سوال:
ایک خاتون کا نکاح ہوا کچھ عرصہ بعد ان کے ہاں ایک بیٹی ہوئی، پھر خاتون بیماری کی وجہ سے اپنے والد کے پاس رہنے لگی اور اسی بیماری میں انتقال کر گئی، انتقال سے پہلے اپنی والدہ سے کہا کہ اگر میرا انتقال ہو جائے تو جو سامان آپ لوگوں نے مجھے دیا ہے وہ میری بیٹی کو دے دینا اور میرے بعد آپ ہی اس کی پرورش کرنا اس کے والد کے خاندان والوں کو نہ دینا، لہذا کچھ عرصہ بچی اپنے نانا نانی کے گھر رہی اور مرحومہ کا جہیز بھی واپس آگیا لیکن پھر بچی کی پھوپھی ملاقات کے لیے آئی اور بچی کو ساتھ لے گئی، بچی کا والد تین ماہ بعد چھٹیوں پر آتا ہے وہ بھی آگیا تھا تو کچھ دن بعد بچی کے والد نے پیغام دیا کہ جب آپ کا دل چاہے بچی سے آکر مل سکتے ہو لیکن اس کی پرورش میں خود کرو ں گا۔
بچی کی عمر ایک سال ہے بچی کا ننهیال پرورش کرنے لیے رضامند ہے، جبکہ دهدیال میں سب پھوپیاں شادی شدہ اور دادی بھی عمر رسیدہ ہیں اور والد بھی ملازمت پر ہوتے ہیں، براہ کرم شریعت کی روشنی میں رہنمائی فرمائیں کہ بچی کا کس کے پاس رہنا زیادہ فائدہ مند ہے؟
جواب: ۱) سوال میں ذکر کردہ صورت میں لازم ہے کہ مرحومہ کی جائیداد (جس میں جہیز بھی شامل ہے) کو شرعی قانونِ وراثت کے مطابق ورثاء میں تقسیم کردیا جائے۔
۲) ماں کے انتقال کے بعد نو سال کی عمر تک بچی کی پرورش کا حق شرعا بچی کی نانی کو حاصل ہوتا ہے، اس لئے سوال میں پوچھی گئی صورت میں بچی کے والد کو چاہئے کہ بچی کو پرورش کے لئے اس کی نانی کے حوالے کردے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
القرآن الکریم: (النساء، الایة: 11)
یُوْصِیْكُمُ اللّٰهُ فِیْۤ اَوْلَادِكُمْۗ-لِلذَّكَرِ مِثْلُ حَظِّ الْاُنْثَیَیْنِۚ ... الخ
رد المحتار: (555/3، ط: سعید)
تثبت الحضانة للأم، ثم أم الأم، ثم أم الأب، ثم الأخت، ثم الخالات، ثم العمات، و الحضانة تسقط حقھا بنکاح غیر محرمه و الأم و الجدۃ أحق بھا حتی تحیض وغیرھما أحق بھا حتی تشتھی، و قدر بتسع و به یفتی و عن محمد ؒ ان الحکم فی الام و الجدۃ کذالك و به یفتی۔
واللّٰه تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی