سوال:
بچے کا "محمد اورحان" نام رکھنا کیسا ہے، حالانکہ نام رکھنے والے کو یہ معلوم ہے کہ عربی اور دوسری لغات میں اس نام کے الفاظ نہیں ہیں بلکہ یہ ترکی زبان کا لفظ ہے اور اسلامی خلافتِ عثمانیہ کے دوم سلطان کا نام تھا، صرف اسی نیت سے یہ نام رکھا جارہا ہے کہ اسلامی تاریخ میں ایک بہادر حکمران گزرا ہے جس کی تاریخی لحاظ سے اسلام کے لئے بہت خدمات ہیں تو بچے کا اس جزبے کے تحت یہ نام رکھنا تاکہ مستقبل میں مسلمانوں کے لئے کچھ خدمات دے، کیا محض اس نیت سے یہ نام رکھنا جائز ہے؟
جواب: بچوں كا نام ركھتے وقت کوشش یہ ہونی چاہیے کہ اچھے معانی والے ناموں کا انتخاب کیا جائے یا حضراتِ انبیاء عليهم السلام اور صحابہؓ کے نام رکھے جائیں۔ سوال میں ذکر کردہ نام "اورحان" (Aurhaan) كا معنیٰ ہمیں معلوم نہیں ہے، تاہم اس نام کی نسبت دوسرے عثمانی سلطان کی طرف ہے، جو کہ عظیم مجاہد تھے، لہٰذا ان کی نسبت سے یہ نام رکھنے کی گنجائش ہے، تاہم یہ بھی واضح رہے کہ عربی تاریخ کی بعض کتابوں میں یہ نام "اورخان" خاء كے ساتھ لکھا ہے، حاء کے ساتھ ہمیں عربی تاریخ کی کتابوں میں نہیں مل سکا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
سنن أبي داود: (رقم الحدیث: 4950، ط: دار الرسالة العالمية)
حدثنا هارون بن عبد الله، حدثنا هشام بن سعيد الطالقانى، أخبرنا محمد بن المهاجر الأنصاري، قال: حدثني عقيل بن شبيب عن أبي وهب الجشمى -وكانت له صحبة- قال: قال رسول الله -صلى الله عليه وسلم-: "تسموا بأسماء الأنبياء، وأحب الأسماء إلى الله: عبد الله وعبد الرحمن، وأصدقها: حارث وهمام، وأقبحها: حرب ومرة".
شذرات الذهب في أخبار من ذهب لأبی الفلاح عبد الحي بن أحمد: (326/8، ط: دار ابن كثير)
سنة إحدى وستين وسبعمائة، فيها توفي أورخان بن عثمان السلطان العظيم ثاني ملوك بني عثمان. ولي سنة ست وعشرين وسبعمائة بعد وفاة والده السلطان عثمان حق أول ملوك بني عثمان، وكانت ولاية صاحب الترجمة في أيام السلطان حسن صاحب مصر. قال القطيعي: كان أورخان شديدا على الكفّار ففاق والده في الجهاد، وفتح البلاد فافتتح قلاعا كثيرة وحصونا منيعة، وفتح بروسة وجعلها مقر سلطنته، ثم ولي بعده ولده مراد.
تاريخ ابن خلدون: (635/5، ط: دار الفکر)
ولما اضمحلّ أمر التتر من بلاد الروم واستقرّ بنو ارتنا بسيواس وأعمالها غلب هؤلاء التركمان على ما وراء الدروب إلى خليج القسطنطينية ونزل ملكهم مدينة برصا من تلك الناحية وكان يسمى أورخان بن عثمان جق فاتخذها دارا لملكهم ولم يفارق الخيام إلى القصور وإنما ينزل بخيامه في بسيطها وضواحيها وولي بعده ابنه مراد بك.
واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی