سوال:
میں ایک ادارے میں ملازم ہوں، مجھ کو کمپنی والے کہتے ہیں کہ ہم آپ کی تنخواہ میں سے ہر ماہ پانچ سو کاٹیں گے اور یہ پیسے ایک انشورنس کمپنی کو دیں گے، پھر جب کبھی آپ اپنا یا گھر والوں کا علاج کروائیں تو اس کا جو بھی بل ہو خواہ وہ ایک لاکھ کا ہی کیوں نہ ہو آپ ہمیں دیں ہم وہ بل اس انشورنس کمپنی کو دیں گے وہ آپ کا سارا بل ہسپتال والوں کو یا اگر آپ ادا کرچکے ہیں تو آپ کو دیں گے۔ معلوم یہ کرنا ہے کہ انشورنس کمپنی سے یہ رقم لینے کا شرعا کیا حکم ہے؟ کیونکہ انشورنس کمپنی کے پاس پریمیم حلال رقم کا بھی ہوتا ہے تو کیا ہم یہ سمجھ کر کہ اس رقم کے بقدر تو انشورنس کمپنی کے پاس حلال رقم موجود ہوگی یہ رقم حلال ہے کیا یہ درست ہے؟
جواب: واضح رہے کہ مروجہ انشورنس میں عموماً سود اور غرر (غیر یقینی صورتحال) پایا جاتا ہے، جوکہ ناجائز اور حرام ہے، اس لئے مروجہ انشورنس کی پالیسی لینا شرعا جائز نہیں ہے۔
البتہ مروجہ انشورنس کے متبادل کے طور پر علماء کرام نے شرعی اصولوں کے مطابق " تکافل" کا نظام تجویز کیا ہے، ایسی تکافل کمپنی جو مستند مفتیان کرام کے زیر نگرانی کام کر رہی ہو، ان سے پالیسی لینے کی گنجائش ہے۔
لہذا ملازمین کا اپنی مرضی سے کمپنی کی انشورنس پالیسی میں حصہ ڈالنا شرعا درست نہیں ہے، اگر ملازم نے اپنی مرضی انشورنس پالیسی لے لی ہو، تو اس کا حکم یہ ہے کہ جتنی رقم جمع کروائی ہے، اتنی ہی لے سکتے ہیں، اس سے زائد رقم لینا جائز نہیں ہے۔
لیکن اگر کمپنی ملازمین کی مرضی کے بغیر جبری طور پر انشورنس کرواتی ہے، تو ملازمین کیلئے انشورنس پالیسی سے فائدہ اٹھانے کی درج ذیل تین صورتیں ہیں:
(1 ) کمپنی کے ملازمین کسی کلینک یا ہسپتال سے علاج کراتے ہوں اور علاج کے اخراجات کلینک یا ہسپتال والے براہ راست انشورنس کمپنی سے وصول کرتے ہوں، اس صورت میں اگرچہ کمپنی کو انشورنس کے معاملے کا گناہ ہوگا، لیکن ملازم کے لیے جائز ہے کہ وہ علاج کرائے، کیونکہ علاج کے خرچ کی ذمہ داری کمپنی پر ہے، پھر وہ بل کی ادائیگی کے لیے جو طریق کار اختیار کرے، اس کی ذمہ دار وہ خود ہے۔
(2 ) دوسری صورت یہ ہے کہ کمپنی کے ملازمین کسی کلینک یا ہسپتال سے علاج کراتے ہیں اور کلینک یا ہسپتال والے علاج کے اخراجات ان ملازمین کی کمپنی سے وصول کرتے ہیں، پھر کمپنی اس علاج کے اخراجات انشورنس کمپنی سے وصول کر لیتی ہے، یہ صورت بھی کمپنی کے لیے جائز نہیں ہے، مگر ملازم کے لیے اس طرح علاج کروانا جائز ہے۔
(3 ) تیسری صورت یہ ہے کہ ملازم کلینک یا ہسپتال کی فیس خود ادا کرے، لیکن کمپنی نے اسے پابند کر دیا ہو کہ وہ بل کی رقم خود جاکر انشورنس کمپنی سے وصول کرے، اس صورت میں چونکہ ملازم کو انشورنس کمپنی سے براہ راست رقم مل رہی ہے، جس کی زیادہ تر رقم حرام ہے، اس لیے ملازم کے لیے اس کا لینا جائز نہیں، البتہ اگر ملازم کو یہ معلوم ہو سکے کہ اس کی کمپنی نے انشورنس کمپنی کو جتنا پریمیم ادا کیا ہے، ابھی تک اتنی رقم اس کے ملازم نے وصول نہیں کی، تو جتنا پریمیم (اقساط) انشورنس کمپنی کو دیا گیاہو تو صرف اس حد تک رقم وصول کرنا جائز ہوگا، اس سے زیادہ نہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
القرآن الکریم: (البقرة، الایة: 278، 279)
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا اللَّهَ وَذَرُوا مَا بَقِيَ مِنَ الرِّبَا إِنْ كُنْتُمْ مُؤْمِنِينَo فَإِنْ لَمْ تَفْعَلُوا فَأْذَنُوا بِحَرْبٍ مِنَ اللَّهِ وَرَسُولِهِ ۖ وَإِنْ تُبْتُمْ فَلَكُمْ رُءُوسُ أَمْوَالِكُمْ لَا تَظْلِمُونَ وَلَا تُظْلَمُونَo
فقه البیوع: (1066/2، ط: مکتبة دار العلوم کراتشی)
أما عملیۃ التأمین، فعملیۃ تشتمل علی الربوا أو علی الغرر أو علیھما کما سیأتی إن شاء اللہ تعالی. و بھذا أفتی
کذا فی تبویب الفتاوی جامعہ دار العلوم کراچی: رقم الفتوی: (490/69)
واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی