سوال:
لڑکی شادی کے پانچویں دن سسرال کے گھر سے دوسرے لڑکے کے ساتھ بھاگ گئی ہے لڑکی مل جائے تو اس صورت میں لڑکی کے ساتھ کیا ہونا چاہیے؟
جواب: واضح رہے کہ شادی شدہ عورت کا کسی اجنبی مرد کے ساتھ بھاگنا انتہائی بے حیائی اور حرام کام ہے، البتہ اس فعل کی وجہ سے ان کا نکاح نہیں ٹوٹا ہے، لہذا اگر یہ عورت کسی طرح واپس آجاتی ہے اور اپنے اس فعل پر سخت ندامت کا اظہار کرتے ہوئے توبہ کرلے اور شوہر اس کو معاف کرکے اپنے نکاح میں باقی رکھنا چاہے تو شوہر کے لیے اسے اپنے نکاح میں رکھنا جائز ہے، تجدید نکاح کی ضرورت نہیں ہے، البتہ اگر اس دوران عورت نے دوسرے مرد کے ساتھ ہمبستری کی ہو تو شوہر کے لیے مستحب ہے کہ وہ عورت کی ایک ماہواری گزرنے تک اس سے ہمبستری نہ کرے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
المبسوط للسرخسي: (كتاب الطلاق، 6/5، ط: مكتبة رشيدية)
ثم معنى النعمة، انما يتحقق عند موافقة الأخلاق، فاما عند عدم موافقة الأخلاق فاستدامة النكاح سبب لامتداد المنازعات، فكان الطلاق مشروعا مباحا للتفصي عن عهدة النكاح عند عدم موافقة الأخلاق.
فتح القدير: (463/3، ط: دار الفكر)
وأما سببه فالحاجة إلي الخلاص عند تباين الأخلاق وعروض البغضاء الموجبة عدم اقامة حدود الله.
الدر المختار مع رد المحتار: (527/3، ط: دار الفکر)
والمزني بها لا تحرم على زوجها. وشرح الوهبانية: لو زنت المرأة لا يقربها زوجها حتى تحيض لاحتمال علوقها من الزنا فلا يسقي ماؤه زرع غيره.
(قوله: والمزني بها لا تحرم على زوجها): فله وطؤها بلا استبراء عندهما، وقال محمد: لا أحب له أن يطئها ما لم يستبرئها كما مر في فصل المحرمات.
(قوله:لا يقربها زوجها): أي يحرم عليه وطؤها حتى تحيض وتطهر كما صرح به شارح الوهبانية، وهذا يمنع من حمله على قول محمد لأنه يقول بالاستحباب، كذا قاله المصنف في المنح في فصل المحرمات وقدمنا عنه أن ما في شرح الوهبانية ذكره في النتف وهو ضعيف إلا أن يحمل على ما إذا وطئها بشبهة اه. فافهم
واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی