: دار الفکر)
الأصل أن النذر لا يصح إلا بشروط (أحدها) أن يكون الواجب من جنسه شرعا فلذلك لم يصح النذر بعيادة المريض.
واللّٰه تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی