سوال:
حضرت! اس واقعہ کی تصدیق فرمادیں:
ایک روز آپ ﷺ نے اپنے صحابہ رضوان اللہ علیھم اجمعین کے درمیان تشریف آوری کے دوران حضرت ابوبکرؓ سے پوچھا: ابوبکر آپ دنیا میں کیا چیز پسند کرتے ہيں؟ انہوں نے جواب میں کہا: حضور! تین چیزیں پسند کرتا ہوں: اول: آپ کے درمیان بیٹھا رہوں، دوسرا: آپ کو دیکھتا رہوں، تیسرا: اپنے مال کو آپ پر خرچ کروں۔
پھر حضور ﷺ نے حضرت عمرؓ سے دریافت کیا کہ عمر آپ کیا پسند کرتے ہيں:حضرت عمرؓ نے جواب میں کہا: حضور! تین چیزیں پسند کرتا ہوں:
اول: نیکی کا حکم دوں اگرچہ سری طور پر ہو، دوسرا: برائی سے روکتا رہوں اگرچہ سرعام ہو اور تیسرا: حق بات کہوں اگرچہ سننے والوں کو کڑوی لگے۔
اور پھر حضورﷺ نے حضرت عثمانؓ سے دریافت کیا کہ عثمان! آپ کیا پسند کرتے ہیں:حضرت عثمانؓ نے جواب دیا : حضور تین چیزیں پسند کرتا ہوں:اول: لوگوں کو کھانا کھلاؤں، دوسرا: سلام کو پھیلاؤں اور تیسرا: رات میں ایسے وقت نماز پڑھوں جب لوگ نیند کی آغوش میں ہوں۔
اس کے بعد حضورﷺ نے حضرت علیؓ سے دریافت کیا کہ علی! آپ کیا پسند کرتے ہيں؟
حضرت علیؓ نے جواب دیا کہ حضور! تین چیزیں پسند کرتا ہوں:اول: مہمان نوازی کروں، دوسرا: گرما کے موسم میں روزے رکھوں اور تیسرا: دشمن پر تلوار سے وار کروں۔
پھر آپ ﷺ نے حضرت ابوذرغفاریؓ سے دریافت فرمایا : ابوذر آپ کیا پسند کرتے ہو؟
حضرت ابوذر غفاریؓ نے جواب دیا: حضور میں دنیا میں تین چیزیں پسند کرتا ہوں:اول: بھوک، دوسرا: بیماری اور تیسرا: موت۔
آپ ﷺ نے ان س ےسبب پوچھتے ہوئے کہا آپ ان چیزوں کو کیوں پسند کرتے ہو؟انہوں نے جواب دیا کہ حضور! بھوک اس لیے عزيز ہے کہ اس کے ذریعے میرا دل نرم ہوتا ہے اور بیماری اس لیے محبوب ہے کہ اس کے ذریعے میرے گناہ معاف ہوتے ہیں اور موت اس وجہ سے عزيز ہے کہ اس کے ذریعے میں اپنے پروردگارسے ملوں گا۔
اس کے بعد آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا: میرے لیے تمہاری دنیا سے تین چیزیں پسند کروائی گئیں۔
اول: خوشبو، دوسری: نیک عورتیں، اور تیسری: میرےآنکھوں کی ٹھنڈک نماز میں رکھی گئی ہے۔
اسی اثناء حضرت جبرئیل تشریف لاتے ہیں اور فرماتے ہیں کہ مجھے تمہاری دنیا سے تین چیزیں پسند ہيں: اول: پیغام کو پہنچانا، دوسرا: امانت کو ادا کرنا اور تیسرا: مساکین سے محبت کرنا۔
پھر حضرت جبرئيل آسمانوں کی جانب لوٹتے ہیں اور دوبارہ زمین پر واپس آتے ہیں اور فرماتے ہيں کہ حضور! اللہ رب العزت آپ کو سلام کہتے ہيں اور ارشاد فرماتے ہيں: کہ اللہ رب العزت کو تمہاری دنیا سے تین چیزیں پسند ہيں: اول: ایسی زبان جو اللہ کی یاد سے تر ہو، دوسرا: ایسا دل جو اللہ سے ڈرنے والا ہو اور تیسرا: ایسا جسم جو مصائب اور آزمائشوں میں صبر کرنے والا ہو۔
جواب: سوال میں ذکر کردہ روایت کسی معتبر سند سے ثابت نہیں ہے ،لہذا جب تک اس واقعے کی کوئی معتبر سند نہ ملے اسے جناب رسول اللہ ﷺ کی طرف منسوب کرنے سے اجتناب کیا جائے۔ذیل مذکورہ روایت کے بارے میں تفصیلی کلام ذکر کیا جاتا ہے:
۱۔واضح رہے کہ مذکورہ روایت کا ابتدائی حصہ’’حبب الیّ من دنياكم الطیب والنساء وجعلت قرة عینی فی الصلاة‘‘’’ میرے لیے تمہاری دنیا سے چیزیں پسند کروائی گئیں: خوشبو،( نیک) عورتیں، اور میرےآنکھوں کی ٹھنڈک نماز میں رکھی گئی ہے‘‘۔(۱)یہ صحیح روایات سے ثابت ہے،جو درج ذیل کتب میں ذکر کیا گیا ہے:
۱۔امام احمد بن حنبل (م241ھ) نے’’مسندأحمد‘‘( 19/305 ،رقم الحدیث : 12293،12294،13057،14037ط:مؤسسة الرسالة ) میں ذکر کیا ہے۔
۲۔امام نسائی (م303ھ)نے ’’سنن النسائی‘‘(7/ 61،رقم الحديث: 3939، 3940،ط:مكتب المطبوعات الإسلامية)،اور ’’السنن الكبرى‘‘(8/149،رقم الحديث: 8836،ط:مؤسسة الرسالة) میں ذکر کیا ہے۔
۳۔امام أبو یعلی الموصلی(م307ھ)نےمسندأبي الموصلي‘‘(21/433،رقم الحديث: 3530،ط:دارالمأمون للتراث) میں ذکر کیا ہے۔
۴۔امام طبرانی(م360ھ)نےالمعجم الأوسط:( 5/241،رقم الحديث: 5203،5772،ط:دارالحرمين) میں ذکر کیا ہے۔
۵۔امام حاکم (م405ھ)نے ’’مستدرك ‘‘(2/174،رقم الحديث: 2676،ط:دارالكتب العلمية) میں ذکر کیا ہے۔
۶۔امام بیہقی (م458ھ)نے’’السنن الكبرى‘‘(7/124،رقم الحديث: 13454،ط:دارالكتب العلمية) میں ذکر کیا ہے۔
۲۔روایت کے ابتدائی حصہ میں اضافہ:
روایت کے ابتدائی حصہ میں بھی "حُبِّب لي من دنياكم ثلاث" میں لفظِ ثلاث کا لفظ ذکر محدثین کرام کی ایک جماعت کے نزدیک نہیں ہے۔(۲)
۳۔روایت میں ذکر کردہ بقیہ قصہ:
مذکورہ روایت کوعلامہ محب الدین طبری (م694ھ) نے’’الرياض النَضَرَة‘‘ میں بغیر سند کے نقل کرکے اس کی نسبت ’’ ابراہیم بن محمد بن عبد اللطیف خُجَندِی ‘‘کی طرف کی ہے ۔
علامہ قسطلانی (م923 ھ)نے’’ المواهب اللدنية‘‘ میں فرمایا :محب طبری نے کہا ہے کہ خُجَندِی نے اس کی تخریج کی ہے اور طبری نے اسی طرح کہا ہے اور اس کی ذمہ داری انھیں پر ہے۔
علامہ زرقانی(م1122ھ) نے’’شرح المواهب اللدنية ‘‘میں اس روایت کے متعلق لکھا:یہ روایت ان روایات میں سے ہے،جو صحیح نہیں ہے۔
کشف الخفاء میں علامہ عجلونی (م1162ھ)نے علامہ قسطلانی (م923 ھ)کے کلام پر اکتفا کیا ہے ۔(۳)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
(۱) مسندأحمد:( 19/305 ،رقم الحدیث :12294ط:مؤسسة الرسالة)
عن أنس قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: حبب إلي من الدنيا: النساء، والطيب، وجعل قرة عيني في الصلاة
(۲) نیل الاوطار للشوکاني:(1/473، ط ،دارابن جوزي )
قال الحافظُ قال شيخُ الاسلام زينُ الدين العراقي في أماليه وصرَّح بأنَّ لفظ ثلاث ليس في شيءٍ من كُتب الحديث وأنَّها مُفسِدةٌ للمعنى، وكذلك قال الزركشي وغيرُه وقال الدماميني: لا أعلمها ثابتةً من طريقٍ صحيحة.
قال الشيخ يونس الجنبوري’’الیواقیت الغالية ‘‘()قلت : وهي ليست عندالحاكم أيضا.
وقال الحافظ ابن القيم في الهدي [أي: زاد المعاد] (ص:۸۳،ج:۱): من رواه حبب إلي من دنياكم ثلث فقد وهم، ولم يقل ﷺ ثلث، والصلاة ليست من أمور الدنيا التي يضاف إليها. وقال في الجواب الكافي لمن سأل عن الدواء الشافي(ص:۶۲۳) بعد ماذكر لفظ النسائي: هذا لفظ الحديث، لا مايرويه بعضهم: حبب إلي من دنياكم ثلث اه .
وقال الحافظ ابن كثير في البداية والنهاية(ص:۶۲،ج:۶) بعد ذكر لفظ النسائي وأحمد: وقد روي من وجه آخر بلفظ: حبب إلي من دنياكم ثلث: الطيب والنساء وجعلت قرة عيني في الصلاة. وليس بمحفوظ بهذا، فإن الصلوة ليست من أمور الدنيا، وإنما هي من أهم شئون [کذا في الأصل، والصحیح الشؤون] الآخرة اه .وقال المُنَاوِي في شرح الجامع الصغير(ص:۳۹۴،ج:۱) : من زاد ثلث فقد وهَم[انتهى كلام المُنَاوِي]. وقال الشوكاني في الفوائد المجموعة في الأحاديث الموضوعة (ص:۷۷): قال العُقَيْلِي: ليست في شيء من كتب الحديث، وكذاالزركشي وابن حجر اه .
(۳) الرياض النضرة لمحب الدين الطبري:(1/60،ط:دارالكتب العلمية)
روي أنه لما قال -صلى الله عليه وسلم: "حبب إلي من دنياكم ثلاث: الطيب والنساء وجعل قرة عيني الصلاة" قال أبو بكر: وأنا يا رسول الله, حبب إلي من الدنيا ثلاث: النظر إلى وجهك وجمع المال للإنفاق عليك والتوسل بقرابتك إليك, وقال عمر: وأنا يا رسول الله, حبب إلي من الدنيا ثلاث: إطعام الجائع وإرواء الظمآن وكسوة العاري, وقال علي بن أبي طالب: وأنا يا رسول الله, حبب إلي من الدنيا ثلاث: الصوم في الصيف وإقراء الضيف والضرب بين يديك بالسيف. خرجه الخجندي أيضًا.
هذه القصة أوردها القسطلاني في ’’ المواهب اللدنية‘‘(2/223)وقال: قال الطبرى: خرجه الجندى. كذا قال والعهدة عليه. وكذا أوردها الزرقاني في ’’ المواهب اللدنية‘‘(6/375)وقال:روي مما لایصح. ونقل العجلوني في ’’ کشف الخفاء‘‘(1/388) و اكتفى على كلامه.
واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی