سوال:
اکتوبر 2016ء میں پہلے شوہر نے ایک طلاق دی، پھر مارچ 2017ء میں بیوی نے خود شوہر سے تحریری طور پر تین طلاقیں لے لیں، عورت نے عدت گزاری اور عدت پوری ہونے پر دوسرے شخص سے نکاح کرلیا، اس شوہر نے صلح کی غرض سے نکاح کیا تھا اور ہمبستری کئے بغیر ہی طلاق دے دی تو اس عورت نے دوسرے شوہر کی عدت گزارے بغیر ہی پہلے شوہر سے نکاح کرلیا اور اب وہ عورت جولائی 2017ء سے پہلے شوہر کے ساتھ ہے۔ رہنمائی فرمائیں کہ کیا پہلے شوہر کے ساتھ اس طرح نکاح کرنا شرعا درست تھا اور اس طرح ان کا آپس میں ساتھ رہنا کیسا ہے؟
جواب: سوال میں ذکر کردہ صورت میں چونکہ دوسرے شوہر نے اپنی منکوحہ عورت کے ساتھ ہمبستری نہیں کی ہے، جبکہ مذکورہ عورت کا سابقہ شوہر سے نکاح منعقد ہونے کے لیے دوسرے شوہر سے ہمبستری کرنا ضروری ہے۔
لہذا دوسرے شوہر سے ہمبستری نہ کرنے کی وجہ سے سابقہ شوہر کے لیے یہ عورت حلال نہیں ہے اور ان کے آپس کا نکاح منعقد نہیں ہوا ہے، ان کے ذمہ لازم ہے کہ فورا علیحدگی اختیار کریں اور اپنے اس فعل پر توبہ واستغفار کریں اور شرعی طریقے کے مطابق نکاح کرنے کے بعد ساتھ رہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
رد المحتار: (مطلب في العقد على المبانة، 410/3، ط: دار الكتب العلمية)
ثم اعلم أن اشتراط الدخول ثابت بالاجماع فلا يكفي مجرد العقد. قال القهستاني: وفي الكشف وغيره من كتب الاصول أن العلماء غير سعيد بن المسيب اتفقوا على اشتراط الدخول، وفي الزاهدي: أنه ثابت باجماع الأمة. وفي المنية: أن سعيدا رجع عنه الى قول الجمهور، فمن عمل به يسود وجهه ويبعد، ومن أفتى به يعزر، وما نسب الى الصدر الشهيد فليس له أثر في مصنفاته بل فيها نقيضه. وذكر في الخلاصة عنه: أن من أفتي به فعليه لعنة الله والملائكة والناس أجمعين، فإنه مخالف الإجماع ولا ينفذ قضاء القاضي به وتمامه فيه.
واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی