عنوان: مکمل قرآن کریم کی تلاوت رمضان المبارک میں کرنا جبکہ سال کے بقیہ مہینوں میں قرآن کریم کی مخصوص سورتوں کی تلاوت کرنا(9890-No)

سوال: ۱) میں روزانہ "سورہ بقرہ" اور مغرب کے بعد "سورہ ملک" اور "سورہ واقعه" پڑھتی ہوں، اس کے علاوہ قرآن کریم کا کوئی حصہ تلاوت نہیں کرتی، کیونکہ میں مکمل قرآن پاک صرف رمضان میں پڑھتی ہوں، کیا میرا یہ عمل درست ہے؟
۲) اسی طرح میں ہر ہفتہ "سورہ بقرہ" پڑھنے کا اہتمام کرتی چلی آرہی تھی، اب مجھے "سورہ انعام" کے اسائنمنٹ ملے ہوئے ہیں تو وقت کی تنگی کے باعث سورہ بقرہ پڑھنے کا اہتمام نہیں کر پارہی، اس پر مجھے کوئی گناہ تو نہیں ملے گا؟

جواب: ۱) قرآن کریم کی روزانہ تلاوت کرنے کی کوئی خاص مقدار شرعاً متعین نہیں ہے، حسبِ فرصت ہر مسلمان کو چاہیے کہ وہ روزانہ قرآن کریم کی اتنی مقدار میں تلاوت کرے جس سے اس کے ضروری کاموں میں خلل واقع نہ ہو، نیز اس بات کا اہتمام کرنا چاہیے کہ تسلسل کے ساتھ پورے قرآن کریم کی تلاوت کی جائے اور رمضان المبارک کے علاوہ مہینوں میں بھی مکمل قرآن کریم پڑھنے کا معمول بنانا چاہیے، حضراتِ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین، تابعین اور صلحاء امت کی اکثر کا یہ معمول رہا ہے کہ وہ حضرات رمضان المبارک کے علاوہ بھی سال کے گیارہ مہینوں میں مکمل قرآن کریم کی تلاوت کیا کرتے تھے، ان میں سے اکثریت کا یہ معمول تھا کہ وہ روزانہ قرآن کریم کی ایک منزل کی تلاوت کیا کرتے تھے، یوں ان حضرات کا ہفتے میں ایک مرتبہ قرآن کریم پڑھنے کا معمول تھا، ہمارے ہاں قرآن کریم کی جو سات منزلیں متعین کی گئی ہیں، یہ انہی حضرات کے معمول کے مطابق ہیں، ان میں سے بہت سے حضرات روزانہ تین پاروں کی تلاوت کیا کرتے تھے، یوں مہینے میں وہ تین مرتبہ قرآن کریم کی تکمیل کر لیا کرتے تھے اور جن کے پاس وقت کی نہایت قلت ہوتی تھی، وہ حضرات بھی روزانہ کم از کم ایک پارہ تلاوت کیا کرتے تھے، یوں ان کا مہینے میں ایک قرآن کریم مکمل ہو جاتا تھا، عام طور پر روزانہ ایک پارہ تلاوت کرنا ایک حافظ قرآن اور ناظرہ خواں کے لیے کوئی مشکل نہیں ہے، صرف ہمت کرنی ہوگی، لیکن اگر کوئی ایک پارہ پڑھنے کا بھی وقت نہ نکال سکے تو اسے بالکلیہ تلاوت ترک نہیں کرنی چاہیے، بلکہ کچھ نہ کچھ تلاوت کرنے کا معمول ضرور رکھنا چاہیے۔ حضرت امام اعظم ابوحنیفہؒ سے منقول ہے: "جس شخص نے غور وفکر سے ایک سال میں قرآن کریم کے دو ختم کیے اس نے قرآن کریم کا حق ادا کیا"۔ یعنی ہر مسلمان پر اتنا تو قرآن کریم کا حق بنتا ہے کہ سال میں کم از کم دو مرتبہ قرآن کریم ختم کرے۔
۲) قرآن کریم کی جو سورتیں مخصوص اوقات کے لیے ہیں یا مخصوص فضائل کے حصول کا ذریعہ ہیں، ان کی تلاوت کا بھی حسب فرصت اہتمام کرنا چاہیے، لیکن اگر کوئی اپنی مصروفیات کی وجہ سے ان کا اہتمام نہیں کر سکتا اور وہ کچھ نہ کچھ مقدار میں روزانہ تلاوت کرتا ہے تو اس پر کوئی گناہ نہیں ہوگا ،کیونکہ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ترجمہ: "(اے پیغمبر) تمہارا پروردگار جانتا ہے کہ تم دو تہائی رات کے قریب اور کبھی آدھی رات اور کبھی ایک تہائی رات (تہجد کی نماز کے لیے) کھڑے ہوتے ہو، اور تمہارے ساتھیوں میں سے بھی ایک جماعت (ایسا ہی کرتی ہے) اور رات اور دن کی ٹھیک ٹھیک مقدار اللہ ہی مقرر فرماتا ہے۔ اسے معلوم ہے کہ تم اس کا ٹھیک حساب رکھ سکو گے، اس لیے اس نے تم پر عنایت فرما دی ہے۔ اب تم اتنا قرآن پڑھ لیا کرو جتنا آسان ہو۔ اللہ کو علم ہے کہ تم میں کچھ لوگ بیمار ہوں گے، اور کچھ دوسرے ایسے ہوں گے جو اللہ کا فضل تلاش کرنے کے لیے زمین میں سفر کر رہے ہوں گے۔ اور کچھ ایسے جو اللہ کے راستے میں جنگ کر رہے ہوں گے۔ لہذا تم اس (قرآن) میں سے اتنا ہی پڑھ لیا کرو جتنا آسان ہو"۔ (آسان ترجمہ قرآن، سورہ مزمّل: آیت نمبر: 20)
اللّٰہ تعالیٰ ہم سب کو زیادہ سے زیادہ تلاوتِ قرآن کریم کا اہتمام کرنے کی توفیق عطا فرمائے، آمین۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:

القرآن الکریم: (المزّمّل، الایة: 20)
إِنَّ رَبَّكَ يَعْلَمُ أَنَّكَ تَقُومُ أَدْنَى مِنْ ثُلُثَيِ اللَّيْلِ وَنِصْفَهُ وَثُلُثَهُ وَطَائِفَةٌ مِنَ الَّذِينَ مَعَكَ وَاللَّهُ يُقَدِّرُ اللَّيْلَ وَالنَّهَارَ عَلِمَ أَنْ لَنْ تُحْصُوهُ فَتَابَ عَلَيْكُمْ فَاقْرَءُوا مَا تَيَسَّرَ مِنَ الْقُرْآنِ عَلِمَ أَنْ سَيَكُونُ مِنْكُمْ مَرْضَى وَآخَرُونَ يَضْرِبُونَ فِي الْأَرْضِ يَبْتَغُونَ مِنْ فَضْلِ اللَّهِ وَآخَرُونَ يُقَاتِلُونَ فِي سَبِيلِ اللَّهِ فَاقْرَءُوا مَا تَيَسَّرَ مِنْهُ وَأَقِيمُوا الصَّلَاةَ وَآتُوا الزَّكَاةَ وَأَقْرِضُوا اللَّهَ قَرْضًا حَسَنًا وَمَا تُقَدِّمُوا لِأَنْفُسِكُمْ مِنْ خَيْرٍ تَجِدُوهُ عِنْدَ اللَّهِ هُوَ خَيْرًا وَأَعْظَمَ أَجْرًا وَاسْتَغْفِرُوا اللَّهَ إِنَّ اللَّهَ غَفُورٌ رَحِيمٌ o

غنیة المستملي: (ص: 496، ط: سہیل)
"ثم قیل: الأولی أن یختم القرآن فی کل أربعین یوماً وقیل ینبغي أن یختمه فی السنة مرتین، روی عن أبی حنیفة أنه قال: من قرأ القرآن فی السنة مرتین فقد قضی حقه، وقیل إذا أراد أن یقضی حقه فلیختم فی کل أسبوع، وقیل فی کل شهر مرّة وبه أفتی أبوعصمة الخ".


الموسوعة الفقھیة الکویتیة: (59/33، ط: وزارة الاوقاف کویت)
"واختلف الفقهاء في عدد الأيام التي ينبغي أن يختم فيها القرآن.
ذهب المالكية والحنابلة إلى أنه يسن ختم القرآن في كل أسبوع لقول النبي صلى الله عليه وسلم لعبد الله بن عمرو: اقرأه في سبع، ولا تزد على ذلك.
قالوا: وإن قرأه في ثلاث فحسن، لما روى عبد الله بن عمرو رضي الله تعالى عنه قال: قلت يا رسول الله صلى الله عليه وسلم إن لي قوة، قال: اقرأ القرآن في كل ثلاث. (1)
لكن نص المالكية بأن التفهم مع قلة القرآن أفضل من سرد حروفه لقوله تعالى: {أفلا يتدبرون القرآن} . (2)
وصرح الحنابلة بكراهة تأخير ختم القرآن فوق أربعين يوما بلا عذر لأنه يفضي إلى نسيانه والتهاون فيه، وبتحريم تأخير الختم فوق أربعين إن خاف نسيانه (3) .
وقال الحنفية: ينبغي لحافظ القرآن أن يختم في كل أربعين يوما مرة؛ لأن المقصود من قراءة القرآن فهم معانيه والاعتبار بما فيه لا مجرد التلاوة. قال الله تعالى: {أفلا يتدبرون القرآن أم على قلوب أقفالها} (4) ، وذلك يحصل بالتأني لا بالتواني في المعاني، فقدر للختم أقله بأربعين يوما، كل يوم حزب ونصف أو ثلثا حزب، وقيل: ينبغي أن يختمه في السنة مرتين، روي عن أبي حنيفة رحمه الله تعالى أنه قال: من قرأ القرآن في السنة مرتين فقد قضى حقه.
وصرح الحنفية بأنه لا يستحب أن يختم في أقل من ثلاثة أيام (1) ، لما روى عبد الله بن عمرو رضي الله تعالى عنه قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: لم يفقه من قرأ القرآن في أقل من ثلاث.
(2) قال النووي بعد أن ذكر آثارا عن السلف في مدة ختم القرآن: والاختيار أن ذلك يختلف باختلاف الأشخاص، فمن كان يظهر له بدقيق الفكر لطائف ومعارف فليقتصر على قدر ما يحصل له كمال فهم ما يقرؤه، وكذا من كان مشغولا بنشر العلم أو غيره من مهمات الدين ومصالح المسلمين عامة فليقتصر على قدر لا يحصل بسببه إخلال بما هو مرصد له، وإن لم يكن من هؤلاء المذكورين فليستكثر ما أمكنه من غير خروج إلى حد الملل والهذرمة".

واللہ تعالیٰ اعلم بالصواب
دارالإفتاء الاخلاص،کراچی

Print Full Screen Views: 757 Oct 24, 2022
mukamal quran kareem ki tilawat sirf ramzanul mubarak me / mein karna or saal k baqya mahino / mah me / mein quran kareem ki makhsos sorhto / sorhton ki tilawat karna kesa hai?

Find here answers of your daily concerns or questions about daily life according to Islam and Sharia. This category covers your asking about the category of Interpretation of Quranic Ayaat

Managed by: Hamariweb.com / Islamuna.com

Copyright © Al-Ikhalsonline 2024.