سوال:
حفص اور ورش قراءت کے دو لہجے ہیں، پوچھنا یہ ہے کہ جس طرح قراءت کی تبدیلی کی وجہ سے الفاظ کی حرکات اور ادائیگی بدل جاتی ہیں، کیا ان کا معنی بھی بدلتا ہے؟ اگر سوال کا جواب طویل ہو سکتا ہے تو براہ کرم اس موضوع پر آپ کوئی کتاب مطالعہ کیلئے تجویز فرما دیں۔
جواب: واضح رہے کہ حفص اور ورش یہ قراءت کے دو اماموں کے نام ہیں اور ان کے نام سے ہی ان کی قراءت كی روایتیں مشہور ہیں، یہ دولہجے نہیں، بلکہ دو روایتیں ہیں، چنانچہ صحیح حدیث میں جناب نبی کریم ﷺ کا ارشاد ہے:"إن هذا القرآن أنزل على سبعة أحرف فاقرءوا ما تيسر منه"
ترجمہ:"یہ قرآن سات حروف پر نازل کیا گیا ہے، پس اس میں سے جو تمہارے لئے آسان ہو اُس طریقے سے پڑھ لو"۔ (صحیح بخاری: حدیث نمبر: 2419)
سات حروف میں نازل ہونے سے کیا مراد ہے؟ یہ ایک انتہائی طویل بحث ہے اور اس میں مختلف اقوال ہیں، البتہ اس میں سب سے راجح قول وہ ہے جس کو شیخ الاسلام حضرت مفتی محمد تقی عثمانی صاحب مدظلہم نے اپنی کتاب "علوم القرآن" کی مندرجہ ذیل عبارت میں ترجیح دی ہے:" ہمارے نزدیک قرآن کریم کے "سات حروف" کی سب سے بہتر تشریح اور تعبیر یہ ہے کہ حدیث میں "حروف کے اختلاف" سے مراد " قراءتوں کا اختلاف" ہے، اور سات حروف سے مراد "اختلافِ قراءت" کی سات نوعیتیں ہیں، چنانچہ قراءتیں تو اگرچہ سات سے زائد ہیں، لیکن ان قراءتوں میں جو اختلاف پائے جاتے ہیں، وہ سات اقسام میں منحصر ہیں:
۱) مفرد اور جمع کا اختلاف کہ ایک قراءت میں لفظ مفرد آیا ہو اور دوسری میں صیغۂ جمع۔
۲) تذکیر وتانیث کا اختلاف کہ ایک میں لفظ مذکّر استعمال ہو اور دوسری میں مؤنّث۔
۳)وجوہِ اعراب کا اختلاف کہ زیر زبر وغیرہ بدل جائیں۔
۴)صرفی ہیئت کا اختلاف۔
۵)ادوات (حروفِ نحویہ) کا اختلاف۔
۶)لفظ کا ایسا اختلاف جس سے حروف بدل جائیں۔
۷) لہجوں کا اختلاف جیسے تخفیف، تفخیم، امالہ، مد، قصر، اظہار اور ادغام وغیرہ
(علوم القرآن: (ص: 106، ط: مکتبہ دار العلوم کراچی)
اس تفصیل سے یہ بات واضح ہوئی کہ قراءت کا اختلاف ان سات چیزوں میں ہوتاہے، جس میں سے ایک صورت حرکات کی تبدیلی کی بھی ہے، البتہ قراءت کے اختلاف سے معنی ٰمیں کوئی تبدیلی نہیں آتی ہے۔
(مزید تفصیل کے لئے ملاحظہ ہو علوم القرآن، باب سوم، تالیف: حضرت مفتی محمد تقی عثمانی صاحب حفظہ اللہ تعالی)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
صحيح البخاري: (390/1، ط: دار طوق النجاۃ)
عمر بن الخطاب يقول سمعت هشام بن حكيم بن حزام يقرأ سورة الفرقان في حياة رسول الله ﷺ فاستمعت لقراءته فإذا هو يقرأ على حروف كثيرة لم يقرئنيها رسول الله ﷺ فكدت أساوره في الصلاة فتصبرت حتى سلم فلببته (فلببته) بردائه فقلت من أقرأك هذه السورة التي سمعتك تقرأ قال أقرأنيها رسول الله ﷺ فقلت كذبت فإن رسول الله ﷺ قد أقرأنيها على غير ما قرأت فانطلقت به أقوده إلى رسول الله ﷺ فقلت إني سمعت هذا يقرأ بسورة (سورة) الفرقان على حروف لم تقرئنيها فقال رسول الله ﷺ: أرسله اقرأ يا هشام فقرأ عليه القراءة التي سمعته يقرأ فقال رسول الله ﷺ: كذلك أنزلت ثم قال اقرأ يا عمر فقرأت القراءة التي أقرأني فقال رسول الله ﷺ: "كذلك أنزلت إن هذا القرآن أنزل على سبعة أحرف فاقرءوا ما تيسر منه."
شرح السنة للإمام البغوى: (508/4، ط: المكتب الإسلامي)
وقال أبو عبيد : سبعة أحرف : يعني : سبع لغات من لغات العرب ، وليس معناه ان يكون في الحرف الواحد سبع لغات ، ولكن هذه اللغات السبع متفرقة في القرآن ، فبعضه بلغة قريش ، وبعضه بلغة هوازن ، وبعضه بلغة هذيل ، وبعضه بلغة أهل اليمن ، وكذلك سائر اللغات ومعانيها في هذا كله واحدة ، معناه : أنزل القرآن مأذونا للقارئ أن يقرأ على أي هذه الوجوه شاء ، قالوا : وكان ذلك توسعة من الله عز وجل ورحمة على هذه الأمة ، إذ لو كلف كل فريق منهم ترك لغتهم ، والعدول عن عادة نشؤوا عليها إلى غيرها ، لشق عليهم ، يدل عليه ما روي عن أبي بن كعب أنه قال : لقي رسول الله ( صلى الله عليه وسلم ) جبريل ، فقال : "يا جبريل إني بعثت إلى أمة أميين ، منهم العجوز ، والشيخ الكبير ، والغلام ، والجارية ، والرجل الذي لم يقرأ كتابا قط، قال : يا محمد إن القرآن أنزل على سبعة أحرف ".
والله تعالىٰ أعلم بالصواب
دارالإفتاء الإخلاص،کراچی