سوال:
(۱) کیا علم تجوید و قراءت پڑھانے والوں کو "استاذ" کہا جاسکتا ہے؟ یہاں بعض لوگ کہتے ہیں کہ ان کو استاذ نہیں کہا جا سکتا۔
(۲) بعض علاقوں میں قرآن کریم کو واضح غلطی یعنی "لحن جلی" کے ساتھ پڑھا جاتا ہے جو کہ اکثر اوقات معنی کی تبدیلی کا باعث بن جاتا ہے، ان علاقوں میں اگر مدرسے والے باقاعدہ تجوید پڑھانے کا اہتمام نہ کریں تو کیا وہ گناہ گار ہوں گے؟
جواب: (۱) عربی زبانی میں استاذ (ذال کے ساتھ) کے معانی: معلم، پڑھانے والا اور ماہر فن کے آتے ہیں۔ اس اعتبار سے علم تجوید و قراءت پڑھانے والوں کو "استاذ" کہا جاسکتا ہے۔
(۲) مدرسے والوں کو چاہیے کہ ایسے معلمین کا انتظام کریں جو باقاعدہ تجوید کے ساتھ قرآن شریف پڑھائیں، کیونکہ قرآن شریف کو باقاعدہ تجوید کے ساتھ پڑھنے کا حکم دیا گیا ہے۔ تاہم ماہرِ تجوید قاری نہ ملنے کی صورت میں ایسے آدمی سے بھی قرآن پاک پڑھنے کی گنجائش ہے جو باقاعدہ علم تجوید تو نہ پڑھا ہوا ہو، البتہ قرآن پاک کے تلفظ کی ادائیگی صحیح کرتا ہو۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
المعجم الكبير للطبراني: (رقم الحدیث: 8677، ط: ط إحياء التراث)
حدثنا محمد بن علي الصائغ ، حدثنا سعيد بن منصور ، حدثنا شهاب بن خراش ، حدثني موسى بن يزيد الكندي ، قال : كان ابن مسعود يقرئ القرآن رجلا فقرأ الرجل : {إنما الصدقات للفقراء والمساكين} مرسلة ، فقال ابن مسعود : ما هكذا أقرأنيها رسول الله صلى الله عليه وسلم قال : أقرأنيها : {إنما الصدقات للفقراء والمساكين} فمددها.
القاموس الوحید: (ص: 103، ط: ادارۃ اسلامیات)
الاستاذ: معلم، ماہر فن۔
واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی